آج وہ سہیلی آئی اور مرحومہ کے کمرے میں گئ۔۔۔ ایک چابی پرس سے نکالی اور بیڈ کے ساتھ والی چھوٹی سی الماری کھولی ۔۔۔کاغذوں کے پلندے، عطر کی کچھ شیشیاں۔۔اور گلاب کی سوکھی پتیاں ۔۔ ایک شاپر بیگ لیا،اس میں یہ سب ڈالااور چلتی بنی۔۔ جاتے جاتے چابی مرحومہ کی ماں کو دے گئی۔۔ گھر جاکر کاغذات دیکھے تو شاعری کا انبار ۔۔۔اور بہت سارے افسانے ۔۔۔لیکن۔۔ایک پیلے بند لفافے میں پانچ خطوط نکلے۔
ارم رحمان لاہور
اسے خاموشی سے مرے 21 دن ہو چکے تھے۔۔اس کے وجود کو کبھی زمانے نے تسلیم ہی نہیں کیا، چپکے سے دنیا میں آئی اور خاموشی سے چلی گئی۔۔اس کی موت پہ ماتم کی کوئی خاص وجہ تو تھی نہیں۔۔۔50 سال تک زندہ رہ کر کیاتیر ماراجو مرنے کا دکھ منایاجاتا۔۔۔
کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی
گھر کے کاموں کو ازل سے تسلیم نہیں کیا گیا۔۔عبادتیں فیشن کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔۔ پردےدار عورت ویسے ہی سب کو کھلتی ہے۔۔ اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت توبہ۔۔۔ کتنی بور ہوتی ہے ۔۔
بس خاموشی ،تنہائی اور عبادت۔۔۔
کسی نے کبھی نہ سوچا کہ یہ انسان ہے۔
۔شادی بیاہ گھر بار اس کی بھی ضرورت ہیں۔۔ بس نہ کوئی رشتہ آیا ڈھنگ کا ۔۔نہ کچھ کوشش کی گئ۔۔اباکے در پہ پڑی گھر کی بنی بنائی ملازمہ بات ختم ۔
۔ اب مرنا تو سب نے ہے ۔
پھرروئیں کیوں؟؟
اس کی اکلوتی دوست جو مرنے سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے گھر آئی تھی اور کچھ دیر دونوں تنہا بیٹھ کے باتیں کرتی رہیں ۔۔۔اور پھر وہ اپنے گھر اور یہ اپنے در۔۔۔
آج وہ سہیلی آئی اور مرحومہ کے کمرے میں گئ۔۔۔ ایک چابی پرس سے نکالی اور بیڈ کے ساتھ والی چھوٹی سی الماری کھولی ۔۔۔کاغذوں کے پلندے، عطر کی کچھ شیشیاں۔۔اور گلاب کی سوکھی پتیاں ۔۔ ایک شاپر بیگ لیا،اس میں یہ سب ڈالااور چلتی بنی۔۔ جاتے جاتے چابی مرحومہ کی ماں کو دے گئی۔۔ گھر جاکر کاغذات دیکھے تو شاعری کا انبار ۔۔۔اور بہت سارے افسانے ۔۔۔لیکن۔۔ایک پیلے بند لفافے میں پانچ خطوط نکلے ۔۔۔ کس کے نام تھے ۔؟ ۔کب لکھے ۔۔؟ ۔ اور پوسٹ کیوں نہیں کیے۔؟ ۔۔ کچھ معلوم نہیں ہو سکا
پہلا خط۔
میرے پیارے ہم۔نفس! لوگ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے محبوب کو پانے کی دعا مانگتے ہیں مگر میں پانچ وقت کی نمازوں میں تمھیں بھولنے کی دعا کرتی ہوں۔۔میں چاہتی ہوں کہ میری یاداشت سے اگر کچھ محوکردیا جائے تو وہ تمھاری یاد ہو۔۔۔ میں تمھیں بھولنا چاہتی ہوں۔۔۔
دوسرا خط۔۔۔
میرے ہمدم۔۔۔۔!! آج تم بہت شدت سے یاد آرہے ہو لگتا ہے کلیجہ کٹ رہاہے ۔دل کی دھڑکن اتنی تیز ہے جیسے دل پسلیوں کو توڑ کر باہر نکل آئے گا آج جائے نماز پہ بیٹھی توایسالگا سارے وجود میں آگ لگ گئ ہو۔۔ ایسی باتیں صرف فلموں میں دیکھی اور افسانوں میں پڑھی تھیں۔۔جب خود پہ بیتی تو پتا لگا کہ عشق میں واقعی ایساہوتاہے۔۔
تیسرا خط۔۔۔
میرے نٹ کھٹ ساتھی۔۔۔ آج میرا دل چاہا کہ مسجد میں اعلان کروا دوں کہ ایک انتہائی سادہ،سلیقہ مند۔۔تعلیم یافتہ۔۔کفایت شعار،اطاعت شعار ،غمخوار تھوڑی سے تھوڑی زیادہ بڑی دوشیزہ کے لیے ایک صاحب دل صاحب نظر۔۔باخبر۔۔بلا جبر۔۔ صاحب حیثیت کا رشتہ درکار ہے۔ سمجھدار دیندار حضرات رشتہ بھیج کر ثواب دارین حاصل کریں۔عقد ثانی والے زوجہ اول کی زندگی میں آنے سے گریز کریں۔۔ باقی اور زیر غور۔۔۔ اپنے روشندان اور دونوں کان کھلے رکھیں۔۔اعلان بار بار دہرایا جا سکتاہے
چوتھا خط۔۔۔
جان جاناں۔۔۔۔!! کبھی کبھی مجھے لگتاہے تم میرے بہت قریب ہو تمھاری سانسوں کی گرمی اور بالوں کی نرمی مجھے گردن پر محسوس ہوتی ہے۔۔تمھارے قرب کی حدت وجود کو جھلسانے لگتی ہے۔۔۔تمھارے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے اور تمھارے بدن کی مہک فضا میں پھیلی ہوتی ہے
پانچواں خط۔۔۔
میرے پیارے محبوب! تمھاری تصویروں کے ڈھیر سے میرا ادھموا موبائل بھرا پڑاہے۔۔۔کل۔کلاں۔۔۔ فرض کیا کسی بندے کے دل و دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔۔۔ اور مجھ ناچیز کو عزیز سمجھ کر اپنے عقد میں لینا چاہا۔۔۔ تو پتالگے۔۔
کہ رقیب روسیا ہ کی طرح طرح کی تصویروں کی بھر مار ہے۔۔۔ کسی فلمی ہیرو جیسے سلمان ۔۔شاہ رخ یا عامر خان کی نکلتیں تو وہ صاحب میری خوش ذوقی سے متاثر ہوتے
مگر جب ان موصوف کی نظر تمھاری تصویروں پہ پڑے گی تو کیا بتاؤں گی کہ سرتاج۔۔ ایک عدد شوہر گود لیتے لیتے رہ گئ۔۔بس اسکی یاد میں یہ جمع کر رکھی ہیں۔۔۔
وہ کون تھا ؟ کیا پتا کیونکہ وہ موبائل کبھی کسی کو نہیں مل سکا!!