اجیال اکیڈمی نے علماء کرام کی مشاورت سے قرض اور قرض حسنہ کا ایک اہم قدم اٹھانے کی ٹھانی ہے۔ جس کی مدد سے وہ افراد جن پر پچھلے سالوں میں حج فرض ہوچکا ہے اور وہ کچھ وجوہ کی بناء پر نہیں جاسکے اور اب اخراجات کی اتنی مد ان کے لیے ناگزیر ہے تو وہ اس اکیڈمی سے آسان اقساط پر قرض لے کر اپنے اس دیرینہ اور اہم فرض سے احسن طور پر سبکدوشی حاصل کرسکیں گے۔۔۔
اہلیہ بلال کراچی
"یا اللہ! تو ہی مسبب الاسباب ہے ، میری نصرت فرما! میں تو کمزور بندہ ہوں ،تیرے ہی اختیار میں سب کچھ ہے۔ میں اپنا معاملہ تیرے سپرد کرتا ہوں۔" آمین!
ارسلان نے تر آنکھوں کے ساتھ چہرے پر ہاتھ پھیرے۔
دل میں دعا کے پورے ہونے کا مکمل یقین تو تھا ہی لیکن پھر بھی ایک بے کلی، ایک تڑپ تھی جو کسی طور کم نہیں ہورہی تھی۔
ارسلان کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ بچپن سے ہی دینی شعار کی اہمیت اور فضیلت گھٹی میں ڈال دی گئی تھی۔ حرمین کی محبت تو رگ وپے میں اتری ہوئی تھی۔ کسی موقع اور تقریب میں ملنے والے نقد ہدایہ منی باکس میں اسی نیت سے ڈالے جاتے کہ حج کرنا ہے۔ اسی عادت کے ساتھ یہ محبت پروان چڑھتی گئی۔ ماہ و سال بیت گئے ارسلان ایک قابل انسان بن چکا تھا۔ شرعی حلیہ اس کی شخصیت کا خاصا تھا۔
جمع پونجی اتنی ہوچکی تھی کہ حج کی فرضیت ثابت ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭
امی جان! آپ کی اجازت ہو تو اس سال حج کی درخواست جمع کروا دوں؟ "بیٹا! ایک سال رک جاؤ، اس سال زینب کا نکاح متوقع ہے ،تم اکلوتے بھائی ہو، تمہارا موجود ہونا ضروری ہے۔"امی جان مان سے بولیں۔
بہتر،امی جان! ارسلان نے تابعداری سے کہا۔
٭٭٭٭ زینب کی رخصتی کے بعد امی جان کی طبیعت ناساز رہنے لگی، گرتی صحت کے پیش نظر امی جان کے مکمل ٹیسٹ کروائے گئے تو "ٹی بی' کی تشخیص ہوئی۔ مرض تو قابل علاج تھا، لیکن اس کے علاج میں وقت بہت درکار تھا، ساتھ ہی مریض کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا۔
ارسلان نے ماں کی خدمت میں دن رات ایک کردیے اسی دوران اُس سال کا حج بھی آکر گزر گیا۔ ٭٭٭٭
ارسلان کی دعائیں طویل جاری تھیں۔ تڑپ شدت میں بدلتی جارہی تھی کہ کووڈ 19 نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک عجیب ماحول نے چاروں طرف خوف کی لہریں پھیلا دیں۔ کئی افراد کو یہ وبا کھا گئی۔کتنوں کے پیارے چل بسے۔ اسی وبا کے سبب سعودی حکومت نے اُس سال حج بھی مقامی لوگوں تک موقوف کردیا۔ عالم اسلام کے باشندے اس بات سے رنجیدہ تھے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نا تھا۔
اللہ کے نیک بندوں کے طفیل اس وبا کی فضا میں کمی رونما ہونے لگی، زندگی بحال ہونے لگی۔ سعودی حکومت نے بھی پابندیوں میں نرمی برتی مگر اس وبا نے پوری دنیا کو خسارے کے مقام پر لاکھڑا کیا تھا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا اور اس کے اثرات عالمی کرنسیوں کی قیمتوں پر پڑے ،جس بنا پر حج کے اخراجات یکدم بلند ہوگئے۔ پاکستان کے حالات ویسے بھی دگرگوں تھے اس مہنگائی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
"2022 حج کا پیکج ساڑھے آٹھ لاکھ میں حکومت وقت نے جاری کیا ہے۔" زین کا میسج ارسلان کے موبائل پر آیا۔ ارسلان چار لاکھ پر تکیے کیے بیٹھا تھا ،ساڑھے آٹھ لاکھ کا سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
"امی جان دعا کیجیے کوئی سبب میسر آجائے۔" ارسلان نے ماں سے دعا کی التماس کی۔ "بیٹا تمہاری استطاعت سے باہر ہے یہ خرچ ، تم پر حج فرض نہیں۔" امی نے جواب دیا۔ "نہیں امی! مجھ پر حج آج سے چار سال پہلے ہی فرض ہوچکا تھا، یہ اور بات ہے کہ میں جا نہ سکا۔" ارسلان نے ماں کی تصحیح کی۔ ٭٭٭٭
گریہ و زاری میں شدت آگئی، ساتھ ہی بزنس میں محنت کا دورانیہ بھی بڑھادیا رقم چھ لاکھ تک جمع ہوسکی تھی کہ 2023 کے حج شیڈول کے اخراجات مزید بڑھ کر آئے منزل کے قریب پہنچنے کے بجائے مزید دوری ہورہی تھی۔ یارب! میں کیا کروں ،کس سے کہوں؟ ارسلان کی خود کلامی جاری تھی کہ اتنے میں موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسعد ماموں!
