مہوش کرن
کیسی ہو پیاری! امید ہے بخیر و عافیت ہوگی۔ کب سے دل چاہ رہا تھا کہ تمھارے نام خط لکھوں بالکل اسی طرح جیسے ہم لوگ پہلے لکھا کرتے تھے۔ جب ایک دوسرے سے بہت دور رہتے تھے، پھر قریب ہونے کے باوجود بھی لکھتے تھے کیوں کہ قریب تر رہنا چاہتے تھے یا شاید خود کو فریب دیتے رہے۔


جب تک شہر سے دور رہے، خطوط بچپن کی بے وقوفیوں سے بھرے رہے، جب ایک شہر میں آگئے یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی میں، تب بھی یہ سلسلہ رکا نہیں مگر پھر ان خطوط میں الٹے سیدھے مسئلوں نے جگہ لے لی، کبھی گھر کے حالات، کبھی فون نہ ہونے کی پریشانی، کبھی سوٹ، کبھی مارکرز کا سیٹ مانگنے کی گزارش، کبھی ساتھ مل کر پریکٹیکل جنرل بنانے کی درخواست، کبھی ایک دوسرے کے گھر رکنے کی اجازت نہ ملنے پر مل کر افسوس کرنا، کبھی ٹیوشن کے بچوں کی روداد سنانا، تو کبھی امتحانوں کا دکھڑا رونا۔ غرض یہ کہ کبھی کچھ، تو کبھی کچھ اور کچھ بھی نہیں تو شام کی چائے کے ساتھ چپس کھاتے ہوئے بالکونی سے آسمان دیکھنا اور ایک دوسرے کو یاد کرتے ہوئے دل کا حال ہی لکھ ڈالنا۔
بس لکھنا ضروری تھا اور ایک دوسرے کو لکھنا ۔۔۔ وہ تو زندگی تھا۔
کبھی تو ایک یونیورسٹی میں موجود ہونے کے باوجود بھی، مل کر بات کرنے کی بجائے بس خط پر ہی بھروسا کرنا کہ مل کر بات کرنے کی عادت ہی ختم ہو گئی تھی۔ ویسے وہ تو اب تک دوبارہ نہیں پڑ سکی، مجھے دیکھ کر تم کچھ بولتی جو نہیں، البتہ اب اسی وجہ سے خطوط کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اب ہمارے بیچ صرف یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کا فرق نہیں رہا اب تو اتنا جغرافیائی فاصلہ آ گیا ہے۔ پھر بھی تم دوبارہ خط نہیں لکھتی اسی لیے میں نے سوچا کہ میں ہی کفر توڑوں۔
٭٭٭٭ یاد ہے تم مجھے کیسے کیسے ناموں سے مخاطب کرتی تھی، کبھی گندمی رنگت والی، کبھی گلابی آنکھوں والی، کبھی نیلی آنکھوں والی، کبھی گہری پرپل۔ جیسا میرا دھوپ کا چشمہ ہوتا ویسا ہی میرا نام لکھ دیتی۔ دھوپ کے چشموں کا تو مجھے شوق ہی بہت تھا اور تمھیں میرا ۔۔۔ یقیناً یہ پڑھ کر تم کو بہت کچھ یاد آ رہا ہوگا، اب تم کہو گی میں بھولی ہی کب تھی۔؟ میری یہ بات پڑھ کر تم ہنس رہی ہوگی، لیکن اب کہیں تم یہ نہ کہہ دینا کہ نہیں تمھیں رونا آ رہا ہے۔ وہ تو شاید لکھتے لکھتے مجھے بھی آ جائے۔

سچ میں رنگ کی پسندیدگی انسان کو اسی رنگ کی طرح بنا دیتی ہے۔ اودے رنگ کا اپنا ہی اثر رہا گہرا، ان کہا، اکیلا، حسین، بے مثال۔ اور تمھیں آفاقی رنگ پسند تھا اور ہے بھی اسی لیے تم خود بھی ویسی ہی رہی اونچی، روشن، مدلل، ہر طرف چھائی ہوئی۔
صرف خط ہی نہیں، ہم تو ایک دوسرے کو پھول یا منفرد پتے بھی دیا کرتے پھر ان کو کتابوں، ڈائریوں میں سنبھال کر رکھ لیا کرتے۔ تم خاص طور پر میرے لیے مور کے پر منگواتی تھی۔ پھر میں اس کو کسی خاص دن تاریخ یا واقعہ لکھ کر ڈائری میں رکھ لیا کرتی۔ جب بھی صفحہ کھلتا ہماری یادیں تازہ ہو جایا کرتی تھیں۔ البتہ شکر ہے کہ تم نے مجھے کبھی کوئی کیڑا تحفے میں نہیں دیا کیونکہ میرے علاوہ تمھارے پاس سب سے زیادہ کیڑے ہی موجود رہتے تھے۔ اچھا اچھا اب ناراض نہ ہو، مانتی ہوں بھئی تم بہت بڑی زولوجسٹ تھیں بلکہ ہو۔ ان کیڑوں مکوڑوں سے بھی تو ہم نے کتنی باتیں سیکھیں تھیں، ان پر غور و فکر کر کے زندگی میں اپنی حقیقت کو پایا تھا۔
کیا دن تھے نا، سنہری جاگتی راتیں، روشن چمکتی صبحیں، بے کار کی پریشانیاں، بے وجہ کی ہنسی، دوڑتی بھاگتی زندگی۔ جس میں کہیں میں تمھیں زبردستی بھگاتی تو کبھی کھینچ کھینچ کر دوڑاتی اور تم ساتھ دینے کی کوشش میں کوفت زدہ ہوتی رہتی۔ ہم ایک دوسرے سے خفا تو ہو جاتے لیکن جدا کبھی نہ ہوتے۔ رشتے میں اتنا تعلق جو تھا اور اس تعلق پر اتنا مان جو تھا۔
