میں پیپسی نہیں لوں گا.. وہ سامنے کلیم بھائی کی دکان سے دودھ دہی خرید کر لے جاؤں گا۔ امی سے کہوں گا مہمانوں کی لسی سے تواضع کریں اور کھانے کے ساتھ کوئی ٹھنڈا مشروب رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو کیری کا شربت بنا لیں یا پھر دہی کی نمکین لسی بنا کر رکھ دیں یا لیموں کی سکنجبین
ام محمد سلمان
حامد کا اپنے علاقے میں ہی ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا جو خوب چلتا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں تو ساری کمائی مانو پیپسی اور دیگر کولڈ ڈرنک کے ذریعے ہی ہوتی تھی۔ لیکن جب سے اسرائیل کے خلاف معاشی بائیکاٹ کی مہم شروع ہوئی تھی تو اس کا کاروبار بہت ڈاؤن ہو گیا تھا۔ اب حامد پریشان بیٹھا اسی مسئلے پر غور و فکر کر رہا تھا۔ "کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا. میں تو عرش سے فرش پر آ گیا ہوں۔ بیوی بچے الگ پریشان ہیں اس صورت حال سے۔ جو چیزیں بے تحاشا چلتی تھیں اب ان سب کا ہی بائیکاٹ کررہے ہیں اکثر لوگ ۔" انہی سوچوں میں گم تھا کہ اشرف صاحب کا بڑا بیٹا فاروق آیا اور سلام دعا کے بعد کہنے لگا...
"حامد بھائی! گھر میں مہمان آئے ہیں۔ امی نے کہا دو جمبو سائز پیپسی لے آؤ۔" حامد ایک دم ڈیپ فریزر کی طرف لپکا کہ بوتل نکالوں... لیکن فاروق بولا: "ارے رکیے تو! دراصل مجھے پیپسی نہیں خریدنی حامد بھائی...! اگر آپ کے پاس گورمے کی کولڈ ڈرنک ہیں تو وہ دے دیں۔
”وہ تو نہیں ہیں یار...! تم پیپسی ہی لے جاؤ نا!“
"نہیں حامد بھائی! اپنے فلسطینی بھائیوں کو اس حال میں اس ظلم و ستم کی چکی میں پستے دیکھ کر کس کا جی چاہتا ہے کہ ان ٹھنڈے میٹھے مشروبات کا لطف لے... جن کے عقب سے گولے بارود کی خوشبو آتی ہے، شعلے بھڑکتے دکھائی دیتے ہیں، بمباری سے گرتی عمارتوں کا ملبہ دکھائی دیتا ہے، فلسطین کی ماؤں بیٹیوں کی آہ و بکا کا شور سنائی دیتا ہے۔ اور... اور... مسجد اقصٰی کی شکایتی نظریں تو گویا میرے وجود کے آر پار ہوئی جاتی ہیں۔" یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھرّا گئی۔ تھوڑی دیر خاموش ہوا پھر بولا۔
"میں پیپسی نہیں لوں گا.. وہ سامنے کلیم بھائی کی دکان سے دودھ دہی خرید کر لے جاؤں گا۔ امی سے کہوں گا مہمانوں کی لسی سے تواضع کریں اور کھانے کے ساتھ کوئی ٹھنڈا مشروب رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو کیری کا شربت بنا لیں یا پھر دہی کی نمکین لسی بنا کر رکھ دیں یا لیموں کی سکنجبین۔"
"یار تو جاؤ نا... جو کرنا ہے کرو! میرا وقت کیوں ضائع کررہے ہو؟" حامد نے چڑ کر کہا۔
"معافی چاہتا ہوں حامد بھائی!! بس اتنا کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ خود بھی یہ چیزیں اپنی دکان میں نہ رکھیں جن کا منافع اسرائیل کو مضبوط اور ہمارے فلسطینی بھائیوں کو کمزور کررہا ہے۔" اشرف کا لہجہ ملتجیانہ تھا۔
"میں بھی تو کمزور ہو رہا ہوں میرے بھائی! میرے گھر میں بھی کھانے کے لالے پڑ رہے ہیں. میں کیا کروں آخر؟" حامد تڑپ کر بولا۔
"مقدر کی روزی ہر حال میں مل کر رہتی ہے حامد بھائی! فرق صرف ہماری سوچ کا ہے۔ لوگوں کے کاروبار تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی تباہ ہوئے، مگر اسے بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کیا ہے نا سب نے... اور پچھلے سال جو سیٹھ عدنان کے بڑے اسٹور میں آگ لگی تھی، سارا مال جل گیا تھا۔ اس پر بھی تو صبر کیا ہی تھا نا انھوں نے۔ کبھی کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے، کوئی بیمار پڑ جاتا ہے، کسی کے ہاں موت ہو جاتی ہے اور کئی کئی دن بلکہ مہینوں کے لیے کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں، اس وقت بھی تو حالات کے ساتھ سمجھوتا کرتے ہی ہیں نا سب لوگ!! تو پھر اب کیوں نہیں؟
ان حالات میں ہم لوگ اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے زیادہ نہ سہی کم از کم ان چیزوں کا تو بائیکاٹ کر ہی سکتے ہیں جو ہمارے یہاں کثرت سے استعمال ہوتی ہیں جب کہ ان کا متبادل موجود ہے۔ اور ان چیزوں کا بائیکاٹ بھی جن کے بغیر ہمارا گزارا ہو سکتا ہے۔“
"یار یہ ساری تقریر تم مجھے کیوں سنا رہے ہو؟ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔ الف سے لے کر ی تک ہر چیز کا بائیکاٹ کرو۔ لیکن میرا دماغ خراب کیوں کررہے ہو بھائی؟" حامد کا چڑچڑاپن اور بد اخلاقی عروج پر تھی۔
"میں آپ کی حالت سمجھ رہا ہوں حامد بھائی! پلیز غصہ مت کریں، ٹھنڈے دل سے میری بات سنیں... میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے عوام کی اکثریت سادہ اور ان پڑھ ہے. ان باتوں کو گہرائی سے نہیں جانتی۔ آپ دکان دار لوگ بس اتنا کریں کہ پیپسی، کوکا کولا، فانٹا نیسلے کا پانی اور مشروبات سب اپنی دکان پر رکھنا بند کر دیں۔ ان کی متبادل چیزیں لے آئیں۔ گورمے کی کولڈ ڈرنک، جام شیریں، روح افزا، پاکولا جیسے اور بہت سے پاکستانی مشروبات ہیں جو گرمی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ آپ وہ اپنی دکان پر رکھیں۔ لوگ سادہ ہیں معصوم ہیں، نہیں جانتے ان کی خریدی گئی ٹھنڈی بوتلیں کس طرح تیزاب بن کر اہلِ فلسطین کے حلق میں اتر رہی ہیں اور ان کے جگر کے آر پار ہو رہی ہیں اور ہم اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں!
