سچ ہی کہا کسی نے
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
لوگ نہ جانے کیوں بیویوں سے نالاں رہتے ہیں، میری زندگی میں تو بیوی نے رنگ ہی رنگ بھر دیے تھے جی چاہتا تھا دو تین اور ہوں ایسی ۔۔۔۔
ام محمد سلمان
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی میں بڑا خوش باش اور مطمئن سا اپنے سب گھر والوں کے بیچ بیٹھا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کررہا تھا کہ اتنے میں ایک میٹھی سی آواز کانوں میں پڑی۔ آواز کچھ جانی پہچانی سی لگی، میں نے مڑ کے دیکھا تو چلمن کے پیچھے سے شرمائی لجائی میری نئی نویلی دلہن میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں اور شاید کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ مجھے شرارت سوجھی اور سنی ان سنی کر کے پھر محفل کی طرف متوجہ ہو گیا کہ اتنے میں پھر وہی سریلی سی آواز آئی...
"ایمن کے بھیا ذرا بات سنیے " میں اٹھ کر آیا اور اسی انداز میں بولا جی "ایمن کی بھابی" فرمائیے ۔۔۔ وہ فوراً ہی شرما گئیں ۔
اور پھر اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا وہ جب مجھے مخاطب کرتی انداز یہی ہوتا "ایمن کے بھیا!! ذرا بات سنیے گا، ایمن کے بھیا ذرا ادھر دیکھیے گا۔ ایمن کے بھیا ذرا یہ سودا لادیجیے۔ ایمن کے بھیا ذرا الگنی باندھ دیجیے۔"
کبھی کبھی میں کہتا : "یار دلہن میں حفصہ اور جمیلہ کا بھی تو بھائی ہوں مگر تم نے مجھے بس ایک ہی بہن کے ساتھ مختص کر رکھا ہے۔ کبھی "حفصہ کے بھیا" کبھی "جمیلہ کے بھیا" بھی کہہ دیا کرو یار... وہ دونوں کوئی سوتیلی تو نہیں ہیں ناں...؟
"نہیں جی یہ بات نہیں! بس وہ دراصل ان کی تو شادیاں ہو گئی ہیں ناں اور ایمن ساتھ رہتی ہیں تو انہی کا نام زبان پر رہتا ہے" دلہن بیگم اپنے دوپٹے کے پلو سے کھیلتے ہوئے بولیں ۔
"اور جب ایمن کی شادی ہوجائے گی تو پھر آپ ہمیں کیا کہا کریں گی؟" میں نے بھی شرارت سے پوچھا ۔
اجی ہٹیے! آپ بھی ناں بس..... دلہن بیگم ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں غائب ہوگئیں ۔ اور پھر کچھ عرصے بعد کی بات ہے ہماری بھی ترقی ہوگئی اب مابدولت ایمن کے بھیا سے نور کے بابا بن چکے تھے۔ جی ہاں نور العین میری پیاری سی معصوم سی بیٹی، جسے دیکھتے ہی مجھے یوں لگتا واقعی میری آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی ہے۔ اور یہ نسبت مجھے بہت ہی پیاری لگتی جب میری دلہن بیگم مجھے "نور کے بابا" کہہ کر مخاطب کرتیں میں اپنی خوش نصیبی پر ناز کرتا تھا۔ زندگی کتنی خوب صورت ہو گئی تھی۔
سچ ہی کہا کسی نے
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
لوگ نہ جانے کیوں بیویوں سے نالاں رہتے ہیں، میری زندگی میں تو بیوی نے رنگ ہی رنگ بھر دیے تھے جی چاہتا تھا دو تین اور ہوں ایسی ۔۔۔۔
جب آفس سے گھر آتا تو بیگم بے تابی سے انتظار کرتے ہوئے ملتیں، ہمیشہ دیکھتے ہی مسکراتیں اور بڑی خوش دلی سے سلام کرتیں ۔
