سویرا اور ظفر ایک دوسرے کے ساتھ کتنے بھی مخلص سہی مگر رشتے کی بات نہیں بن سکی۔ دونوں طرف سے مسائل کا سامنا تھا۔ اب عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

 ام محمد سلمان

"ارے بھئی کہاں ہیں؟

کیا کر رہی ہیں؟ ایک میسج بھی نہیں کر سکتی تھیں؟" ظفر نے بے تابانہ میسج کیا۔

"جی آپ کی مصروفیت کے خیال سے نہیں کیا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا." وہاں سے بھی فوراً جواب آیا۔

"ہاں مصروف تو ہوں مگر مصروفیت میں بھی بوریت ہو جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے ہر تھوڑی دیر بعد محترمہ سویرا  سے بات ہو۔

سویرا ہوتی ہیں تو بوریت نہیں ہوتی، سویرا نہیں ہوتیں تو بوریت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر تھوڑی دیر بعد محترمہ سویرا سے بات کرنا ضروری ہے."

اور اس والہانہ پن پر  سویرا دل ہی دل میں شرما کر رہ گئیں۔ 

پھر ایک دن سویرا نے کہا:

"آپ کی بہت یاد آ رہی ہے."

کہنے لگے: "بڑی بات ہے آپ نے مجھ ناچیز کو یاد کیا."

"جی نہیں جناب! بڑی بات تو تب ہوتی جب آپ مجھے یاد کرتے!"

"سویرا جان! ساری مصروفیات ایک طرف کر کے سب چھوڑ کر موبائل ہاتھ میں اٹھائے آپ سے بات کررہا ہوں، یہ کافی نہیں!"

اور سویرا کے تو گویا من میں پھول ہی پھول کھل اٹھے۔

پھر ایک دن سویرا کہنے لگیں:

"بار بار ہم سے بات نہ کیا کیجیے، عادی ہو جائیں گے ہم آپ کے."

تو جواب آیا: "بار بار آپ کی یاد جو آتی ہے، بات نہ ہو تو دل بے قرار ہو جاتا ہے۔" اور سویرا کا دل نئی نئی دھڑکنوں سے آشنا ہونے لگا۔ ان راستوں پر چلنے لگا جہاں پھول ہی پھول کھلے تھے۔

٭٭٭

پھر ایک دن سویرا نے انھیں میسج کیا

"آج آپ کو ہماری یاد نہیں آئی، کوئی دعا سلام ہی نہیں؟"

تو جواب آیا:

"میں آپ کو بھولتا ہی کب ہوں جو یاد کرنے کی نوبت آئے...!!!"

"کبھی بھی نہیں بھولتے؟" سویرا نے حیرانی سے پوچھا.

تو کہا:

"میں بھولتا بالکل بھی نہیں، شاید کسی لمحے بھی نہیں."

اور سویرا کے دل میں کوئی چوٹ بہت زور سے لگی تھی.......

کہنے لگیں: لیکن ہم تو اپنی مصروفیات میں لگ کر آپ کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن پھر جب آپ کی یاد آتی ہے تو گویا پھول ہی پھول کھل اٹھتے ہیں چاروں طرف.... اتنا اچھا لگتا ہے اتنا اچھا لگتا ہے کہ... آپ بھی ہیں ہماری زندگی میں!

بس کیا بتائیں کتنا اچھا لگتا ہے!"

تو کہنے لگے، واہ یہ تو بہت پیارا بُھول پن ہے!!

اور پھر وہ دونوں محبت کے مسحور کن مگر پر خار راستوں پر چلتے چلے گئے... اور یہ سفر تین سال تک جاری رہا۔

***

 اور پھر یوں ہوا کہ سویرا بھول تو اب بھی جاتی ہیں کبھی کبھی.... مگر اب جب دوبارہ ان کی یاد آتی ہے تو دل میں پھول کھلنے کی بجائے ویرانیاں سی بکھر جاتی ہیں ایک درد دل کی گہرائیوں میں اترتا جاتا ہے۔ اب یاد خوش گوار نہیں ہوتی اب دل میں پھول نہیں کھلتے نہ آنکھیں سپنے بنتی ہیں..... اب تو درد ہی درد ہوتا ہے چاروں طرف!!

