نماز اس بارش کے پہلے قطرے کے جیسی ہی تو ہے جو کمزور ایمان اور بنجر ہو چکے دل کو نرم کرتی ہے، جیسے بارش کے قطرے بنجر زمین کو زندہ کر دیتے ہیں، اسے حیات کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس دل میں اپنے رب کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے سامنے پیش ہونے کی چاہت بھی۔
حمنہ کامران اسلام آباد
جنوری کی ایک سرد شام کی بات ہے۔ آسمان کو بادلوں نے گھیر رکھا تھا ،جن کی اوٹ میں سورج چھپ سا گیا تھا۔ اس شام پہاڑ دھند میں لپٹے ہوئے کہیں گم ہو چکے تھے۔ میں حسب معمول کتاب کے اوراق میں کھوئی ہوئی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے عصر کی نماز ادا کرنے کا ارادہ تھا لیکن سستی غالب آتی رہی۔ اسی دوران پتے ہلتے رہے اور سرد ہوائیں بھی چلتی رہیں۔ ہوائیں ہڈیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں لیکن میں بھی اس ٹھنڈ میں چھت پہ ڈیرہ جمائے بیٹھی رہی۔ دس بارہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک قطرہ صفحے پر آگرا۔ نگاہیں ادھر ادھر گھمائیں تو سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ بارش ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ توجہ دوبارہ مطالعے پر مرکوز کرنا چاہی لیکن صفحے کے جس حصے پر بارش کا قطرہ گرا تھا وہ توجہ کھینچ لیتا۔ ذہن میں ایک خیال آیا کہ شاید یہ قطرہ مجھے نماز پڑھنے کا کہہ رہا ہے۔
نماز اس بارش کے پہلے قطرے کے جیسی ہی تو ہے جو کمزور ایمان اور بنجر ہو چکے دل کو نرم کرتی ہے، جیسے بارش کے قطرے بنجر زمین کو زندہ کر دیتے ہیں، اسے حیات کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ جس طرح اس قطرے نے میری کتاب کے ورق پر اپنی چھاپ چھوڑی تھی ،اسی طرح نماز ہمارے دلوں پر اپنی چھاپ چھوڑتی ہے، اس دل میں اپنے رب کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے سامنے پیش ہونے کی چاہت بھی۔ اس خیال نے میرے وجود کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسی اثنا میں دو تین قطرے اور آں گرے۔ اب موٹے موٹے قطرے پوری چھت پر گرنا شروع ہو چکے تھے۔ میں نے آہستہ سے کتاب بند کی اور سائے میں آکر کھڑی ہو گئی۔ بارش اب تیزی اختیار کر چکی تھی۔ چند لمحے بارش کو برستا دیکھتی رہی۔ موبائل کی اسکرین روشن کی، وقت دیکھا تو مغرب میں آدھا گھنٹہ رہتا تھا۔ میرا رخ اب نیچے اترتی سیڑھیوں کی جانب تھا۔ مجھے اپنے دل پر بارش کا پہلا قطرہ گرانے کا موقع ملا تھا۔ میں کیسے اسے گنوا سکتی تھی۔