سائبیریا کے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات، شراب نوشی یا جنسی تعلقات کے عادی افراد کو جسمانی سزا دے کر پیٹ کر ان کی عادات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔اس کے پریکٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ تکلیف دہ علاج، جس میں نشے کے عادی افراد کو کولہوں پر مارنا شامل ہے، پیٹ ڈوہرٹی جیسے منشیات استعمال کرنے والوں یا کسی دوسرے طریقوں سے ناکام ہونے والے افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔
حمیراعلیم

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں ایسے ماہرین نفسیات ، موٹیویشنل اسپیکرز اور دیگر ماہرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو مغرب سے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا مغربی لوگوں کو فالو کرتے ہیں اور ان جیسا طریق کار اپنا کر پاکستان کے مسائل خصوصا ذہنی و جسمانی مسائل کا حل پیش کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مغربی ممالک کے مسائل کچھ اور ہیں۔وہاں کے باسیوں کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ ہمارے مقابلے میں ہر وہ سہولت حاصل ہوتی ہے جو ہمارے ہاں توآسائش ہے مگر وہاں بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔اس لیے وہ کئی نشوں اور ذہنی بیماریوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔جب کہ ہمارے ہاں ان چونچلوں کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی اور بندہ غم روزگار میں ہی عمر گزار جاتا ہے۔

ان نام نہاد دانشوروں نے ایک مغربی مقولے کو اپنانے پر زور دیا کہ مار نہیں پیار۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری نئی نسل بھی مغرب کی تقلید میں ان ہی کی طرح بگڑ گئی۔کیونکہ لاتوں کے بھوت بھی کبھی باتوں سے مانتے ہیں۔پھر بھلا ہو سائیبرین ماہر نفسیات کا جنہوں نے ہمارا مشرقی محاورہ سنا اور اسے بہترین طریقہ علاج قراردیا:" ڈنڈا بڑے بڑوں کا پیر ہے۔"

سائبیریا کے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات، شراب نوشی یا جنسی تعلقات کے عادی افراد کو جسمانی سزا دے کر پیٹ کر ان کی عادات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔اس کے پریکٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ تکلیف دہ علاج، جس میں نشے کے عادی افراد کو کولہوں پر مارنا شامل ہے، پیٹ ڈوہرٹی جیسے منشیات استعمال کرنے والوں یا کسی دوسرے طریقوں سے ناکام ہونے والے افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔

سائبیرین ٹائمز نے دو مریضوں کو 'تھراپی' کرتے ہوئے دیکھا۔ایک بائیس سالہ نتاشا جو کہ ہیروئن کی عادی تھی، نے اصرار کیا: 'میں اس بات کا ثبوت ہوں کہ یہ علاج کام کرتا ہے۔اور میں نشے یا ڈپریشن میں مبتلا ہر شخص کو اسے استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔

یہ تکلیف دہ ہے - لیکن اس نے مجھے میری زندگی واپس دے دی ہے۔ اس کے بغیر مجھے یقین ہے کہ اب میں مر جاؤں گی۔'ڈاکٹر جرمن پیلیپینکو اور ساتھی پریکٹیشنر پروفیسر مرینا چوکھرووا کا اصرار ہے کہ ان کا نیا علاج سائنسی اصولوں پر مبنی ہے۔

پروفیسر چوکھرووا نے کہا، 'ہم مریضوں کو کولہوں پر ایک واضح اور یقینی طبی مقصد کے ساتھ چھڑی لگاتے ہیں - یہ کوئی بگڑی ہوئی جسمانی تشدد والی سرگرمی نہیں ہے۔' جوڑے کا دعویٰ ہے کہ عادی افراد اینڈورفنز کی کمی کا شکار ہوتے ہیں - جسے اکثر 'خوشی کے ہارمونز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جسمانی سزا کا شدید درد دماغ کو جسم میں اینڈورفنز کے اخراج کے لیے تحریک دیتا ہے 'مریضوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے'۔

ڈاکٹر پیلی پینکو نے کہا کہ 'کیننگ، لکڑی سے پٹائی، زندگی کے لیے جوش و جذبے کی کمی کا مقابلہ کرتی ہے جو اکثر علتوں، خودکشی کے رجحانات اور نفسیاتی امراض کے پیچھے ہوتا ہے۔'

