ارے ظاہر ہے، اک ذرا ویک اینڈ پر ہی سکون کے لمحات میسر آتے ہیں۔ اور ہر کام میں تمھارا عادی ہوں تمھارے بغیر بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تمھاری غیر موجودگی میں ایک چابی یا فائل تک تو ملتی نہیں ہے، اِدھر سے اُدھر ڈھونڈتا رہتا ہوں اور پھر آخر کار فون کر کے پوچھنا پڑتا ہے۔“ ندیم نے بے چارگی سے کہا۔۔۔۔۔ مہوش کرن

ساتویں قسط

وہ آئینے کے سامنے کھڑی نک سک سے تیار ہو رہی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات تھی ، جب موسم اچھا ہوا کرتا اور وہ موسم کوئی اور نہیں اجالا کے دل کا ہوتا تھا۔ وہ خود کو یہ تسلیاں دیتی رہتی تھی :"کیا ہوا اگر مجھے قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہر لڑکی کو گھر میں جگہ بنانے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کچھ زیادہ ہو جائے تو بھی چپ رہنا ہی مناسب ہے، آخر کو گھر بسانے کے لیے گھر بچانا بھی تو پڑتا ہے۔ میں کون سا کوئی خاص کمال کر رہی ہوں، ہر اچھی لڑکی کو یہی کرنا چاہیے بلکہ میرے خیال سے تو ہر لڑکی یہی سب کرتی ہوگی۔ ہر کوئی اپنی باتیں دوسروں کو تو نہیں بتاتا نا، آخر میں بھی تو سب کی عزت رکھنے کے لیے ہر بات ہر کسی کو نہیں بتاتی۔ اور پھر یہ محنت ضائع تھوڑی جائے گی۔ مجھے یقین ہے ایک نہ ایک دن میں سب کا دل جیت لوں گی۔ اور ویسے بھی باقی لوگوں کا کیا ہے، جب میرے شوہر سے میری اچھی خاصی انڈرسٹینڈنگ ہے۔ اب تو وہ میرے بغیر ایک پل سانس نہیں لے سکتے۔

اس کی شادی کی سالگرہ تھی۔ اور اتنے سالوں سے اسے اپنی سالگرہ اور شادی کی سالگرہ پر بھی بڑے خوبصورت انداز میں سرپرائز گفٹ ملا کرتا تھا۔ کبھی کمرے کی کھڑکی پر کوئی تھیلا لٹکا ملتا، کبھی لاؤنج کے صوفے پر کوئی پیکٹ رکھا ہوتا، اور تو اور ایک دفعہ تو کچن کے اوون میں تحفہ رکھا تھا۔ جو ندیم کسی بہانے سے اس دن اجالا کو لانے کے لیے کہتے یا خود نکال کر دیتے۔ اس بار بھی سونے کی انگوٹھی ملی تھی۔

حالانکہ کچھ دن پہلے جب اجالا کی طبیعت خراب تھی اور کان میں درد ہونے کے باعث وہ سوتی رہ گئی تھی اور روشن کے واپس جانے پر انہیں بہت خاص پروٹوکول نہیں دے پائی تھی تو بھی ساس کے تماشا لگانے پر رو رو کر ان سے معافی مانگ چکی تھی۔ جب کہ مہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا اور صاف واضح کر دیا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا جو میں معافی مانگوں؟ باجی آئی ہوئی تھیں، واپس چلی گئیں۔ دوپہر کا وقت تھا، میں اپنے شوہر کے ساتھ کمرے میں تھی، اگر نہیں نکلی تو قیامت تو نہیں آ گئی۔ اس کے حصے کی معافیاں اکثر دانش مانگتا ہوا نظر آتا اور مہرین اکثر اجالا کو یہ کہتی آپ اپنے ساتھ اس طرح کیوں کرتی ہیں۔ اجالا کیا جواب دیتی بس یہی سوچتی رہ جاتی کہ مہرین اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کی قیمت تو ساری زندگی چکانی پڑے گی نا۔ اور پھر ندیم اسے کان کے ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئے یقیناً معافی مانگنے کی وجہ سے ہی، وہ اسے تکلیف میں دیکھ کر بہت پریشان ہوگئے تھے۔