جانتی ہو میں سب کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ایسی والہانہ اور پراسرار محبت کے لیے صرف نامحرم رشتہ ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ یہ خوبصورت اور اَن کہا تعلق نہایت پُرخلوص محرم رشتوں، اپنی بہنوں اور سہیلیوں سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ کل شام ایک سہیلی کا فون آیا ،وہ اپنے حالات بتا کر رونے لگی، کہتی تھی مجھے بتاؤ میں کہاں غلط ہوں۔ میں بھلا کیا بتاتی صرف یہی کہہ سکی کہ "تم اس دنیا میں ہی غلط ہو۔ دراصل یہاں پھنس گئی ہو جو ذمہ داریاں تمھارے حصے میں آئی ہیں اور جو کام تمھیں کرنے کو ملے ہیں ان کو کرنے میں لگی رہو کیونکہ جب تک وہ کام پورے نہیں ہوں گے زندگی تمام ہونے والی بھی نہیں ہے۔ اور اگر ان ذمہ داریوں کو پورا کیے بغیر اپنی مرضی سے چلی جاؤ گی تو شرمندگی الگ اٹھانی پڑے گی۔ تم صرف یہ سوچ کر ناک کی سیدھ میں چلتی رہو کہ جس نے اِس راستے پر ڈالا ہے، یہ اُسی ہستی تک لے جا رہا ہے اور اِس کے اختتام پر جب تمھیں چہرہ اٹھانا ہے تو سامنے اُسی کا چہرہ پانا ہے۔ پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی، ان شاءاللہ۔ یہ بھی تو سوچو کہ اللہ نے اس عہدے کے لیے تمھیں چُنا ہے یہ تمھاری اپنی چوائس نہیں کہ تم اس میں کوئی خرابی یا نقص نکال سکو۔ یہ ہے اور اسی طرح ہے یہاں تک کہ اللہ خود اسے بدلنا چاہیں۔ اسی لیے جب چہرہ ان کے سامنے اٹھاؤ گی تو شرمندگی سے جھکنے کی نوبت نہ آنے دینا بلکہ تمھیں تو سرخرو رہنا ہے اور کہنا ہے کہ دیکھیں اللہ جی! جتنا وقت آپ نے مجھے دیا اس میں جتنا مجھ سے ہوا میں اپنا کام پورا کر آئی اور احسن طور پر پورا کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اب تو آپ مجھ سے راضی ہیں نا۔؟“
پتا ہے کہنے لگی اللہ تم سے راضی ہو۔ اتنا پیارا کیسے کہہ لیتی ہو، ہر بات میں ایسے کیسے سوچ لیتی ہو، دکھ پر تکلیف پر دل نہیں کٹتا۔ ہر وقت مثبت کیسے رہ لیتی ہو۔؟ میں اسے کیا کہتی پر بات تو یہ ہے کہ میں بھی تو اللہ کا چہرہ چاہتی ہوں بس اسی لیے۔
کیسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو ساری زندگی پریشان کر کے سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ بچ جائیں گے۔ چونکہ مظلوم نے درگزر کر دیا، حق پر رہتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیا تو کیا ظالم کی جواب دہی نہیں ہوگی۔ ظالم کی پکڑ تو ضرور ہوگی، اللہ تو پوچھیں گے کہ ایسا کیوں کیا تھا۔ ہائے مگر ان ظالموں کو سمجھ نہیں آتی اور جب تک نہیں آ جاتی مظلوم کو سہنا پڑے گا۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جو ظلم ہم پر ہو اس کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہیے، اپنے لیے نہ صحیح پر ہم کسی اور کے لیے ہی کچھ کرتے جائیں۔ بےشک ہدایت انہی کو ملتی ہے جو اس کی طلب کریں۔ اللہ سب کے ماضی سے درگزر اور حال اور مستقبل پر رحم کریں۔ آمین
لیکن سچ بتاؤ زندگی اسی طرح ہے، ہے نا۔؟ واقعی ہم اس دنیا میں کبھی بالکل مِس فٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس جہاں میں دل ہی نہیں لگتا بس وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے رسیوں سے بندھے ہیں بس رسی تڑوا کر بھاگنا ہی چاہتے ہیں۔ اس پر تو تمھیں بقرعید کے جانور یاد آ گئے ہوں گے۔ چلو اچھا ہے شاید کچھ ہنسی آئی ہوگی، ورنہ تم بھی سوچتی ہوگی کہ صرف فلسفہ ہی لکھے چلی جا رہی ہے۔ اس لیے اب کچھ اور نہیں لکھ رہی البتہ تمھارے جواب کی منتظر ضرور رہوں گی۔
فقط، تمھاری اور زیادہ گہری پرپل