ویسے راز کی بات ہے آپ کو بتا دیتا ہوں میں صبح جب آفس جارہا ہوتا اور میری دلہن بیگم مجھے دروازے تک چھوڑنے آتی تو میں بھی جاتے جاتے ایک پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ الوداع کہہ کر جاتا کیونکہ میں چاہتا تھا وہ دن بھر میری محبت کے حصار میں رہے۔ مجھے پتا ہے وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائی، سکھیاں سہیلیاں اور اپنا عیش و آرام سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ اپنا گھر بسانے آئی ہے اب اسے بالکل ایک مختلف ماحول کا سامنا ہے ۔ اسے سارا دن گھر کے جھمیلوں میں گزارنا ہے۔ اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرنی ہیں اور سسرالی رشتے بھی نباہنے ہیں۔۔۔ ایسے میں کسی کی محبت اور اپنائیت کا خوشگوار احساس اس کے ساتھ رہے ۔ اور سچ کہوں اس عمل سے مجھے خود اتنی خوشی ہوتی تھی کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ میں اس کی من موہنی صورت آنکھوں میں بسائے کسی فاتح کی طرح گھر سے نکلتا تھا اور وہ ہر روز بڑی محبت سے زیرِ لب مجھے دعا دیا کرتی : میں آپ کو اللہ کے سپرد کرتی ہوں اللہ آپ کی حفاظت کرے۔
دفتر میں بھی اس کی کسی نہ کسی بات پر مجھے ہنسی آجاتی تھی اور میں واپس گھر جانے کے لیے بے چین ہو جاتا تھا ۔ مگر پھر اس کی نصیحتیں یاد آتیں "دیکھیے جی آپ اپنے پورے وقت میں ایمانداری سے کام کیجیے گا ایسا نہ ہو آپ کی حلال تنخواہ میں حرام کی آمیزش ہو جائے۔" اور صرف اتنا ہی نہیں وہ ایڑی چوٹی کا زور لگادیتی تھی کہ میں ہمیشہ حلال ہی کماؤں کیونکہ اس نے اپنی فرمائشیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت محدود کر لی تھیں ۔
°°°′°°°
شادی کے شروع دنوں میں اس کی بڑی تمنا ہوتی تھی میں اس کے لیے روزانہ موتیا کے گجرے لے کر آؤں ۔ اور میں ہفتے میں ایک دو مرتبہ تو ضرور ہی اس کی یہ خواہش پوری کردیا کرتا تھا ۔ رات جب سب کاموں سے فارغ ہو کر وہ کمرے میں آ کے میرے سامنے بیٹھتی تو مہکتے گجروں کے ساتھ ساتھ اس کے لہجے سے بھی خوشبو آتی اور میں احساسات کی ایک خوب صورت نگری میں پہنچ جاتا، واقعی نیک بیوی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ میں اسے دیکھتے ہی باہر کی سب پریشانیاں بھول جاتا تھا اور وہ بھی کبھی مجھ سے گھروالوں کے شکوے شکایتیں نہ کرتی ۔
ایک بار میں نے کہا : "دلہن بیگم ہمیں تو حسرت ہی رہی کہ کبھی آپ بھی ہم سے اپنے سسرال والوں کی شکایت کریں۔۔۔ یار دوست اتنے مزے مزے کے قصے سناتے ہیں بیگمات کی لڑائیوں کے، مگر مجھ غریب کے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا سنانے کے لیے... میں مسکین سی صورت بنا کر بولا۔
اور آگے سے اس کا جواب بڑا ہی ہوش ربا تھا کہنے لگی "جی باتیں تو کچھ نہ کچھ ہوتی ہی رہتی ہیں مگر مجھے یاد ہی نہیں رہتا آپ سے کچھ کہنا، ویسے بھی جب آپ کو دیکھتی ہوں تو سب کچھ بھول جاتی ہوں۔" بیگم صدقے واری ہونے والے انداز میں بولیں ۔ اور بیگم کے اس انداز پہ میں اچھا بھلا "فولادی مرد" بھی شرما گیا ۔
اور ابھی میں شرما ہی رہا تھا کہ وہ آگے کہنے لگیں" میں سوچتی ہوں نور کے بابا! اگر مجھے گھر والوں کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو نہ جانے میری بھی کتنی باتیں انھیں بری لگتی ہوں گی مگر وہ بھی تو برداشت کرتے ہوں گے ناں؟ اس لیے میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، درگزر کردیتی ہوں ۔ تھوڑی دیر کی خاموشی بڑے بڑے جھگڑوں کے آگے بند باندھ دیتی ہے مثل مشہور ہے "ایک چپ سو سکھ" ۔
بیگم تو بات ختم کر کے اپنی زلفوں کے پیچ و خم سیدھے کرنے میں مصروف ہو گئیں اور میں ان کی بات کی گہرائی میں غوطے ہی کھاتا رہ گیا ۔