جس دن سے جدا وہ ہم سے ہوئے

اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا

ہے چاند کا منہ اترا اترا...

 تاروں نے چمکنا چھوڑ دیا

وہ پاس ہمارے ہوتے تھے

بے رت بھی بہار آجاتی تھی

اب لاکھ بہاریں آئیں تو کیا

پھولوں نے مہکنا چھوڑ دیا

٭٭٭

سویرا اور ظفر ایک دوسرے کے ساتھ کتنے بھی مخلص سہی مگر رشتے کی بات نہیں بن سکی۔ دونوں طرف سے مسائل کا سامنا تھا۔ اب عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں مگر اس نامراد دل کا کیا کیا جائے جو مانتا ہی نہیں۔ محبت تو چھا جاتی ہے. کسی آسیب کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس کے خونی پنجوں سے جان چھڑانا کچھ آسان تو نہیں!

مگر جان تو چھڑانی تھی۔

سویرا خود ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ دل بہک گیا تو بہک گیا.. مگر اب وہ بھی سیدھے راستے پر چلنا چاہتی تھی. ظفر پلٹ گیا تھا مگر وہ اب بھی اس کے غم میں ہلکان تھی، بھولنا چاہتی مگر بھول نہ پاتی۔

احساس ہوتا تھا کہ یہ رب کی نافرمانی ہے مگر کیسے بچاؤں میں خود کو اس گناہ سے... ہزار بار توبہ کرتی ہوں مگر پھر اس سے رابطہ کر بیٹھتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے اس کے بغیر میری سانسیں تھم جائیں گی! یا خدا میں کیا کروں؟

پھر سویرا نے اپنا مسئلہ  ایک مفتی صاحب کو لکھ کر بھیجا وہاں سے قرآن و حدیث کے حوالوں کے ساتھ پر زور مطالبہ ہوا کہ اس ناجائز محبت کو جلد سے جلد چھوڑ دیں۔

میں جانتی ہوں مجھے یہ سب چھوڑنا ہے، میں مانتی ہوں یہ سب غلط ہے مگر کیسے چھوڑ دوں؟ میرا خود پر اختیار نہیں چلتا۔ میں بے بس محسوس کرتی ہوں اپنے آپ کو۔ سویرا پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔

٭٭٭٭

اس کی ای میل میرے سامنے کھلی پڑی تھی۔  اس کی درد بھری باتوں نے میرا دل بھی پگھلا دیا تھا۔ وہ مجھے مذکورہ بالا سب حال بتا کر مجھ سے مشورہ مانگ رہی تھی میں کیا کروں آخر؟ میں کس طرح اس کی یادوں سے دامن چھڑاؤں؟ میری توبہ بار بار ٹوٹ جاتی ہے۔ ہر روز دل کو سمجھاتی ہوں پھر ہر روز اس سے بات کرنے بیٹھ جاتی ہوں ۔

مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ رب کریم میری توبہ قبول نہیں کرتے۔ تب میں نے اسے سمجھایا تھا ۔۔۔۔

٭٭٭

میری پیاری بہن! یہ جو بار بار وہی غلطی آپ سے ہو رہی ہے جسے چاہ کر بھی آپ چھوڑ نہیں پا رہیں... یقیناً اللہ سے بہت دعائیں کرتی ہوں گی، معافیاں مانگتی ہوں گی.. کہ کسی طرح اس غلطی سے باز آ جاؤں مگر توبہ تلافی کے بعد پھر وہی غلطی ہو جاتی ہے۔

تو میری بہن اس پر بڑی پیاری صحیح حدیث ہے:

مفہوم ہے کہ بندہ کوئی غلطی کرتا ہے اور پھر اسے احساس ہوتا ہے میں نے اپنے رب کی نافرمانی کر دی۔ پھر شرمندہ ہو کے اللہ سے معافی مانگتا ہے کہ یا اللہ میں تو غلطی کر بیٹھا، پس تو مجھے معاف کر دے.. تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو میرا یہ بندہ! اسے پتا ہے کہ کوئی اس کا رب ہے جو غلطی کرنے پر پکڑ بھی سکتا ہے اور سزا دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے۔ تو تم گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کر دیا۔