السلام علیکم! ماموں جان خیریت سے ہیں؟
ہاں بھئی! ارسلان میاں آپ سنائیں، کیسے ہیں؟
الحمدللہ! جی فرمائیے کیسے یاد کیا؟
"تم سے ایک کام تھا کچھ رقم صدقہ جاریہ کے طور پر کہیں لگانا چاہتا ہوں، تم تو جانتے ہو، یہاں یورپی ممالک میں ایسے مواقع نہیں ہیں۔
اسی لیے پاکستان بھیج رہا ہوں۔ اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیجو۔" ماموں نے عجلت میں بات ختم کی اور فون رکھ دیا۔ ارسلان کو یہ آنے والی رقم رب کا اشارہ لگ رہی تھی، لیکن ماموں جان نے کہیں لگانے کا کہا تھا۔ اس کے لیے تو نہیں بھیج رہے تھے۔
خیر! اس نے اکاؤنٹ نمبر ٹرانسفر کیا اور امی کے گوش گزار یہ بات کردی۔ امی جان ویسے ہی بیٹے کی کیفیت اور خواہش سے واقفیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے فوراً سے پیشتر بھائی کو فون ملایا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا ۔ "مگر بہن میں تو صرف چار لاکھ بھیج سکتا ہوں۔ باقی کا انتظام خود دیکھ لینا۔" ٹھیک ہے بھائی ! جزاک اللہ خیرا ۔۔
امی جان کے منہ سے یہ خبر سن کر ارسلان کو امید کی کرن روشن ہوتی دکھائی دی مگر ابھی بھی دو لاکھ کم تھے۔ ٭٭٭٭
ہاں بھئی ارسلان! سناؤ حج کی درخواست جمع کروا رہے ہو یا نہیں؟ علی نے پوچھا۔ "دو لاکھ کم ہیں ابھی تک"
دعا کرو ،اللہ پاک کوئی بندوست کروا دیں، کہیں سے غیر سودی اور آسان اقساط پر قرض بھی مل گیا تو ان شاءاللہ جلد لوٹا دوں گا۔ ارسلان نے دل کی بات دوست کے گوش گزار کردی۔ "قرض! رکو مجھے کل ہی اجیال اکیڈمی کا میسج کسی نے بھیجا ہے۔" علی بڑبڑایا. 'اجیال اکیڈمی" یہ کیا ہے؟
اجیال اکیڈمی نے علماء کرام کی مشاورت سے قرض اور قرض حسنہ کا ایک اہم قدم اٹھانے کی ٹھانی ہے۔ جس کی مدد سے وہ افراد جن پر پچھلے سالوں میں حج فرض ہوچکا ہے اور وہ کچھ وجوہ کی بناء پر نہیں جاسکے اور اب اخراجات کی اتنی مد ان کے لیے ناگزیر ہے تو وہ اس اکیڈمی سے آسان اقساط پر قرض لے کر اپنے اس دیرینہ اور اہم فرض سے احسن طور پر سبکدوشی حاصل کرسکیں گے۔ ان کا نمبر ہے https://wa.me/923320315587 تم جلد از جلد ان سے رابطہ کرو، امید ہے تمہارا کام بن جائے گا۔ ان شاءاللہ! دونوں نے ہم آواز ہو کر کہا۔ ٭٭٭ اگلے ہی دن ارسلان نے اجیال اکیڈمی سے رابطہ کیا ،اکیڈمی کے سربراہ نے ان سے مکمل دستاویزات کے ساتھ ملاقات کا وقت طے کیا، چند آسان شرائط کے ساتھ فارم فل کروایا۔ اعتماد کے لیے چند دستاویزات اپنے پاس رکھے۔ بالکل آسان ماہانہ اقساط پر معاملات طے پاگئے اور پھر ارسلان کا یہ دیرینہ خواب پایہ تکمیل پر پہنچا۔ ۔۔۔۔۔ ارسلان کا فلائٹ شیڈول آچکا تھا اور وہ حج کے سفر کی تیاریاں کررہا تھا،ساتھ ہی لب پر ہر دم ترانہ جاری ہے: " تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا" ارسلان اور اس جیسے کئی افراد اجیال اکیڈمی کے تعاون سے اس مبارک سفر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کررہے ہیں اور اس دربار میں پہنچ کر اس ادارے کی ترقی کے لیے خوب دعائیں بھی کررہے ہیں۔ ٭٭٭ کیا آپ بھی اجیال اکیڈمی کا حصہ بن کر ارسلان جیسے افراد کا سہارا بننا چاہیں گے؟ روحانیت کے اس سفر میں اپنی مالی معاونت کے ذریعے کسی کی امید اور سہارا بن کر اپنی اخروی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کا آغاز کیجیے۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد نظر انداز نہیں کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے ان شاء الله یقینا یہ اللہ تعالی کے ساتھ بہترین تجارت ہے، جس کا نفع آپ کو آخرت میں تو ملے گا ہی اور کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنی زندگی میں اس کا مشاہدہ کریں گے "سودا خالص منافع کا ہے۔"