لا الہ الا الله
حفصہ بتول تلہ گنگ
ننھا طلحہ یونیفارم پہنے جیسے ہی ا سکول کے دروازے سے داخل ہوا،اندر کے ماحول نے اسے یک دم حیران کر دیا۔ اسکول میں ہر طرف گہما گہمی تھی،پورا اسکول سبز جھنڈیوں اور غباروں سے سجا ہوا تھا،سبھی بچے سبز و سفید لباس میں خوشی سے جھومتے نظر آ رہے تھے ،گویا اسکول میں کسی جشن کا سماں تھا۔ ” آج 14 اگست ہے، تو اسکول میں اس دن کی یاد میں تقریب ہے“
طلحہ کو آج کی تاریخ یاد آئی تو آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔ آج ایک ہفتہ کی چھٹی کے بعد طلحہ ا سکول آیا تھا،اس لیے اسے آج ہونے والی تقریب کا نہیں پتا تھا ، نم آنکھوں سے وہ ہنستے کھیلتے بچوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ گھنٹی کی آواز سنائی دی اور سب کو بڑے ہال میں جمع ہونے کا کہا گیا۔
طلحہ کا جی چاہا وہ الٹے قدموں واپس مڑ جائے،مگر پھر کچھ سوچ کر وہ بھی اس جانب بڑھ گیا اور اگلی نشستوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا،پھر حمد و نعت اور مختلف ملی نغموں کا سلسلہ شروع ہوا،تقریروں ا ور خاکوں سے پاکستان بننے،آباؤ اجداد کی قربانیوں،ان کی مسلسل جدو جہد کو ظاہر کیا گیا،اور الگ وطن کے حصول پہ مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔
سب لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور تالیوں کی آواز سے پورا ہال گونج رہا تھا۔ تقریب اختتام کی طرف جا رہی تھی کہ طلحہ کو کچھ سوچا، کھڑا ہوا،پھر اپنے کلاس انچارج کے پاس پہنچ گیا۔ ”السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ!
سر میں بھی اسٹیج پہ جا کے تقریر کرنا چاہتا ہوں“ ”وعلیکم السلام ورحمتہ الله وبرکاتہ
او طلحہ بیٹے آپ! کیسے ہیں؟ مجھے معلوم نہیں تھا آپ آج آئے ہوئے ہیں۔“ طلحہ خاموش نظروں سے ان کی طرف دیکھتا رہا...
”آپ کہہ رہے ہیں آپکو تقریر کرنی ہے تو بیٹا کیا آپ نے تقریر کی تیاری کی ہے ؟“ ” جی سر“
مختصر جواب دے کے طلحہ نے سر جھکا لیا۔۔۔ ”ٹھیک ہے بیٹا،آپ کو بھی ضرور موقع دیا جائے گا“ طلحہ شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس اپنی کرسی پہ بیٹھا۔ کچھ ہی دیر میں طلحہ کو اسٹیج پہ بلایا گیا،وہ سر جھکائے چلتا ہوا اسٹیج پر پہنچا۔۔۔ سبھی لوگ یونیفارم میں ملبوس اس بچے کو دیکھ رہے تھے جو سب سے الگ لگ رہا تھا۔ طلحہ نے نظر اٹھا کے سب کو دیکھا،سوجی ہوئی لال آنکھوں کو دیکھ کر لوگوں کا تجسس بڑھا۔۔ ”بہت غریب بچہ لگ رہا ہے،شاید اس کے والدین اس کو 14 اگست کے لیے کپڑے نہیں دلوا سکے،تبھی رو رہا ہے ۔“ کسی کی سرگوشی کی آواز سنائی دی۔
”السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ“
طلحہ نے چہرہ اوپر کیے بلند آواز سے سلام کرنے کی کوشش کی،مگر اس کی آواز آنسؤوں میں گھٹ کر رہ گئی،اس نے پھر سر جھکا لیا۔
سب لوگ دکھ سے اس بچے کی طرف دیکھ رہے تھے جو اکیلا آج اداس تھا۔ اس کی اداسی کی وجہ کیا تھی آخر؟
کلاس انچارج نے لپک کے طلحہ کے سر پہ ہاتھ رکھا،اسے حوصلہ دینا چاہا۔ کچھ توقف کے بعد طلحہ نے سر اٹھایا۔
”آج کس چیز کی خوشی آپ لوگ منا رہے ہیں ؟“
سامنے بیٹھے لوگ جو تقریر سننے کے انتظار میں تھے طلحہ کی اس ابتدا اور سوال پر حیران ہونے لگے۔۔۔ ”آپ لوگ کس پاکستان کی آزادی پر خوش ہیں؟
پاکستان تو اسلام کی بنیاد پر بنا تھا نا کہ ہم سب آزادی سے اسلام پر عمل کر سکیں گے،آزادی سے نمازیں پڑھیں،قربانی کریں،اور اسلام کی باتیں کریں گے۔
گندے کاموں سے جو وہ ہندو کرتے تھے ان سے دور ہو جائیں، لیکن ایسا ہو تو نہیں رہا ہمارے ملک پاکستان میں، سب گندے کام جو وہ کرتے تھے ،یہاں بھی سب کرتے ہیں پھر کیوں آپ لوگ خوشی منا رہے ہیں ؟“
الله پاک کو گانا باجا اور ناچنا اچھا نہیں لگتا اور سب یہی سب کرکے تو خوشی مناتے ہیں ۔ آپ کہتے ہیں آپ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اس آزادی پر لیکن آپ تو اس طرح الله پاک کو ناراض کرتے ہیں“ طلحہ ٹھہر ٹھہر کے بولے جا رہا تھا کہ اچانک جوش میں آیا اور پھر تیز آواز سے پوچھنے لگا۔۔۔ ”پاکستان تو اس لیے بنا تھا کہ مسلمانوں کا الگ وطن ہو گا سب اس میں مسلمان محفوظ ہوں گے، لیکن یہاں تو ہم محفوظ نہیں ہیں،
اس ملک کی بنیاد میں ہمارے بڑوں کا خون ہے ،انہوں نے اس لیے دیا تھا نا کہ ہم یہاں آزادی سے اسلام کی باتیں کریں اور محفوظ رہیں۔۔
لیکن یہاں تو کوئی محفوظ نہیں میرے بابا بھی ایسے ہی کسی حادثے کا شکار ہوئے تھے ۔ پھر کیوں آپ خوشی منا رہے ہیں ؟آپ سب کیوں اتنے خوش ہیں؟ سب لوگ اپنی جگہ پہ ساکت ہو گئے تھے ،تالیوں کی گونج سسکیوں سے بدل چکی تھی۔۔ ہمیں خوش تو نہیں ہونا چاہیے ہمیں رونا چاہیے کہ ہم نے اپنے ملک کی حفاظت نہیں کی،آج کے دن ہمیں اپنے ملک کیلیے کچھ کرنے کا وعدہ کرنا چاہیے نا،ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ اس ملک کو جس لیے حاصل کیا تھا وہ حاصل ہو جائے،اور سارے مسلمان اچھے بن جائیں اور سب محفوظ ہوں ۔ طلحہ کی کلاس کے انچارج اور پرنسپل آگے بڑھے،انہوں نے طلحہ کو اپنے ساتھ لگایا اور تسلی دی،ہم ان شاء الله اپنی پوری کوشش کریں گے۔
”طلحہ بیٹا آپ اور آپ جیسے بچوں کو ہم اعلی تعلیم دلوائیں گے،پھر آگے جا کے آپ سب اپنے ملک کو ویسا بنانے کی کوشش کرنا،اور ہم بھی کوشش کریں گے ان شاء الله ۔ ہم اس ملک کو اسلامی بنائیں گے“ پرنسپل نے طلحہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
پاکستان کا مطلب کیا لا اله الا الله کون ہمارا راہنما محمد الرسول الله ہم ان شاء الله اس کو ایسا ہی بنائیں گے ایک آواز گونجی تو سب نے بیک زبان ' ان شاء الله' کہا۔ ننھے طلحہ کی باتوں نے سب کو کسی اور سوچ میں لگا دیا تھا،سب ایک عزم کر کے وہاں سے اٹھے۔ ”ہم خود کو بدلیں گے ، اپنی زمین خود حفاظت کریں گے سب ایک دوسرے کے محافظ بنیں گے ۔“