سعد محمود کراچی
اللہ تعالی نے انسان کو بنایا تو اس کی تمام ضروریات کا بھی لحاظ اور خیال رکھا، انسان کی پہلی ضرورت تنہائی دور کرنے کا سامان تھی۔ باقی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا تھا۔ اس تنہائی کی دوری دوسرے انسان ہی سے ہوسکتی تھی۔ لیکن وہ انسان بھائی بھی ہوسکتا تھا، جو ہر کام میں معاونت کرتا ساتھ دیتا، باپ بھی ہوسکتا تھا جو اس کی تربیت کرتا، بیٹا بھی ہوسکتا تھا جو دست و بازو بنتا، بہن بھی ہوسکتی تھی جو اس کا خیال رکھتی، ماں بھی ہوسکتی تھی اس کے لیے جتنا خیال ماں رکھ سکتی ہے دوسرا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، بیٹی بھی ہوسکتی تھی کہ باپ کی جتنی خدمت بیٹی کرسکتی ہے کوئی نہیں کرسکتا۔ یعنی دوسرے انسان کو کوئی بھی رشتہ دیا جاسکتا تھا۔
جب اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کسی واسطے کے بغیر پیدا کردیا تو ایک ایک کرکے سارے رشتے ایسے ہی پیدا کیے جاسکتے تھے، اللہ تو ہر چیز پر ہی قادر ہے۔ لیکن حضرت آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے کوئی اور رشتہ نہیں بنایا بلکہ بیوی بنائی اور باقی سارے انسان باقی سارے رشتے ان دو رشتوں کی مرہون منت قرار دیے۔ جی ہاں وہی بیوی جس سے آج کا انسان سب سے زیادہ بدکتا ہے اور وہی بیوی جو آْج سب سے زیادہ اس سے دور بھاگتی نظر آتی ہے اور بیوی ہی پیدا کرنی تھی تو جیسے آدم کو بنایا گیا تھا ویسےحوا کو بھی بنایا جاسکتا تھا اور جسم ہی سے پیدا کرنا تھا تو جسم کے کسی بھی حصے سے حوا پیدا کی جاسکتی تھی۔ سر کو دیکھیے تو سب سے بلند ہے، صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے۔ آنکھ دنیا جہاں کی ہر چیز کو روشن کرکے دکھاتا ہے، ایسے باقی اعضاء اور حصوں کی خوبیوں پر غور کیا جاسکتا ہے، لیکن حضرت حوا کو حضرت آدم کے پہلو سے پیدا کیا گیا۔
لطیف نکتوں پہ نظر رکھنے والے اہل علم کہتے ہیں، اللہ نے حوا کو آدم کے سر سے نہیں پیدا کیا کہ حوا کو اپنی بڑائی اور بلندی کا خیال نہ آئے۔ پاؤں سے پیدا نہیں کیا کہ حوا کی عزت نفس پہ ضرب نہ لگے، پہلو سے پیدا کیا تاکہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھی، غم گسار، خیال رکھنے والے سمجھیں، حوا کو پہلے پیدا کیا جاسکتا تھا، آدم کو ان کے پہلو سے پیدا کردیا جاتا لیکن آدم کی عظمت اس کے وقار کا سبق دینے کے لیے اسے فوقیت دینے کے لیے پہلے پیدا کیا گیا۔
اس سے بڑھ کر اور ہماری نالائقی کیا ہوگی کہ ہم نے میاں بیوی کے اس رشتے کو کئی رخ اور کئی اطراف سے داغ دار کر رکھا ہے۔ کہیں ماں باپ کی آڑ میں، کہیں بہن بھائیوں کا سہارا لے کر کہیں دوست احباب رکاوٹ بن جاتے ہیں اور کہیں کچھ منہ بولے رشتے اس مقدس رشتے کو گہن لگادیتے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر، ایک دوسرے کے پہلو میں سو کر بھی اپنا تصور، اپنی سوچ پاکیزہ محبت کے نام پہ جن لوگوں سے جوڑ رہے ہوتے ہیں، دراصل پاکیزہ محبت کا نام پانے والے وہی منہ بولے رشتے دیمک بن کر اس پہلے انسانی رشتے کو چاٹ جاتے ہیں۔ ہم اپنے ازلی دشمن شیطان کوموقع دیتے ہیں کہ وہ ہماری اس سوچ، اس حرکت پر ٹھمکے لگائے، پھر اس کے ان ٹھمکوں پہ ہماری مزید حرکات تالیاں بن کر شیطان کو داد دے رہی ہوتی ہیں۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور اس کی اصل دشمنی میاں بیوی کے رشتے سے ہی ہے، بجائے اس کے کہ میاں بیوی شیطان کی کوشش کو ناکام بنائیں قدم قدم پہ اور لپک لپک کر شیطان کی خوشی کا سامان کرتے ہیں۔