ندا اختر
یادوں کے دریچوں سے جھانکتی تصورات میں کھوئی ہوئی بارش کی رم جھم میں بھیگی ہوئی باتیں تیری ۔ ۔ ۔۔
میں تم سے بچھڑ کر اکثر ڈھلتی شاموں کی طرح نگاہوں کو جھکا لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی انتظار میں آنکھیں موندے سوچتی ہوں کہ کہیں سے چہرہ آپ کا نمودار ہو میرے دن کے روشن سورج کی طرح ۔۔
۔۔ مگر اکثرڈھلتی شام میرا ہی وجود بھلا دیتی ہے اور میں مکمل تم بن کر آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر تسلی پاتی ہوں کہ تم ہی اب مجھ میں سما گئے ہو ۔ ۔۔۔ ہمنوا تھے جو کبھی اس خزاں کے جھڑتے پتوں سے پوچھتی ہوں کہ مجھے چھوڑ کے کہاں گئے ہو تم ۔۔۔ ۔