نتاشا نے بتایا کہ وہ ایک بوائے فرینڈ کے ذریعے منشیات میں مبتلا ہوئی جو اس عادت کی وجہ سے مر گیا۔ 'میرے ارد گرد بہت سی موتیں ہوئیں۔ میں بھی تقریباً مر گئی تھی - مجھے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب ہی میری والدہ نے علاج کے اس نئے طریقہ کے بارے میں سنا۔ میں نے اسے آزمانے پر اتفاق کیا۔' اسے بید کی چھڑی کے ساتھ 60 سٹروک کے ہر سیشن سے پہلے نفسیاتی مشاورت دی جاتی ہے۔ ہر سیشن کی قیمت لگ بھگ 60 پاونڈز ہے۔

اس نے کہا، 'میں جسمانی تشدد سے لذت حاصل نہیں کرتی ہوں۔ 'میرے والدین نے مجھے کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا۔ اس لیے یہ میرا پہلا حقیقی جسمانی درد تھا اور یہ واقعی چونکا دینے والا تھا۔ اگر لوگ سوچتے ہیں کہ اس میں کوئی جنسی لذت ہے تو یہ بکواس ہے۔'

بائیس سالہ نتاشاہیروئین کے نشے سے چھٹکارا پا رہی ہیں:'ہر کوڑے کے ساتھ میں چیختی ہوں اور سرجیکل ٹیبل کو مضبوطی سے پکڑ لیتی ہوں۔ یہ ایک دردناک درد ہے، حقیقی اذیت ہے، اور میرا پورا جسم ہل رہا ہے۔ اکثر میں روتی ہوں، اور ڈاکٹر کبھی کبھی پوچھتا ہے کہ میں کیا محسوس کر رہی ہوں اور کیا میں ٹھیک ہوں؟ میرا جسم گرم ہو جاتا ہے اور میری ہتھیلی سے پسینہ آنے لگتا ہے۔ یہ واقعی ناخوشگوار ہے - لیکن ہر سیشن کے بعد میں دیکھ سکتی ہوں کہ یہ کام کرتا ہے۔ دراصل، یہ واحد چیز ہے جس نے میرے لئے کام کیا ہے۔ یہ علاج مجھے ہیروئن لینے پر سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے۔یہ میرے جسم پر اثر کی وجہ سے کام کرتا ہے - ان اینڈورفنز کے ذریعے جو مجھے نشے سے چھٹکارا دے رہی ہے۔

درد مجھے ان خطرات کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے جو میں نے خود کو لاحق کیے ہوئے ہیں، میں کس طرح صرف اپنے آپ کو مار رہی تھی۔'اس نے زور دے کر کہا: 'میں جانتی ہوں کہ میرے بہت سے دوست سمجھتے ہیں کہ میں ان ڈاکٹروں پر بھروسا کرنے کی وجہ سے پاگل ہوں۔ لیکن میں جینا چاہتی ہوں۔ پانچ سال پہلے نشے کی لت لگنے کے بعد پہلی بار مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس ایک موقع ہے۔

میں صرف ان تمام لڑکیوں کی طرح بننا چاہتی ہوں جن کی عام زندگی ہے - ایک آدمی تلاش کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، ایک ساتھ زندگی کے مسائل سے گزرنا۔

میں اس طرح کی عام زندگی چاہتی ہوں - اور اب میں محسوس کر سکتی ہوں کہ میں اس کی طرف واپس آ رہی ہوں۔' اس علاج کے کئی مہینوں بعد اسے ایک نئی نوکری مل گئی اب وہ ایک مقامی ٹیکسی کمپنی میں ڈسپیچر کے طور پر کام کرتی ہے۔

ایک اور41 سالہ مریض یوری کام کے دباو کی وجہ سے ووڈکا پینے کی سنگین عادت میں مبتلا ہو گیا۔ 'شرابیوں کو 60 نہیں 30 کوڑے لگائے جاتے ہیں۔'پہلی ضرب بہت دردناک تھی۔ میں چیخا، اور کسی شرابی کی طرح گالی بکی۔کسی نہ کسی طرح میں نے تمام 30 کوڑے سہے۔ اگلے دن میں دکھتی پشت کے ساتھ اٹھا لیکن فریج میں ووڈکا کو چھونے کی بالکل بھی خواہش نہیں تھی۔لیکن یہ سلوک اس کی گرل فرینڈ کے ساتھ جھگڑے کا سبب بنا۔