پھر کچھ عرصے بعد وہ بندہ وہی گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر اللہ سے معافی مانگتا ہے کہ یا اللہ! میں تو پھر یہ گناہ کر بیٹھا.. پس تو مجھے معاف کر دے۔ اور اللہ پاک پھر اسے معاف کر دیتے ہیں.. پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ بندے کے معافی مانگنے پر پھر اسے معاف کر دیتے ہیں ۔

اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ بندہ گناہ کرتے تھکے تو تھکے، میں معاف کرتے نہیں تھکتا۔ "

بس میری پیاری بہن! زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے، انسان لاکھ چاہنے پر بھی کسی بھنور سے نکل نہیں پاتا... اب جب کہ اس کی تڑپ سچی ہے تو وہ لگاتار نکلنے کی کوششوں میں لگا رہے تو ایک دن اللہ پاک اسے ضرور کامیابی عطا فرماتے ہیں۔

اور یہ غلطیاں مستقبل میں کسی خیر کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتی ہیں کہ.. ایسے ہی حالات میں پھنس کر دراصل ہم دوسروں کا درد اور کیفیت سمجھ سکتے ہیں۔ بس سچے دل سے اس رب کے در سے جڑی رہیے۔ ان شاء اللہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گی۔ اپنا سفر جاری رکھیے۔ یہ توبہ اور ندامت کے آنسو بےکار نہیں جائیں گے۔

 

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

آپ کو چاہیے اللہ کے سامنے خوب روئیں گڑگڑائیں... توبہ کریں اس سے مدد مانگیں.. اللہ کو بتائیں کہ میں نفس کے آگے مجبور ہو جاتی ہوں کمزور پڑ جاتی ہوں۔ خود پہ قابو نہیں رکھ پاتی اے اللہ! میں کمزور ہوں! بے بس ہوں لیکن آپ مالکِ کل ہیں، مختار ہیں، آپ کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ بس آپ میری طاقت بن جائیے۔ مجھے اس گناہ سے بچا لیجیے.. میری توبہ قبول فرما لیجیے۔ میرے قدموں کو راہِ مستقیم پر ثابت قدمی عطا فرمائیے ۔"

یاد رکھنا میری بہن! سچی ندامت اور کوشش انسان کو ایسے گڑھوں

سے نکال لیتی ہے۔

اپنے آپ کو کسی مثبت سرگرمی کی طرف لگائیے... دل پر قابو رکھیے.. دل بہت مجبور کرے اس سے بات کرنے کے لیے تو اسے سمجھائیے کہ آج رہنے دیتی ہوں کل کر لوں گی، پرسوں کر لوں گی۔ اسی طرح دل کو سمجھاتی رہیے اور اس تعلق کو کم کرتی جائیے۔

جیسے نفس انسان کو بہکاتا ہے نا ایسے ہی انسان کو بھی چاہیے اپنے نفس کو جھوٹی امید دلا کر بہلا پھسلا لیا کرے....!

اللہ اپنے بندوں کی کوشش دیکھتا ہے، انجام نہیں! سچی ندامت کے ساتھ کی گئی توبہ نفس اور شیطان کو انتہائی کمزور کر دیتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان کا نفس بہت نڈھال ہو جاتا ہے اور گناہ کا داعیہ پیدا کرنے کی وہ قوت اس میں باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح شیطان بھی اس کی بار بار توبہ سے کمزور پڑ جاتا ہے۔ بس انسان کو چاہیے ہمت نہ ہارے۔ گناہوں کی نحوست سے اپنے رب سے بدگمان نہ ہو، وہ کبھی اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ بس اپنے آپ کو ہمیشہ رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکا کر رکھیے۔ اللہ آپ کا اور آپ جیسی مصیبت زدہ تمام بہنوں بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین.

جہاں محبت ہو اور وہاں شادی نہ ہو سکے تو کسی بھی اچھی جگہ والدین کی رضامندی سے شادی کر لینی چاہیے، نکاح کا بندھن دلوں کو ملا دیتا ہے۔ ساری زندگی کے لیے محبت کا روگ پال لینا کوئی عقل مندی نہیں ۔ شادی کر کے فطری طریقے سے زندگی گزاری جائے۔  دل پر سکون ہو جائیں گے ان شاءاللہ ۔