ایسے لوگوں سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ اگر آپ اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو خودکشی کر لیتے انہیں قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غربت دنیا کے ہر ملک میں ہے حتی کہ امریکا اور قطر جیسے ترقی یافتہ امیر ممالک میں بھی ہے۔

حمیراعلیم


ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک شخص نے اپنی 5 بیٹیوں اور ایک بیٹے کو جن کی عمریں 18 سے 12 سال تھیں بیوی سمیت زہر دے کر صرف اس بناء پر قتل کر دیا کہ وہ غریب ہے اور ان کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا۔چناں چہ اس نے انہیں چائے میں زہر دے کر مار دیا۔اور خود زہریلی چائے نہیں پی۔

ایسے لوگوں سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ اگر آپ اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو خودکشی کر لیتے انہیں قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غربت دنیا کے ہر ملک میں ہے حتی کہ امریکا اور قطر جیسے ترقی یافتہ امیر ممالک میں بھی ہے۔امریکامیں ایک بڑی تعداد بے گھر ہے وہ شدید برف باری میں فٹ پاتھ پر گتے کے ڈبوں میں رہتے ہیں۔شیلٹر ہومز سے کھانا کھاتے ہیں۔افریقا کے کئی ممالک میں قحط پڑتا ہے لوگ بھوکے ہیں مگر جی رہے ہیں۔فلسطین سمیت کئی ممالک جنگ کا شکار ہیں کھلے آسمان تلے اپنے خاندان کھو کر بھی زندہ ہیں۔گھاس ابال کر کھا رہے ہیں پھر بھی رب کے شکر گزار ہیں۔نہ کوئی خودکشی کرتا ہے نہ ہی خاندان والوں کو قتل۔

یہ کیڑا صرف پاکستانیوں کے دماغ میں ہی کلبلاتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پالنہار سمجھ بیٹھے ہیں۔وہ یہ بھول چکے ہیں کہ رب صرف اللہ بزرگ و برتر ہے۔کئی لوگ معذور و لاوارث ہیں، بچے یتیم ہیں، خواتین بیوہ ہیں مگر اللہ کی ذات ان کو ہر چیز مہیا کر رہی ہے۔جو رب انڈے میں سے جان دار نکال سکتا ہے ماں کے پیٹ میں بچے کو نو ماہ خوراک دیتا ہے وہ اپنے بندے کو کیسے مرنے دے سکتا ہے؟

غربت آج کااور پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں۔میں اکثر سوچتی ہوں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے سوائے چند ایک کے سب غریب تھے۔ انہیں تو یہ حق بھی حاصل تھا وہ موت کا وقت بھی اپنی مرضی سے طے کر سکتے تھے پھر بھی دنیاوی آسائشوں سے محروم رکھے گئے۔پاکستان کے حالات دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی غربت والی زندگی کو ہمارے لیے مثال بنانا تھا۔انبیاء ہونے کی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بڑھئی، درزی، کسان، لوہار ، تاجراور چرواہے کا کام کر کے اپنے خاندان بھی پالتے تھے۔یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم قوم کو تبلیغ بھی کریں اور کام بھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا کھانا چند کھجوریں اور پانی ہوتا تھا مگر وہ دو دن کے فاقے کے ساتھ خندق کھودنے کا کام بھی کرتے تھے۔کبھی کسی کام کو حقیر نہیں جانتے تھے۔

لیکن ہم پاکستانی توشاید کوئی بہت ہی توپ چیزیں ہیں۔جو محنت مزدوری کو اپنے شایان شان نہیں جانتے ہاں آسان حل ہے قتل یا خودکشی۔بھئی اگر اس حرام کو اختیار کر سکتے ہیں تو بھیک مانگنے یا کسی مزار سے کھانا کھانے، صدقہ خیرات لینے میں کیا قباحت ہے۔عزت نفس قائم رکھنا اور سوال نہ کرنا افضل ہیں مگر کبیرہ گناہ سے بچنا افضل ترین ہے۔ آج سے صرف دو صدی پہلے تک بجلی، پانی کے نلکے، گیس کے چولہے ہیٹر، ٹی وی، فریج، گیزر، کار، سائیکل، کمپیوٹر، موبائل، بینک کے اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ اور دیگر سہولیات جو آج ایک بچہ بھی انجوائے کر رہا ان کا وجود بھی نہیں تھا۔ ہمارا ایک غریب ترین شخص بھی دو صدی پہلے کے بادشاہ کے مقابلے میں شہنشاہ ہے۔لیکن ہم دنیا میں جنت چاہتے ہیں وہ بھی بنا ہاتھ ہلائے۔

یاد رکھیے دنیا دار الآزمائش ہے دارالسکون تو صرف جنت ہے۔یہاں خواہ ایوب علیہ السلام جیسا صابر نبی ہو ابراہیم علیہ السلام جیسا اواب منیب خلیل اللہ پیغمبر یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین اسے ہر چیز سے آزمایا جاتا ہے۔اولاد اور عزیزوں کی موت، بیماری، مال اور کھیت کا نقصان اور دیگر آزمائشیں زندگی کا حصہ ہے اور ہمارے گناہ دھونے کی واشنگ مشین۔اس لیے آزمائشوں کی تیاری کیجئے انہیں پاس کرنا سیکھیے فیل ہونے میں کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ہاں پاس ہونے اور کسی امتیازی حیثیت کے لیے شدید محنت کرنی پڑتی۔اور اگر کوئی بہت ہی سستی کا مارا ہے تو میری درخواست ہے صرف اپنی جان لینے کا حرام کمائیے کیوں کہ قصور سراسر آپ کا ہے کسی اور کا نہیں کہ آپ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے ان سے فرار کو آسان جانتے ہیں۔دوسروں کے قتل کا نہیں کیوں کہ آپ کسی کے رب نہیں خالق و رزاق اللہ یے اور وہی آپ کے اہل خانہ کو آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے بعدبھی پالتا ہے۔