پھر ایک وقت آیا کہ پاکستان کی ائیر لائن دنیا کی بہترین ائیر لائن مانی گئی،ملک میں صنعتوں کا پہیہ گردش کرنے لگا،کراچی "روشنیوں کا شہر" اور "غریبوں کی ماں" کہلایا جانے لگا،ریلوے کا نظام بہتر ہونے لگا،ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگا،امن قائم ہونے لگا۔مگر افسوس۔۔۔!
حفصہ محمد فیصل کراچی

گذشتہ 76 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔ پاکستان کل اور آج:
ہماری پیاری دھرتی،جسے ہم دھرتی ماں بھی کہتے ہیں،اسلام کے نام پر 14 اگست 1947ء میں معرض وجود میں آئی۔ کتنی خوش قسمت ماں تھی جو اسلام کے نام پر بنی۔
کتنے خوش تھے اس کے بیٹے کہ اس کی پاک گود میں بلا خوف خطر رہیں گے۔ اس پیاری دھرتی کا وجود میں آنا کوئی آسان کام نہیں تھا،لاکھوں لوگوں نے اس کے قیام کے لیے اپنا خون بہایا،اس امید پر کے آنے والی نسلیں ایک آزاد اسلامی معاشرے میں آنکھ کھولیں گی۔اس خوش کن تعبیر کے لیے کتنی ماؤں نے اپنے لخت جگر کھوئے،کتنی سہاگنیں بیوہ ہوئیں،کتنی ہی عزتیں پامال ہوئیں،تب جاکر اس پاک دھرتی کا نقشہ ابھرا ۔اور اس کا نام "پاکستان" رکھا گیا،یعنی "پاک استہان" پاک جگہ،اللہ نے کیا ہی پیارا نام اس کا مقدر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد اس ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں تھا،یہ لٹا پٹا ملک تھا،لاکھوں جگر چھلنی تھے،وسائل کی کمی تھی،مگر لوگوں کے دلوں میں شوق و ولولہ تھا،"روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن اس ملک کی ترقی کے لیے دن رات کام کریں گے"۔ اپنا وطن تھا،اپنے لوگ تھے۔سب کے دکھ سکھ سانجھے تھے،پیار و محبت تھا اتفاق تھا۔ مساجد میں سجدہ شکر ادا ہورہے تھے۔لیکن دین و ملک کے دشمن سے یہ سب دیکھا نہ گیا،اور وہ اپنی چالیں چلنے لگا۔
یہ 1965 کا سن تھا۔ ہندو بنیے نے اس ملک پر شب خون مارنے کی سوچی،لیکن مسلمانوں میں اتحاد اور ایمان کی طاقت کے سامنے اسے منہ کی کھانی پڑی۔ فوجی جوانوں کے ساتھ عام شہریوں میں بھی لڑنے اور کٹ مرنے کا وہ جذبہ موجزن تھا جس کے سامنے ہندو بنیے کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کا وہ خواب کے "صبح کا ناشتا لاہور میں کریں گے" خواب ہی رہا۔
اب دین و ملک کے دشمن اس اتحاد کو توڑنے اور ایمان کو کمزور کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ وہ جان گیے کہ جب تک مسلمانوں میں ایمان و اتحاد کی طاقت ہے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتے ۔اب اس دھرتی میں غداروں کے روپ میں بھیڑئیے شامل ہونے لگے۔وہ مسلمانوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھانے لگے۔نسلی تعصبات ،اور فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینے لگے،اور خود اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے لگے۔
آخر کار ان دشمنوں کی چالیں اور سازشیں کامیاب رہیں اور 1971ء میں اس پاک دھرتی ماں کو اپنے ایک لخت جگر سے ہاتھ دھونا پڑا،اور صوبہ بنگال اس ملک سے علیحدہ ہو گیا۔یہ سب کیسے ہوا؟
یہ ایک المناک داستان ہے۔مگر وہاں اور یہاں کے مسلمانوں میں ابھی بھی ایک دوسرے کے لیے محبت ہے۔مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں ایک دوسرے سے لازمی محبت رکھتے ہیں۔
پھر ایک وقت آیا کہ پاکستان کی ائیر لائن دنیا کی بہترین ائیر لائن مانی گئی،ملک میں صنعتوں کا پہیہ گردش کرنے لگا،کراچی "روشنیوں کا شہر" اور "غریبوں کی ماں" کہلایا جانے لگا،ریلوے کا نظام بہتر ہونے لگا،ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگا،امن قائم ہونے لگا۔مگر افسوس یہ سہانہ خواب جلد ہی ٹوٹ گیا،اس ملک کو اسی کے ضمیر فروشوں نے لوٹ لیا،
برباد ی گلشن کے لیے بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
میری اس پاک دھرتی کو بے دردی سے لوٹا گیا،جس اسلام کے نفاذ کے لیے اس ملک کا حصول کیا ابھی تک اس کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا۔مگر اس دھرتی کے لوگ پر امید تھے کہ ایک دن ان کی محنت اور دعائیں رنگ لائیں گی۔
اس ملک کی بدقسمتی رہی کہ کبھی اس ملک پر مارشل لاء کے بادل چھا جاتے اور کبھی ظالم اور نااہل حکمران مسلط ہو جاتے جو عوام کو جھوٹی امیدیں دلا کر صرف اپنی جیبیں بھرتے ۔
کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ یہ ملک آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہوا۔ انصاف عدالتوں سے ختم ہوتا گیا۔غریبوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا ۔فرقہ واریت ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ملک میں وسائل ہونے کے باوجود بھی یہ بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔
بےراہروی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے شریف انسان کے لیے جینا دوبھر ہو گیا ہے۔اسلام کو شدت پسند مذہب قرار دیا جارہا ہے۔ جس پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا وہ ایسا تو نہ تھا،جس ملک کو قائد اعظم نے بنایا وہ یہ تو نہ تھا۔ اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک میں مسلمانوں کے لیے ہی زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے۔کون ہے ہم میں جو ملک کوتباہی کے اس دھانے پر لے جارہا ہے؟
اے اہل وطن شام سحر جاگتے رہنا
اغیار ہیں آمادہ شر جاگتے رہنا
الحمدللہ ہمارے اس ملک میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی ہنر مند افراد کی،کمی ہے تو ایسی ایمان دار قیادت کی جو سب لوگوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرے،جو صرف اپنے مفاد کے بارے میں نہ سوچے،بلکہ ساری قوم کا درد رکھے،جو جزبہ ایمان سے سرشار ہو۔ اگر ایسی قیادت میسر ہو جائے تو یہ ملک انشاء اللہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گا۔کیونکہ اس قوم میں ہمت و جذبے کی کمی نہیں۔ بقول اقبال؛
"ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی"