کِسی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ ابا میاں ایک دم اسکول ، کالج اور پڑھائی کے خلاف کیوں ہو گئےہیں ؟؟؟ اکیلے میں نہ جانے کیا کیا بُڑبڑاتے رہتے ، کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ۔ بڑے بھائی جان آج کل میں کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات لینے کا سوچ رہے تھے ۔ تا کہ کم از کم اتنا تو معلوم ہو ، کہ ابا میاں کو آخر ہوا کیا ہے ؟
ساجدہ بتول ملتان

ابا میاں آج کل بہت چڑچڑے ہو رہے تھے ۔ جب سے سعد بھائی الگ گھر میں شفٹ ہوئےتھے اور شِفٹ ہونے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ یہاں بچے اپنے کزنوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے تھے تو ان کی پڑھائی متاثر ہوتی تھی ۔۔ اور بس ٭٭٭ ”پڑھائی“ کا نام سن کر ابا میاں کا میٹر گھوم گیا تھا ۔ ”تم گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے نکلتے ، آفس کے قریب گھر لینے کے لیے نکلتے یا چلو ساس بہو کے جھگڑوں کی وجہ سے ہی نکل جاتے ۔۔ مگر اِس کمبخت پڑھائی کو کیوں بیچ میں لائے ؟ کیا رکھا ہے پڑھائی میں ؟؟“ وہ تو برس ہی پڑے سعد بھائی نظر نیچی کیے کھڑے رہے ۔ کہتے بھی تو کیا! ان میں سے ایک بھی وجہ سرے سے موجود ہی نہ تھی ۔ وجہ تو بچوں کی لڑائی یوں کی ہی تھی اور اس کی وجہ سے گھر کی سب خواتین ہی تنگ تھیں ۔ البتہ ابا میاں کا اعتراض سن کر امّی جان ایک دم بول اٹھیں ”بہت فرماں بردار ہے میری بہُو ۔ مجھ سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرتی ۔ میری اجازت سے ہی جا رہی ہے ۔ “ ”ہونہہ فرماں بردار“ ابا میاں نے سر جھٹکا ”اپنے سب بچے تو اسکول میں ڈال دیے اس نے “

کِسی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ ابا میاں ایک دم اسکول ، کالج اور پڑھائی کے خلاف کیوں ہو گئےہیں ؟؟؟ اکیلے میں نہ جانے کیا کیا بُڑبڑاتے رہتے ، کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ۔ بڑے بھائی جان آج کل میں کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات لینے کا سوچ رہے تھے ۔ تا کہ کم از کم اتنا تو معلوم ہو ، کہ ابا میاں کو آخر ہوا کیا ہے ؟ یہ عقدہ تو حل ہو جائے ، اس کے بعد اس کے حساب سے ہی علاج کا سوچا جائےگا ۔ اور پھر عُقدہ حل ہو گیا
کل شام عاقِب بھائی آئے ہوئے تھے ، بڑے بھائی جان کے سالے ۔۔۔۔ اور وہ بچوں سے ہلکی پھلکی گفتگو کر رہے تھے ، کہ دس سالہ احسن سے بات چیت کرتے کرتے اچانک ایک گھسا پٹا سوال اُن کی نوکِ زبان پہ آ گیا ”بڑے ہو کر کیا بنو گے ؟ “ ”سائنس دان “ نجانے جواب بھی گھسا پٹا تھا یا اس نے سوچ سمجھ کر دیا تھا!
”ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عافیہ صدّیقی کا انجام دیکھنے کے بعد بھی!! “ ابا میاں ایک دم تیزی سے بولے تھے ۔ آنکھیں پھیل ہی تو گئیں ۔ اور پھر اُن کا سارا فُوبیا ہی اُبل پڑا ۔ ”کیوں کرتے ہو ظلم اپنے بچوں پہ ؟ کیوں سِکھاتے ہو ان کو حب الوطنی ؟؟ کیا دیتی ہے یہ قوم اپنے محسنین کو ؟؟ بتاؤ کیا دیا اس قوم نے ان دونوں کو ؟؟ سِوائے سزاؤں اور اذیّت کے کچھ نہیں دیا ۔ کُچھ بھی تو نہیں دیا ۔۔۔ کوئی ایک بھی عافیہ کو چھڑانے نہ گیا ۔۔۔ تم چار دن ریلیاں نکال کر پھر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جاتے ہو ۔ کچھ نہیں کرتے ہو تُم ۔۔ تمہیں صرف ڈرامے دیکھنا ہیں ۔ میچ کے جیتنے پہ نعرہِ تکبیر اللہ اکبر کا جھوٹا جذبہ دکھانا ہے ۔۔ ہاں تم صرف میچ کے کھلونوں سے کھیل کر ہار جیت دکھاتے ہو ۔ اور سمجھتے ہو دُنیا نے تمہیں محبِ وطن سمجھ لیا!!
مگر یاد رکھو یہ طوطا چشمی اور دھوکا دہی قیامت کے دن معاف نہ ہو گی ، اُس دن ایک ایک نوجوان اور ایک ایک کرکٹر سے سوال ہو گا ، کیا یہ تھا وہ جہاد ، جس کا حُکم تمہیں قرآن میں دیا گیا تھا ؟؟؟“ کہتے کہتے وہ ہانپنے لگے ۔ چند ثانیے گہرے گہرے سانس لیتے رہے ۔۔ پھر گُلو گیر لہجے میں کہنے لگے ” تم فلمیں دیکھو ، گانے گاؤ ۔ شادیوں پہ مہندی سجاؤ اور ڈھولک بجاؤ ، نقالی انڈیا کی کرو اور متاثر گوروں سے رہو ، تمہیں اپنے مُحسنین سے کائی لگاؤ نہیں ، وہ مریں یا زندہ لاشیں بنیں ، تُمہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔“
کہتے کہتے اُن کا سانس پھول گیا ۔ کچھ توقّف کے بعد اُنہوں نے اُنگلی اٹھا اور چبا چبا کر کہنے لگے ”خبردار! ، اپنے کسی بھی بچے کو سُولی چڑھانے کی ضرُورت نہیں ہے ۔ یہ قوم اپنے مُحسنین کو صرف تکلیف دینا جانتی ہے ۔ اس ملک کے رکھوالے اس ملک کا دِفاع کرنے والوں کے دشمن ہیں ۔ اور یہ قوم صِرف پڑوں اور جوتوں کی شیدائی ہے۔ یہاں علم و فن سے کسی کو مطلب نہیں ۔ یہاں جوتوں کی دوکان پہ ہی رش لگا ہوتا ہے ۔ اس قوم کو جُوتوں کی ضرورت ہے ۔۔ جوتے مارو اِس قوم کو ۔۔۔۔ ہاں جُوتے مارو ۔ “
آخری جملے پہ وہ چیخ ہی تو پڑے ۔۔۔ اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جبکہ ہم سب اُن کو ہکا بکا دیکھتے رہ گئےتھے ۔۔ پھر باری باری ہم سب کے سر جھکتے چلے گئے۔ ہاں مگر سامنے ہال سے جھانکتے ٹی وی ، قریب میز پہ رکھے لیپ ٹاپ اور الماری میں رکھے تین چار ٹچ موبائل فون کی اسکرین میں سے عیّاری لپک لپک کر ان کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی ، اِس قوم میں ابھی بھی دو چار لوگ ایسے موجود ہیں ، جو عقلمند ہیں اور معاملات کو اندر سے سمجھ رہے ہیں ۔ ابھی اِن کو پاگل بنانا باقی ہے گویا مزید محنت کی ضرورت ہے ۔۔۔ رہے باقی سب پاکستانی! وہ کل بھی امریکا کے غُلام تھے اور آج بھی امریکا کے غُلام ہیں