حافظ محمد عدیل عمران
آزادی ایکا ایکی نہیں آجاتی، یہ قوموں کے اذہان میں مختلف العنوان تقاضوں کے ساتھ ساتھ پرورش پاتی ہے ۔ خیالوں میں انقلاب آتا ہے تو جسموں میں بھی انقلاب کو راہ ملتی ہے اور جب جسم انقلاب قبولنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر سورج کی طرح چمک کر انقلاب بھی ابھر آتا ہے بلکہ ساری قوم کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے ۔ہمارا انقلاب ایکا ایکی نہیں آیا اور غالبا ہم تاریخ مرتب کرتے وقت اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں،
انقلاب ایک مسلسل جدوجہد سے مکمل ہوتا ہے ۔پاکستان اتفاقی طور پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ پاکستان نتیجہ ہے ایک مسلسل فکری اور سیاسی جدوجہد کا، جو اولا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے شروع ہوئی، ثانیا 1857 کے لیل و نہار سے پھر 1921 کی تحریک خلافت کو بھی ہم اس سے الگ نہیں کر سکتے۔گویا یہ تحریک نتیجہ ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے لے کر حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ و قائد اعظم مرحوم تک کی کوششوں کا۔ پاکستان نتیجہ ہے خاص قسم کے نظریات و تصورات کا، جب تک یہ چیزیں باقی رہیں گی اس وقت تک پاکستان کا وجود ہر خطرے اور خدشے سے محفوظ رہے گا۔اگر اس نظریے اور اس تصور کو اپنی جگہ سے ہلا دیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے نظریات کو راہ دی جائے تو ظاہر ہے کہ دماغ بدل جانے سے جسم بدل جاتے ہیں ۔ایک قوم یا ملک اس وقت تک پنپ سکتے ہیں جب تک وہ اپنی آئیڈیالوجی اور اپنی خودی سے رشتہ استوار رکھتے ہیں۔جب یہ تصور اور یہ خودی جھٹکا کھانے لگتی ہے حتی کہ ان کی دیوار کے بیٹھ جانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے تو پھر فکری موت کا نتیجہ ملی موت ہوتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ حکمران ہو کے آتے رہے ہیں انہوں نے پاکستان عوام کی مسرتوں کو کچل ڈالا ہے اور وہ اخلاص واردات جو ملک کے بچے بچے کو اپنی سرزمین سے تھا نہ صرف یہ کہ صرصر حالات سے مرجھا گیا بلکہ بہت سی چیزیں جنہیں ہمیشہ جوان رہنا چاہیے تھا وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئیں ہیں ۔ہمارے لیے اس سے بڑی کوئی چیز اندوہ گیں نہیں ہو سکتی کہ ہم ابھی تک تجربات کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارے سامنے مشکلات کا انبار ہے ۔آزادی کیا ہے۔اللہ تعالی کی رحمت ہے جس نے کھویا وہی پانے کا مزہ جانتا ہے ۔جن لوگوں نے ہندوستان کے وسیع و عریض خطے میں 76 برس پہلے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ گنوایا۔مثلا جانیں دیں،مال کھویا، گھر بار سے محروم ہوئے،والدین نے بچوں کا قتل عام دیکھا اور بچوں نے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اترتے پایا۔وہ ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ 14 اگست 1947ء کو جو آزادی پاکستان نے قائد اعظم کی قیادت میں حاصل کی اس کی قیمت کیا تھی؟ہندوستان کا مسلمان ہماری آزادی کے بعد بھی پاکستان کے لیے ذبح کیا جاتا رہا۔ اس کی املاک کو سالہا سال پھونکا گیا بلکہ یوں کہیے کہ آج تک ہندوستان کا مسلمان کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کے نصب العین کی سزا بھگت رہا ہے، لیکن ہم اپنی بدبختی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ہمیں احساس ہی نہیں کہ اس ملک کے لیے ہم نے کیا کیا جتن کیے اور ہم کیوں کر اس منزل مقصود تک پہنچے ہیں ۔
ہمارے نام سے روشن ہے نام آزادی لکھا ہے اپنے لہو سے پیام آزادی بزیر سایہ ، شمشیر ہم نے سمجھا ہے زبان دار و رسن سے مقام آزادی