ایمن عرفان کراچی

 عدنان "ترکیہ" کے قبرستان میں بیٹھا تھا ۔" ماریہ عدنان" ،"کاشان ولد عدنان"،" ربیعہ بنت عدنان" ۔ لائن سے بنی تینوں قبریں.... ۔ عدنان کے کانوں میں آوازیں گونج رہی تھیں ۔ بابا جانی میرے لیے بڑی چاکلیٹ لائیے گا۔ سنیں میں آپ کے بغیر دو دن بھی نہیں رہ سکتی۔

عدنان کو آج صبح سے اس کے پسندیدہ کھانوں کی خوشبوئیں آرہی تھیں۔ اس کی بیوی "ماریہ "کچن میں مصروف  تھی.

  عدنان کا تعلق پاکستان سے تھا ۔ لیکن گزشتہ پانچ سالوں سے وہ جاب کی وجہ سے "ترکیہ" میں رہائش پذیر تھا۔ جہاں وہ اپنی بیگم اور دو بچوں ( ربیعہ اور کاشان) کے ساتھ چھوٹے سے فلیٹ میں خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔

وہ دو ماہ کے لیے کمپنی کی طرف سے چائنہ جا رہا تھا۔

شام چھ بجے اس کی فلائٹ تھی  ۔ وہ پیکنگ کر رہا تھا کہ ماریہ کی آواز آئی : چلیں کھانا کھا لیں ۔

،دسترخوان پر بیٹھا وہ نوٹ کر رہا تھا کہ ماریہ خاموش خاموش سی ہے

وہ خاموشی کی وجہ بھی جانتا تھا ۔

ربیعہ : بابا جانی آپ ہواؤوں والی گاڑی میں جارہے ہیں نا مجھے بھی چلنا ہے۔

عدنان: " نہیں میری گڑیا! بابا جانی کام سے جارہے ہیں"۔

ربیعہ:"میرے لیے بہت سارے کھلونے اور چاکلیٹ لے کر آئیے گا"۔

عدنان:جی ! میں آپ دونوں کے لیے بہت سارے  چاکلیٹ لاؤں گا۔آپ چھوٹے بھائی سے نہیں لڑنا ۔ ٹھیک ہے؟

ربیعہ: جی بابا جانی!

 کھانے سے فارغ ہو کر  عدنان ماریہ کے پاس کچن میں گیا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اور کہنے لگا:" کیا ہوا ہے؟ میں کون سا ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں دو مہینے کی تو بات ہے۔

(ماریہ کے ضبط  کا بندھن ٹوٹا اور آنکھیں چھلک پڑیں)

ماریہ: دو مہینے ؟ میں آپ کے بغیر دو دن بھی نہیں رہ سکتی۔ اور پھر یہ بچے ۔۔۔۔۔  میں اکیلے کس طرح سنبھالوں گی؟

عدنان: میں تم تینوں کو اللہ کے سپرد کر کے جارہا ہوں۔ وہ ہی تم تینوں کی حفاظت کرے گا۔ ان شا ء اللہ۔

اچھا اب اپنا موڈ ٹھیک کرو ۔ مجھے ایئر پورٹ کے لیے نکلنا ہے ۔ مجھے مسکراتے ہوئے رخصت کرو۔

چار بجے عدنان گھر سے نکلا اس نے ایک مسکراتی نظر بچوں اور بیوی پر ڈالی لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کی اس کی یہ نظر آخری ہوگی۔

جب وہ "چائنہ" پہنچا تو اس کا اپنی بیوی سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ  ترکیہ میں اس کے "گھرانے" کی کایا پلٹ چکی تھی۔ اس کے بچے اور بیوی "زلزلے" کی زد میں آکر" زیر زمین "جا چکے ہیں ۔ زلزلے کی خبر پا کر وہ دوسرے دن کی فلائٹ  لے کر واپس ترکیہ پہنچا اس آس پر کہ شاید اس کی سوچیں صرف ایک خواب ہوں۔ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹ گئی۔ وہاں پہنچ کر جو کچھ اس نے دیکھا گویا  اس پر "قیامت صغری " گزر گئی ۔بالآخر تین دن کے بعد رضاکار اس کی بیوی بچوں کی لاش ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔اس وقت اس کی بیوی اور "جگر کے معصوم ٹکروں" کا بے  روح  وجوداسے کتنی تکلیف دے رہا تھا اس کا اندازہ صرف وہ ہی کر سکتا تھا۔ لیکن وہ بے بس تھا ۔ بلآخر وہ "مضبوط چٹان" بن کر ان کی" تجہیز و تکفین" کی تیاری کرنے لگا۔