اگر وہ اور ندیم کہیں جاتے اور رات دیر سے واپس آتے تو کچن، میز اور کھانے کا سارا سامان پھیلا ہوتا تھا۔ اجالا کو سب کچھ اسی وقت سمیٹنا پڑتا تھا۔ جب کہ جانے سے پہلے وہ پکانے، بنانے اور لگانے کا سب کام کر کے جایا کرتی تھی۔ اور چاہے کتنی دیر، تھکن یا بیماری ہوجائے صبح ساس کو ناشتا دینا اجالا ہی کا کام تھا۔ کیونکہ انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب یہ شہنیلا کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جب سب گھر والے کہیں اکٹھے جاتے تو خود ہی یہ اخذ کر لیا جاتا کہ اجالا کو تو صبح سب کا ناشتا بنانے کے لیے جلدی اٹھنا ہوتا ہے اس لیے وہ نہیں جائے گی۔ سب لوگ چلے جاتے اور وہ آدھی رات تک اکیلی بیٹھی رہتی تھی۔ جب والدین کے گھر رہنے جاتی تو بھی کتنی چیزیں پکا کر فریز کر دیا کرتی تھی۔ اور پھر ساس سے اجازت لینا بھی ایک معرکہ سَر کرنے کے برابر ہوا کرتا تھا۔

لیکن کوئی بات نہیں ندیم اسے لے جایا کرتے تھے نا، کبھی شاپنگ پر، کبھی ڈنر پر، کبھی بیرونِ ملک ۔۔۔ اس کے لیے یہی بہت تھا۔ جان نچھاور کرتے تھے اس پر، جب میکے رہنے جاتی گھنٹوں فون پر باتیں کرنا، یہاں تک کہ روزانہ کی دوا بھی وہی فون پر بتا بتا کر کھلایا کرتی تھی، اس کی غیر موجودگی میں ندیم کو رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی، وہ کہا کرتے تھے، سینے پر ایک پتھر پڑا رہتا ہے نا تو نیند آجاتی ہے۔ جب نہیں ہوتا تو سونا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہائے کیا خود فریبی تھی سینے کا پتھر قسمت پر پڑنے والا تھا لیکن اس وقت بھلا کیسے اندازہ ہو سکتا تھا۔ وہ والہانہ پن، وہ محبت، وہ اپنائیت جو اکیلے میں ہی سہی مگر اسے ملتی تو تھی نا۔ باتیں، ہنسی مذاق، گھومنا پھرنا، اکیلے بھی ہوتا اور کبھی سب کے ساتھ بھی۔ بس گھر والوں کے ساتھ الٹی سیدھی باتیں ہوتی رہتی جو اب وہ مجبوری کے علاوہ ندیم کو بتاتی بھی نہیں تھی۔