اب ایسی بھی بات نہیں کہ میری دلہن بیگم "شہد اور مکھن" کا مُرقّع ہیں کہ کچھ کہتی ہی نہیں۔ کبھی کبھی محترمہ کا غصہ سوا نیزے کو چھوتا ہے اور مجھے چپ کر کے سہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ بھی تو انسان ہے کبھی تو جھنجھلا ہی جاتی ہے اگر اس وقت میں ذرا چپ کر کے اس کی چار باتیں سن لوں گا تو کون سا میری مردانگی میں کمی آجائے گی؟
وہ بھی تو میری کھٹی میٹھی اور کڑوی کسیلی سب برداشت کرتی ہے، کبھی چپکے چپکے باورچی خانے میں آنسو بھی بہا لیتی ہے اور اس کی سرخ ہوتی ناک اس کے سب آنسوؤں کی چغلی کھاتی ہے اور تب میں اپنے آپ میں شرمندہ ہو کے رہ جاتا ہوں اور اگلے دن پھر اس کے لیے موتیا اور گلاب کے گجرے لے آتا ہوں اور وہ پھر ویسی ہی ہنستی مسکراتی میرے سامنے آجاتی ہے اور میں اس کی اعلیٰ ظرفی پر قربان ہو ہو جاتا ہوں ۔ مہندی اور چوڑیوں کا بہت شوق ہے میری دلہن بیگم کو، جب مہندی لگاتی ہے تو چھوٹے بچوں کی طرح بڑے شوق سے مجھے اپنے ہاتھ دکھاتی ہے "اجی دیکھیے ناں!! میں نے کتنی اچھی مہندی لگائی ہے" اور میں بھی اتنی ہی محبت اور عقیدت سے ان ہاتھوں کو چوم لیتا ہوں جو صرف میرے لیے سجتے سنورتے ہیں، میرے گھر بار اور ماں باپ کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کی چوڑیوں کی کھنک، اس کے آنچل کی مہک مجھے زندگی کی رنگینیوں کا احساس دلاتی ہے اور میرے والدین جب جھولیاں بھر بھر اسے دعائیں دیتے ہیں تو میرا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے اور بے اختیار سجدہ شکر کرنے کو جی چاہتا ہے ۔
اور میں بتاؤں اسے سب سے زیادہ چڑ کس بات سے ہوتی ہے؟ جب میں کہتا ہوں "تم آخر کرتی کیا ہو سارا دن؟" اور جواب میں بڑا کرارا سا جملہ آتا ہے "ٹھیک ہے جناب ! آج جب دفتر سے واپس آئیں گے تو سارا گھر یونہی اوندھا پڑا ملے گا جیسا چھوڑ کر جارہے ہیں۔ حد ہوتی ہے یعنی کہ... پورے گھر کی ذمہ داری بیگم کے ناتواں کاندھوں پر ڈال کے بھی آپ کو چین نہیں؟؟؟ اب دیکھیے گا میں بھی کچھ نہیں کروں گی اور سالن میں تو خوب مرچیں ڈالوں گی۔ اسے پتا ہے تیز مرچیں میری کمزوری ہیں لہٰذا اسے جب میری کوئی بات بری لگتی ہے اس کی یہی دھمکی ہوتی ہے اور میں سارے کام چھوڑ چھاڑ ہاتھ باندھ کے اس کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہوں،،، دیکھو میری نصف بہتر! پلیز تم ایسا کچھ مت کرنا ۔ مجھے پتا ہے سارا گھر تمہارے ہی نازک کاندھوں پر چل رہا ہے ۔ اور وہ مسکرانے لگتی ہے اور اس سمے میں پکا عہد لے لیتا ہوں ہانڈی میں مرچیں تیز نہ کرنا ۔ اور ویسے بھی مجھے پتا ہوتا ہے کھانا اس نے میری پسند کے مطابق ہی بنانا ہے ۔
اور وہ وقت تو بڑا ہی مزیدار ہوتا ہے جب کبھی وہ مجھ سے روٹھ جاتی ہے، بس کام کی بات کرتی ہے، میری طرف دیکھ کر مسکراتی بھی نہیں ۔ جو کام کہتا ہوں فوراً کر دیتی ہے، بار بار چائے کی فرمائش پر مجھ سے جھگڑا کرنے بھی نہیں آتی بلکہ چپ چاپ چائے کا کپ میرے پاس رکھ کے چلی جاتی ہے ۔ میرے سارے کام پہلے سے بھی زیادہ ذمہ داری سے کرتی ہے ۔ ہاں مگر وہ خود بجھ سی جاتی ہے، آنکھیں بے رونق ہوجاتی ہیں، چہرے پر مردنی سی چھا جاتی ہے، آواز کی شوخی کہیں دم توڑ دیتی ہے اور اس خاموش احتجاج کا مجھ پر کتنا اثر ہوتا ہے یہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے.....