کل کو کیا جواب دیں گے اللہ کے سامنے؟ کیا ہم سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا؟ کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا؟ ہم اپنے حکمرانوں اور جرنیلوں کے تو پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ انھیں وہن کھا گیا ، یہ دنیا پر فریفتہ ہو کر آخرت کو بھول گئے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ صرف وہی ذمے دار اور قصور وار نہیں ہیں بلکہ ہم عوام بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمیں بھی تو اپنا فرض نبھانا چاہیے۔ ٹھیک ہے ملک و قوم کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے کرنے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں، ہم یہاں مجبور ہیں کچھ نہیں کر سکتے لیکن جتنا اپنے طور پر کر سکتے ہیں اتنا تو کرنا ہی چاہیے۔ غزہ کے بچے پہلے بمباری سے مر رہے تھے اب بمباری کے ساتھ ساتھ بھوک سے بھی مر رہے ہیں۔ ان کے لیے غذائیں نہیں دوائیں نہیں... اور ہم ایسے میں ان کی مصنوعات خرید خرید کر اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکتے رہیں اسے اور مضبوط کرتے رہیں کہ جی بھر کے ہمارے بہن بھائیوں پر ظلم کر لو... یہ کیسی بے حسی ہے کیسا ظلم ہے کیسا اندھیر ہے!!" فاروق ایک بار پھر بہت جذباتی ہو گیا۔ اب حامد خاموشی سے سر جھکائے سن رہا تھا۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولا: "حامد بھائی! جہاد فرض ہو چکا ہے ہم پر... اپنے بال بچے چھوڑ کر کاروبار بند کر کے لڑنے تو جا نہیں سکتے فلسطین.. تو کم از کم اتنا ہی کر لیں کہ آپ یہ چیزیں دکان پر رکھنا بند کر دیں اور ہم خریدنا بند کر دیں!!
یہ کوکا کولا، پیپسی، مرنڈا، سیون اپ، سپرائٹ، ڈیوو ، ملک پیک دودھ اس کے علاوہ لکس صابن، لپٹن چائے، آل ویز، سیف گارڈ، پینٹین اور ہیڈ اینڈ شولڈر، پامولیو شیمپو، لیمن میکس، وم، ایریل، سرف ایکسل.... وغیرہ وغیرہ ... کم از کم ان عام اور کثرت سے استعمال ہونے والی چیزوں کا ہی بائیکاٹ کر دیں تو ان یہودی کمپنیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے اس وقت دنیا میں تقریباً چھ سو ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن میں اکثریت یہودیوں کی ہی ہیں جن سے جتنا ممکن ہو بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالی فوائد سے جو اسلحہ خریدا جاتا ہے وہ ہمارے اپنے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ فلسطینی جن بموں کا سامنا کر رہے ہیں وہ انہی کمپنیوں کے منافع کی رقم سے خریدے جاتے ہیں۔ عراق، شام، افغانستان میں امریکہ اور نیٹو نے جتنی تباہی اٹھارہ انیس سالوں میں مچائی وہ سب انہی رقوم کی وجہ سے بنی جو ان کی کمپنیاں اربوں کھربوں بلین ڈالر اپنی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔
تو ہمیں یہ سوچ کر بائیکاٹ کرنا چاہیے کہ ہمارا یہ پیسہ ہمارے مظلوم، بے بس، بے سہارا، لاچار بے یار و مددگار دنیا بھر کے مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ہمارے اس بائیکاٹ سے دنیا میں بھی مسلمانوں کا فائدہ اور کفار کا نقصان ہے اور یقیناً اللہ کے یہاں ہمارے اس جہاد اور قربانی کی بڑی قدر ہو گی ان شاء اللہ!! ہمیں ہر حال میں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا ہے ۔ اگر ہم نے اہلِ غزہ کے لیے اتنا بھی نہ کیا تو بھوک اور بمباری سے زیادہ انھیں، امت مسلمہ کی بے حسی مار دے گی!!“
فاروق نے نرمی سے حامد کے کندھے پر تھپکی دی اور دودھ دہی کی دکان کی طرف چل پڑا....!!