میں چاہتی ہوں اسرائیل کو عبرت ناک شکست ہو، فلسطین کو شان دار فتح نصیب ہو، میرے پروردگار! بس یہ ایک خواہش، ایک تمنّا، ایک حسرت پوری کر دے۔۔۔!! میں ان منحوس یہودیوں کو سسکتے تڑپتے دیکھوں جنھوں نے مسجدِ اقصٰی پر قبضہ کر رکھا ہے، جنھوں نے غزہ میں بمباری کر کر کے معصوم جانوں کو تڑپایا ہے، جنھوں نے اپنے ہی ملک میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کو قید کر دیا، جنھوں نے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ بس ایک بار !بس ایک بار۔۔۔“ اس نے شدّتِ جذبات سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں

اُمِّ محمد سلمان


وہ کافی دیر سے میرے پاس بیٹھی تھی۔ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا اسے، فلسطین کی موجودہ صورتحال پر بھی بات ہوئی کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں اور پھر وہ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرنے لگی۔۔۔ ” بس کیا بتاؤں، کتنے مسئلے ہیں زندگی میں۔ ایک طرف بڑے بیٹے کی نوکری چھوٹ گئی تو ویسے ہی خرچے میں تنگی ہو رہی ہے اور دوسری طرف چھوٹا بیٹا مستقل ضد کیے جا رہا ہے کہ سائیکل دلا دو۔۔۔!! کتنی بار سمجھا دیا، مگر سمجھتا ہی نہیں! ہر دو دن بعد پھر سائیکل کا دُکھڑا لے کر بیٹھ جاتا ہے۔“ میں نے اسے تسلی دی، ”اللہ سب ٹھیک کر دے گا، فکر نہ کرو، اللہ پہ بھروسا رکھو۔“

”ہاں، بس اللہ پر ہی بھروسا ہے، جو زندگی کے دن کٹ رہے ہیں، ورنہ کب کے ہمت ہار گئے ہوتے۔ مکان بھی کرائے کا ہے، ہر مہینے کرایہ کسی تلوار کی طرح سر پہ لٹک جاتا ہے اور یہ دیکھو۔۔۔ اس نے اپنا پاؤں آگے کیا۔ یہ زخم چھ مہینے سے ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہا۔ سرکاری ہسپتال سے باقاعدگی سے دوا لے رہی ہوں، پٹیاں بھی کروا رہی ہوں، لیکن معمولی سا فرق پڑا ہے، بس! جانے کب ٹھیک ہوگا۔“ وہ فکرمند اور دل گیر سے لہجے میں بولی۔ مجھے اس کا زخم دیکھ کر واقعی صدمہ ہوا، دل سے دعا نکلی ’’اللہ کریم اس کی ساری پریشانیاں دور کر دے،آئے دن کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار رہتی ہے بے چاری۔‘‘

پھر یوں ہی ایک خیال ذہن میں آیا تو اس سے پوچھ بیٹھی۔۔۔ ”اچھا ایک بات بتاؤ؟‘‘

’’اگر ابھی اسی وقت کوئی تم سے پوچھے کہ تمہاری کوئی ایک خواہش کوئی ایک تمنّا اسی وقت پوری کر دی جائے گی! بتاؤ کیا چاہتی ہو؟ تو تم کیا مانگو گی؟‘‘
وہ بغیر سوچے سمجھے فوراً ہی بول پڑی:
”میں چاہتی ہوں اسرائیل کو عبرت ناک شکست ہو، فلسطین کو شان دار فتح نصیب ہو، میرے پروردگار! بس یہ ایک خواہش، ایک تمنّا، ایک حسرت پوری کر دے۔۔۔!! میں ان منحوس یہودیوں کو سسکتے تڑپتے دیکھوں جنھوں نے مسجدِ اقصٰی پر قبضہ کر رکھا ہے، جنھوں نے غزہ میں بمباری کر کر کے معصوم جانوں کو تڑپایا ہے، جنھوں نے اپنے ہی ملک میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کو قید کر دیا، جنھوں نے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ بس ایک بار !بس ایک بار۔۔۔“ اس نے شدّتِ جذبات سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

مجھے اس کے شوق ،اس کے جذبے نے حیران کر دیا۔ میرا خیال تھا وہ اپنی پریشانیوں میں سے کسی ایک سے تو ضرور ہی چھٹکارا پانا چاہے گی، لیکن اس کی تو خواہش ہی نرالی تھی۔

میں نے پوچھ ہی لیا:’’ تمہارے اپنے اتنے مسائل ہیں اور تمہاری سوچ فلسطین اور مسجدِ اقصٰی کا طواف کر رہی ہے۔ “ وہ بولی:’’میرے مسائل کوئی اتنے بڑے مسئلے نہیں ہیں، یہ تو چھوٹی موٹی پریشانیاں ہیں جو اللہ سے قریب کیے رکھتی ہیں، اللہ جب چاہے انھیں دور کر دے۔ بس کبھی کبھی ذہن پہ بہت دباؤ ہو تو آ کر تم سے کہہ دیتی ہوں کہ بوجھ بڑھ جائے تو بانٹ لینا چاہیے۔ تم دو لفظ تسلی کے کہہ دیتی ہو تو سکون سا مل جاتا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آئے دن بیت المقدس پر صیہونیوں کے حملے اور اس وقت جو فلسطین میں جنگ کا سماں ہے، اس نے سکھ چین اڑا رکھا ہے۔ ہم چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم قیامت کے دن اپنے ان مظلوم بہن بھائیوں کا کیسے سامنا کریں گے؟؟

ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ مسجدِ اقصٰی یہودیوں کے قبضے میں تھی اور تم چین سے اپنے گھروں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، چائے پی رہے تھے، دھوم دھام سے شادی بیاہ کر رہے تھے، تمہارے کاروبار چل رہے تھے۔۔۔ تمہاری زندگیوں پر تو کچھ بھی فرق نہیں پڑا تھا۔ تمہاری راتوں کی نیندیں اڑیں نہ بھوک پیاس پر ہی کچھ اثر پڑا! تب ہم کیا جواب دیں گے اس پاک ذات کو؟“

اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، مگر میرے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں تھا۔ ”ہم سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا! ہم تو بڑے ہی ناکارہ ہیں۔۔۔“ وہ اپنی بات کا خود ہی جواب دینے لگی۔ ”بس ،کبھی کبھی نمازوں میں دعا مانگتے ہوئے بے بسی سے رو پڑتی ہوں۔ یہ میرے پاؤں کا زخم دُکھتا ہے تو مجھے ان کے کٹے پھٹے اعضا یاد آتے ہیں اور میں تڑپ جاتی ہوں، لیکن میں کیا کروں؟ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی ان کے لیے۔۔۔“ آنسو اچانک ہی اس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر بہ نکلے۔ ؎ اور میرے پاس کیا ہے دینے کو دیکھ کر تجھ کو روئے دیتی ہوں درد سے ڈوبے لہجے میں اس نے یہ شعر پڑھا، پھر کہنے لگی:’’ قیامت کے دن اللہ نے مجھ سے پوچھ لیا تو اتنا تو بتا سکوں گی اے میرے پروردگار! اپنے پیارے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق میں امتِ مسلمہ کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش تو کرتی تھی، جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا : مومنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے، جب کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے، بے آرام ہو جاتا ہے۔“

میرے اختیار میں اتنا ہی ہے بس!! میں ان کے لیے روتی ہوں، سسکتی ہوں، دعائیں کرتی ہوں۔۔۔ میں اس ظلم کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی! بے شک میں تلوار اور ہتھیار سے نہیں لڑ سکتی، لیکن میں زبان سے اس ظلم کے خلاف بول تو سکتی ہوں! ایمان کا اتنا درجہ تو میرے پاس ہے کہ میں اس برائی کے خلاف علی الاعلان بول کر جہاد کر سکوں، فریاد کر سکوں، لوگوں کو بتا سکوں کہ میں ان سب ظالمانہ کارروائیوں کو دل سے برا سمجھتی ہوں، یہ بہت زیادتی ہے، یہ انتہائی ظلم ہے! میں دل سے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ ہوں، کاش! کوئی جا کر انھیں بتائے۔۔۔ کہ اے سرزمینِ فلسطین کے مظلوم اور مجاہد مسلمانو!! ہم تمہارے لیے کتنے بے چین ہیں! ہم تم سے اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں! ہم تم سے انتہائی محبت رکھتے ہیں! ہم تمہاری آزادی کے لیے روتے تڑپتے ہیں! تم پر ہوتا ظلم ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ ہم تمہاری برداشت، تمہاری ثابت قدمی اور تمہارے جذبۂ جہاد کو سلام پیش کرتے ہیں!!

ہم دل سے تمہارے ساتھ ہیں۔ ہماری دھڑکنیں تمہارے لیے ہیں، اگرچہ ہم عملی طور پر تمہارے لیے کچھ نہیں کر پا رہے، مگر یقین رکھو !ہمارے دل تمہارے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔۔۔!ہم بس تمہیں تسلی ہی دے سکتے ہیں! فتح ضرور تمہارا مقدر بنے گی! تم غازی بنو یا شہید! دونوں صورتوں میں جیت تمہاری ہے۔

ایک دن آئے گا، ظالم خود اپنے شکنجے میں کسا جائے گا۔ ہمارے رب کے وعدے سچے ہیں۔ وہ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے، مگر جب پھندا کستا ہے تو پھر اس کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا!!

’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘ اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں۔ بے شک! اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔

وہ خاموش ہوئی تو میرے پاس بھی کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ویسے بھی سب کچھ تو اس نے کہہ دیا تھا۔۔۔!! میں تو بس اب یہ سوچ رہی تھی کہ اس ساری صورتِ حال میں میرا کیا کردار ہے۔۔۔ کسی بے جان ریت کی ڈھیری کی طرح ایک طرف پڑا ہوا یا پھر راکھ میں دبی چنگاری جیسا!!