بعض اوقات وہ جس بات کو یاد بھی نہ رکھتی اسے رائی کا پہاڑ بنا لیا جاتا تھا۔ جیسے شادی کی پچھلی سالگرہ پر جب اجالا کو ڈنر پر جانا تھا، چھٹی کا دن تھا اور وہ رات کے لیے کچھ خاص پکا کر جانا چاہتی تھی تاکہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے، مگر سامان موجود نہیں تھا۔ بس اتنا سا کہنے کی دیر تھی کہ گھر میں تین لڑکے ہیں لیکن کوئی چیزیں لا کر نہیں دے سکتا، بس ساس نے یہ جملہ پکڑ لیا اور رات کو جب دونوں تیار ہوکر نکل رہے تھے تو رنگ میں بھنگ ملانے کے لیے انہوں نے بول دیا، میرے بیٹوں کو اپنی نظر لگا کر چل پڑیں گھومنے، جانے تمھاری کاری نظر کی کاٹ کیا ہوگی۔ چونکہ ساس اور شہنیلا کو ندیم کی اجالا کی طرف نرمی اور التفات ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اسی لیے وہ موقع کی تاک میں رہتیں اور بے موقع بھی کچھ نہ کچھ کرتی رہتی تھیں۔ تعجب یہ کہ اتنا کچھ کر کے بھی ان کی نفرت ختم کیا، کم بھی نہیں ہوتی تھی۔ ظاہر ہے ندیم کا موڈ یہ سب سن کر خراب ہی ہوا تھا۔ اجالا چاہتی تو کوئی بھی جواب دے سکتی تھی کہ میرے اپنے تین بھائی ہیں میں کیوں کسی کو نظر لگاؤں گی لیکن موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے وہ چپ ہی رہی۔ اور ندیم کو راضی رکھنے کے لیے ساس سے اپنے الفاظ پر معافی مانگ لی تھی۔ اور وہ معافی عموماً ہاتھ جوڑنے اور پیر پکڑنے کی نوبت تک چلی ہی جایا کرتی تھی۔

شادی سے پہلے ہر لڑکی کی طرح طرح کی خواہشات ہوتی ہیں اس کی بھی تھیں لیکن گھریلو ماحول ایسا نہیں تھا۔ اسے گھومنا پھرنا، باہر آنا جانا، ہوٹلنگ، شاپنگ، بغیر روک ٹوک پارلر جانا، یہ سب چیزیں بہت پسند تھیں۔ شادی کے بعد ایسا ماحول ملا تو وہ بہت خوش ہوگئی۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بچے کو وقتی طور پر خوش کرنے کے لیے لولی پاپ پکڑا دیا جائے یا دکان میں رکھا جو کھلونا اسے پسند آیا ہو وہ بغیر ضد کیے اسے مل جائے تو جو کیفیت اس بچے کی ہوگی وہی کیفیت ایسے موقعوں پر اجالا کی بھی ہوا کرتی تھی۔

وہ ساری زیادتیوں اور ناانصافیوں کو یہ کہہ کر بھول جاتی کہ میرے ساتھ کچھ انوکھا تو نہیں ہو رہا یہ سب تو ہر گھر میں ہوتا ہے۔ بس میرا گھر بسا رہے، میرے شوہر میرے رہیں۔ جو کچھ مجھے ملا ہوا ہے بھلا کسی کو یونہی مل جاتا ہے، اس سے زیادہ کسی کو کیا چاہیے ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ یہی سوچتی رہی کہ میں ٹھیک ہی کر رہی ہوں۔ جانے اجالا کس مٹی کی بنی تھی، بس شوہر کو خوش کرنے کی آس میں ہر حد پار کیے جا رہی تھی۔

ندیم اسے عبایا نہیں پہننے دیتے تھے، عمرہ کے بعد سے جب اس نے اسکارف اور پوری آستینیں پہننا شروع کیا تھا اور ساڑھی پہننا چھوڑی تھی انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہوا تھا۔ لیکن اجالا نے خاموشی اختیار کی تھی کہ اگر شوہر کو یہ چیزیں اتنی زیادہ پسند نہیں تو کوئی بات نہیں، آخر شوہر کو راضی رکھنا بھی تو ضروری ہے تو کچھ کر لیا اور کچھ چھوڑ دیا۔ بس کبھی کبھار دل میں کسک سی اٹھتی تھی مگر پھر وہی شوہر کی محبت غالب آ جاتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بار جذبات میں آ کر ندیم سے یہ بھی کہہ چکی تھی کہ اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے، پھر چاہے ہماری اولاد نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ زائچے بھی بنتے، ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے، دعائیں بھی کرتے لیکن پھر بھی دونوں اس چیز کے عادی ہو چکے تھے۔ ندیم بھی کہتے تھے کہ مجھے اولاد کے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، تم بھی اس چیز کو خود پر سوار نہ کیا کرو، اس کے بغیر بھی سب اچھا ہے۔

