"بتاتا ہوں یار بتاتا ہوں... وہ جو سیٹھ عبد الغفور ہے نا وہی جس کی پلاسٹک کی فیکٹری تھی.. آج کل بہت کرائسسز میں ہے ۔ فیکٹری دیوالیہ ہو گئی ہے اور اب قرضے چکانے کے لیے گھر بیچنے تک کی نوبت آ گئی ہے۔ بس اسی کے گھر کا سودا کروا رہا ہوں تمہارے لیے۔"

ام محمد سلمان


"ارے سلیم بھائی.. میرے کام کا کیا بنا؟ یار کتنے دن سے تم سے کہا ہوا ہے کہ کوئی اچھا اور سستا مال نکالو.. مگر تم ہو کہ ساری دنیا کے کام کرنے ہیں لیکن ہمارا نہیں کرنا ۔"

"ارے محمود بھائی ایسا مرغا پھنسا ہے کہ کیا یاد کرو گے تم بھی کہ سلیم سیٹھ نے کیا چیز دلوائی ہے... قسم اللہ کی مزہ آجائے گا ۔"

"کیا واقعی..!! تو پھر بتاؤ نا یار کدھر ہے؟ اور یہ مرغا پھنسنے کا کیا چکر ہے؟ " "بتاتا ہوں یار بتاتا ہوں... وہ جو سیٹھ عبد الغفور ہے نا وہی جس کی پلاسٹک کی فیکٹری تھی.. آج کل بہت کرائسسز میں ہے ۔ فیکٹری دیوالیہ ہو گئی ہے اور اب قرضے چکانے کے لیے گھر بیچنے تک کی نوبت آ گئی ہے۔ بس اسی کے گھر کا سودا کروا رہا ہوں تمہارے لیے۔"

"اوہو.. بہت دکھ ہوا یار... اللہ اس بے چارے کا نقصان پورا کرے ۔ لیکن اس کا گھر تو بہت شاندار ہے۔ لوکیشن بھی زبردست ہے۔ تو ظاہر ہے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہو گی۔ اتنا سرمایہ نہیں ہے میرے پاس۔ میرے لیے تو تم کوئی درمیانے درجے کا گھر دیکھو ۔"

"ارے جب تک محمود پراپرٹی ڈیلر زندہ ہے، تمہیں کیا ضرورت ہے فکر کرنے کی! ہمیں پتا ہے وہ ضرورت مند ہے۔ اس وقت اونے پونے ہر حال میں مکان بیچے گا۔ میں نے ایک طے شدہ پروگرام کے تحت دو تین پارٹیاں بھیجی ہیں اس کی طرف.. سب نے اس کے مکان کی آدھی قیمت لگائی ہے ۔ ہمیں جب کسی پراپرٹی کی قیمت گرانی ہو تو یہی کرتے ہیں بھائی... اپنے جاننے والوں کو بھیجتے ہیں اور کم سے کم قیمت لگواتے ہیں! پھر خود جا کر کچھ دام بڑھا کر خرید لیتے ہیں۔ ابھی بھی اس کے گھر کی آدھی قیمت لگا دی ہے ہم نے۔ ضرورت مند ہے دو چار دن میں راضی ہو ہی جائے گا." سیٹھ سلیم نے ایک مکروہ سا قہقہہ لگایا ۔

محمود حیرت اور صدمے سے دیکھتا ہی رہ گیا ۔ "یہ کیا بات کررہے ہو یار... کسی مصیبت زدہ کی مصیبت میں مدد کرنی چاہیے یا ایسے گھناؤنے کھیل کھیلنے چاہییں! میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے لالچ پر ۔ تمہارا تو دین ایمان ہی پیسہ بن گیا ہے. کچھ خدا کا خوف کرو. برا وقت کبھی بھی کسی پر بھی آ سکتا ہے ۔ ایسا نہ ہو کل کو تمہارے شاندار گھر کی بولی لگ رہی ہو..."

"دیکھ یار محمود! زبان سنبھال کے بات کر.. تو اپنا یار نہ ہوتا تو دیکھتا میں تیرا کیا حشر کرتا ۔" "تم اب بھی میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں کررہے ہو سلیم بھائی! ایسے گھر میں کیا خاک برکت ہو گی ہمارے لیے جو کسی مصیبت کے مارے کی آہوں آور سسکیوں پر بنا ہو. اس کے گھر والے، بیوی بچے سب کس قدر پریشان ہوں گے ۔ میں کسی کی بد دعاؤں پر اپنی خواہشات کا محل تعمیر نہیں کر سکتا بھائی.. مجھے تو معاف ہی رکھو ۔