'اس نے مجھ پر ہر طرح کی عجیب و غریب چیزوں کا شبہ کیا، خفیہ دوستی سے لے کر مقامی جنسی تشدد پسند خواتین سے ملنے تک۔ میں نے اسے سچ بتا دیا - اور جب میں نے سب کچھ سمجھا دیا تو اس نے کہا کہ اسے اپنے علاج کے لیے اتنا خطرناک قدم اٹھانے پر مجھ پر فخر ہے۔' پروفیسر چکرووا نے کہا: 'پٹائی واقعی علاج ہے۔ ہم پہلے بہت ساری نفسیاتی مشاورت کرتے ہیں، اور ادویات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

'تمام مشاورت اور درد کے خلاف مزاحمت کی جانچ کے بعد ہی ہم پٹائی شروع کرتے ہیں۔'ہم بید کی چھڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ وہ لچکدار ہیں اور نہ تو ٹوٹ سکتی ہیں اور نہ ہی خون بہنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہم کولہوں پر پٹائی کرتے ہیں ۔ تجربہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک بہت اچھا اضطراری افعال کامرکز ہے جس کا استعمال انسانی جسم کے لیے درد کے اشاروں کو مثبت سرگرمی میں تبدیل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو مار پیٹ سے جنسی لذت حاصل ہوتی ہے تو 'ہم اس عمل کو فوراً روک دیتے ہیں۔یہ ہمارے علاج کا حصہ نہیں ہے۔ اگر وہ اس کی تلاش کر رہے ہیں تو اس کے لیے بہت سی دوسری جگہیں ہیں۔ روس میں ڈاکٹر عمومااس علاج کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ورزش، ایکوپنکچر، مساج تھراپی، چاکلیٹ کھانا اور یہاں تک کہ سیکس بھی اینڈورفِن کے اخراج کو متحرک کرنے میں بہتر ہیں، اور اس کے ٹریک ریکارڈ کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر پلینکو نے کہا:'درد تناؤ کے خلاف ایک انجیکشن کی طرح کام کرتا ہے۔ہمیں اپنے ساتھیوں کی طرف سے بہت زیادہ شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن تمام پہل کرنے والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ علاج ایک انجیکشن کی طرح کام کرتا ہے تاکہ مریض جرم، جھنجھلاہٹ، غصہ، سستی، مایوسی یا ناامیدی کو کامیابی کی طرف جانے کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دے۔اس تیز رفتار اور متحرک طریقے سے نفسیاتی بیماریوں کی ایک بڑی تعداد کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے مریض اپنے آپ سے اور دنیا سے ناراض ہوتے ہیں، کمزور، بے حس، بھرائے ہوئے اور تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ تناؤ پر ردعمل کا انداز بدلیں اور مستقبل میں کسی بھی تشویشناک صورتحال پر قابو پانے میں ان کی مدد کریں۔'

لوگ مجھے دیکھنے کے لیے روس کے مختلف شہروں سے اور اب دوسرے ممالک سے بھی آتے ہیں۔ امریکا سے کئی مریض اپوائنٹمنٹ کے لیے کہہ رہے ہیں، اس لیے مجھے ذہنیت یا اس ملک پر کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا جہاں سے مریض آتے ہیں۔

'یقیناً ہم اسے پیٹ ڈوہرٹی،میوزیشن اور سنگر، کے ساتھ آزمائیں گے - ہم ان جیسے لوگوں، فنکاروں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، تاکہ ان کی ذہانت دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو روشن کرتی رہے۔'

اب دیکھیے نا جو کام ہمارے بزرگ ، اساتذہ اور پولیس بگڑوں کو سنوارنے کے لئے مفت میں کر رہے تھے لوگ 60 پاونڈز دے کر کروا رہے ہیں۔میں تو سوچ رہی ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اس کلینک کی ایک برانچ میں پاکستان میں بھی کھول ہی لوں۔لوگوں کا بھی بھلا ہو جائے گا اور میرا بھی۔