ہاں سب برا ہوتے ہوئے بھی اچھا تھا۔ اجالا نے مہرین کے بچوں سے اپنا دل لگا لیا تھا۔ جو پیار سے اسے می اور اور ندیم کو ابو کہتے تھے۔ بچے اجالا سے بہت ہلے ہوئے تھے اور وہ خود بھی ان پر جان دیتی۔ جب مہرین اپنے میکے جاتی تو اجالا کا دل اداس رہتا، ایک تو بچوں کی شوخیاں نہیں ہوتی دوسرے مہرین سے دوستی کی وجہ سے دن بھر اچھا وقت گزر جاتا تھا۔ بظاہر یونہی نرم گرم دن گزر رہے تھے البتہ اندر ہی اندر بڑے طوفان کی تیاری ہو رہی تھی۔

”اچھا، جس نئی میرج بیورو میں شہنیلا کا نام لکھوایا ہے نا میں سوچ رہا ہوں کہ وہاں شعیب کا پروفائل بھی دے دوں۔ امی کو وہ خاتون بات چیت میں مناسب لگی تھیں۔“ ندیم بڑی فکرمندی سے کہہ رہے تھے۔ ”ابھی اس دن تو شہنیلا کے لیے امی کی رشتے والی آنٹی کا نمبر مجھ سے مانگا تھا، آج اپنی طرف دینے کے لیے شعیب کا پروفائل مانگ رہے ہیں۔ خیریت تو ہے؟“ اجالا نے حیرت سے پوچھا۔

”ہاں بھئی، بالکل خیریت ہے۔ ہر کسی کے لیے ہر طرف کوشش کرنی چاہیے۔ کیا پتا کہاں کامیابی ہو جائے۔“ ندیم نے سہولت سے کہا۔

”اوکے، سینڈ کر دیتی ہوں۔ ایک بات کی اجازت بھی لینی ہے۔ بہت عرصہ ہوگیا امی کی طرف رہنے نہیں گئی۔ مہرین کےپیر جلنے کا حادثہ اور پھر اس کی بہن کی شادی کی مصروفیت کی وجہ سے میرا تو جانا ہی نہیں ہوا۔ اب جانا چاہتی ہوں۔“ اجالا نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

”ہاں، تمھاری بات تو ٹھیک ہے۔ چلی جاؤ۔ کتنے دن رکو گی.؟“ ندیم نے اجازت دی اور پوچھا۔ ”کم از کم ایک مہینہ۔“

”ارے کیا کہہ رہی ہو، اتنے دن تک میں اکیلے کیا کروں گا۔؟“ ”آپ میرا انتظار کیجئے گا۔“