"دیکھ پیارے! تو جذباتی ہو رہا ہے... ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ اور گھر جا کے بھابھی سے بھی مشورہ کر... پھر مجھے بتانا ۔ لوگ تو ایسی ڈیل کے انتظار میں رہتے ہیں۔ تجھ پر تو قدرت مہربان ہو رہی ہے مگر ایک تو ہے کہ گھر آئی لکشمی کو لات مار رہا ہے ۔"

"او بھائی! مجھے ایسی کسی دولت کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں سیٹھ عبد الغفور کے گھر کی صحیح قیمت سے بھی بڑھ کے قیمت لگا کر خریدتا تاکہ اس بے چارے کا نقصان پورا ہو اور باقی کے اخراجات بھی پورے کر سکے ۔

ہم مسلمان ہیں میرے بھائی! دین صرف نماز روزے اور پگڑی ڈاڑھی کا نام نہیں ہے، روزمرہ کے معاملات بھی دین کا حصہ ہیں اور کاروبار بھی دین کا ہی حصہ ہے! اسے دین کے اصولوں پر ہی چلانا چاہیے تب ہی برکت ہو گی اور تھوڑا بھی بہت ہو جائے گا۔

اور بات سنو...! نبی علیہ السلام سے محبت جلسے جلوسوں تک محدود نہ رکھو.. اسے اپنی زندگی میں بھی لے کر آؤ. ان کی تعلیمات کو اپنا کر تو دیکھو، زندگی امن و سکون اور خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی ۔ پتا ہے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا ہے..!!! فرمایا ہے کہ:

"جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا تو اللہ اس سے آخرت کی پریشانی دور کرے گا۔ اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ اور اللہ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے." (مسلم)

میرے بھائی جب کوئی بندہ پریشانی اور مصیبت میں ہو تو اسے ان حالات سے نکالنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے نا کہ اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائیں اور گدھ کی طرح اس کا گوشت نوچنے میں لگ جائیں۔ ہمیں اس وقت بھائی عبد الغفور کی مدد کرنی چاہیے اس کے گھر کو اونے پونے بکوانے کی بجائے اچھے منافع پر فروخت کروانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کا بھی نقصان پورا ہو اور اللہ بھی ہم سے راضی اور خوش ہو. " محمود یہ کہہ کر چپ ہو گیا ۔

سیٹھ سلیم جو مدتوں سے یہی کام کررہا تھا، اب ایک دم سے دل پہ پڑی گرد کیسے صاف ہو سکتی تھی؟؟ نبی علیہ السلام کا نام بیچ میں آیا تو سوچ میں پڑ گیا۔ آج سے پہلے کبھی ایسی کوئی بات سنی نہ تھی ۔ اب کان میں پڑی تو قبول کرتے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔

بہرحال محمود نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ وہ کسی قیمت پر بھی اس گھر کو خریدنے کے لیے تیار نہیں تھا اور صدق دل سے دعا کررہا تھا کہ سیٹھ عبد الغفور اس مصیبت و پریشانی سے باہر نکل آئے ۔ کاش میں ان کی کچھ مدد کر سکتا ۔ دنیا کے لالچ نے ہم سب کو اندھا کر دیا ہے۔ ہوس دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے۔ آج یہ تو کل وہ... خواہشات کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں! محمود کو کتاب میں پڑھی وہ حدیث مبارکہ یاد آنے لگی جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: "آدمی کے پاس مال کی دو وادیاں، دو جنگل ہوں تو وہ تیسرے کی تمنا کرے گا.... اور آدمی کا پیٹ تو صرف (قبر کی) مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ اور اللہ اس بندے پر مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اللہ کی طرف کر لے ۔" (صحیحین)

یعنی دولت سے انسان کا گھر بھی بھرا ہو یہاں تک کہ میدان کے میدان پٹے پڑے ہوں تب بھی اس کا دل قانع نہیں ہوتا، اور ھل من مزید کے نعرے لگاتا رہتا ہے ۔ (اور اسے حاصل کرنے کے لیے جائز ناجائز اور حلال حرام کی بھی پروا نہیں کرتا.. لوگوں کے حق مارتا ہے، ظلم و زیادتی کرتا ہے جھوٹ و فریب کاریاں اور بد دیانتی کرتا ہے۔ ننانوے کے پھیر میں ایسا پڑتا ہے کہ حق داروں کو ان کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے اور آخر کار اپنے لیے بھی دنیا کی بے سکونی اور جہنم خریدتا ہے) اور یہ حرص و ہوس کی بھوک موت کےساتھ ہی ختم ہو گی ۔ البتہ جو بندے دنیا اور دولت دنیا کی بجائے اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیں اور اس سے تعلق جوڑ لیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت ہوتی ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہی اطمینان قلب اور غنائے نفس عطا فرما دیتا ہے پھر دنیا کی زندگی بھی مزے اور سکون میں گزرتی ہے ۔