”نہیں بس پندرہ دن سے زیادہ نہیں رکنا۔ پھر ملائیشیا جانے کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔“ ”ہاں یہ بھی ہے۔ واپس بھی آ ہی جاؤں گی، پہلے جانے تو دیں۔ جمعہ کی شام مجھے چھوڑ دیجیے گا۔“ ”کیا کہا ،،، جمعہ ،،، ہرگز نہیں۔ میرا ویک اینڈ مت خراب کرو۔“ ندیم نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ ”شادی کو اتنے سال ہوگئے، آپ کا بچپنا ختم نہیں ہوا.“
”ارے ظاہر ہے، اک ذرا ویک اینڈ پر ہی سکون کے لمحات میسر آتے ہیں۔ اور ہر کام میں تمھارا عادی ہوں تمھارے بغیر بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تمھاری غیر موجودگی میں ایک چابی یا فائل تک تو ملتی نہیں ہے، اِدھر سے اُدھر ڈھونڈتا رہتا ہوں اور پھر آخر کار فون کر کے پوچھنا پڑتا ہے۔“ ندیم نے بے چارگی سے کہا۔ ”اچھا ہے نا، اس بہانے آپ پلٹ پلٹ کر میری طرف آتے رہتے ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے جمعے کو نہیں جاتی، اتوار کی صبح چلیں گے، سب کے ساتھ ادھر ہی ناشتہ کریں گے۔“
”ہاں یہ ٹھیک ہے، چھٹی والے دن تینوں لڑکے گھر پر ہی ہوں گے۔ ابو اور سب کے ساتھ اچھی محفل رہے گی۔ پھر مجھے مجبوراً شام میں اکیلے گھر واپس آنا پڑے گا۔“
”اور گھر جاتے ہی مجھے فون کر لیں گے۔ وہاں جاتی ہوں تو سکون سے رہنے دیا کریں نا۔“ ”اوکے رہنا سکون سے۔ مگر جانے سے پہلے ہفتے کو بازار چلیں گے۔ کچھ نئے کپڑے لے لینا، امی کے لیے بھی کوئی اچھی سی چیز لیتی جانا۔ اور ہاں ملائیشیا جانے کے لیے نیا سوٹ کیس لینا ہے پچھلے سال سنگاپور سے واپس آتے ہوئے سوٹ کیس ٹوٹ گیا تھا۔“
”ہاں، مجھے یاد ہے۔ چلیں ٹھیک ہے پھر میں باقی ضروری چیزوں کی بھی لسٹ بنا لوں گی۔“ اجالا نے اطمینان سے کہا۔
اگلے دن جیسے تیسے ہمت کر کے ساس سے اجازت مانگی، خلافِ توقع وہ نہایت آرام سے مان گئیں۔ بس پھر کیا تھا تین دن وہ خوب خوشی خوشی کام سمیٹتے رہی کئی طرح کے سالن بنا کر فریز کرتی رہی۔ شاپنگ، تفریح اور ایک زبردست ویک اینڈ گزار کر وہ دونوں اتوار کے دن صبح صبح اجالا کے گھر پہنچ چکے تھے۔ سارا دن ندیم وہیں رہے، لڑکوں اور ابو کے ساتھ خوب باتیں، اور کھانے پینے چلتے رہے۔ شام کو ندیم واپس چلے گئے۔

”بس امی اب رہنے آگئی ہوں نا، اب روز اپنے ہاتھ سے مزیدار سی چیزیں بنا کر کھلائیں۔“ ”ہاں ہاں، کیوں نہیں اتنے مہینوں بعد آئی ہو۔ اطمینان سے رہو، کھاؤ، پیو، آرام کرو۔“ ”آرام بالکل نہیں، صرف آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاؤں گی باقی سارے کام میری ذمہ داری ہیں، آپ کو بھرپور آرام کرواؤں گی۔“

”چلو ٹھیک ہے مل جل کر سب کام ہو جائیں گے۔ فی الحال تو تم آگئی ہو نا میرے لیے یہی کافی ہے۔ البتہ کس کس کے گھر ملنے جانا ہے یہ سوچ لینا تاکہ تمھارے ابو کے ساتھ وہاں ملنے چلے جائیں۔“ ”جی امی، جانا تو کئی جگہ ہے۔ بہت عرصہ ہوگیا۔ نانی امی، ماموں، خالہ، پھوپی، چچا سب کے گھر جانا ہے مگر ابھی نہیں تین چار دن بعد۔“

رات کے کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر ندیم کی کال آگئی۔ وہ دوائی کھلوا کر، فائل سامنے نکلوا کر اور صبح فجر پر اٹھنے کی تاکید کرنے کے بعد سکون کی نیند سو گئی۔ مگر آنے والے دِنوں میں سکون بے سکونی میں بدلنے والا تھا۔
(جاری ہے ۔۔۔)