بس پھر میں اسے منانے کی کرتا ہوں، کان پکڑ کے معافی مانگتا ہوں ۔ یار بیگم پلیز تم مجھ سے جھگڑا کر لیا کرو مجھے خوب سخت سست سنا لیا کرو لیکن یوں مجھے چپ کی مار نہ مارا کرو...... اور میرے ذرا سے میٹھے بولوں پر پھر جو بیگم کا رونا شروع ہوتا ہے.... تب وہ آگے آگے اور میں اسے مناتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے...
"نہیں جی! آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں، ذرا ذرا سی بات پہ میرا دل دکھاتے ہیں اب میں آپ کو بالکل معاف نہیں کروں گی "
لیکن میں ہر بار اسے منا لیتا ہوں اور ہر بار پکی توبہ کرتا ہوں لیکن کیا بتاؤں کہ پھر کچھ گڑبڑ کر دیتا ہوں، زندگی شاید اسی اونچ نیچ کا نام ہے ۔ لیکن جب کوئی غلطی اس کی طرف سے ہوتی ہے تو وہ بہت طریقے سلیقے سے معذرت کر لیتی ہے ۔
چھٹی کے دن میں اس کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی مدد کرتا ہوں، کبھی باورچی خانے میں کھڑے ہو کر برتن دھوتا ہوں اور کبھی اس کے ساتھ واشنگ مشین میں کپڑے بھی دھلواتا ہوں اور کبھی کبھار تو میں اسے اپنے ہاتھ کی مزیدار چائے بھی پلاتا ہوں ۔ اور اس کے ساتھ بیٹھ کر لہسن بھی چھلواتا ہوں اور مٹر کے دانے بھی ۔ جی جی میں بہت سگھڑ قسم کا شوہر ہوں بھئی ۔۔۔۔
جب کبھی میں بہت موڈ میں ہوتا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں "بتاؤ بیگم تمہیں کیا چاہیے؟" تو اس کا ایک ہی سُوال ہوتا ہے "آپ مجھ سے راضی ہوجائیں، میری کوئی بات بری لگی ہو تو پلیز مجھے معاف کردیں۔ آپ کا حق ادا کرنے میں جو کچھ کوتاہی مجھ سے ہوجاتی ہے اسے درگزر کر دیجیے" اور میں محبت اور تشکر کے جذبات کے ساتھ اسے دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں اور قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر مجھے سمجھ آنے لگتی ہے وعاشروھن بالمعروف (سورہ نساء) اور ان عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو ۔
واقعی سچ کہا میرے رب نے۔ جب آپ ان عورتوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں تو یہ آپ سے دس گنا اچھی بن کے پیش ہوتی ہیں ۔ یہ بہت نرم دل اور حق بات کوبہت جلد قبول کرنے والی ہوتی ہیں ۔ یہ جیسے اپنے شوہروں کی محبت میں حساس ہوتی ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ اپنے رب کی محبت میں سچی اور مخلص ہوتی ہیں ۔ یہ نازک آبگینے ہیں، یہ کانچ کی شیشیاں ہیں، ان کے احساسات بہت نازک ہوتے ہیں ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی حفاظت کریں بے شک اللہ نے مردوں کو "الرجال قوامون" کہا ہے، بے شک مرد عورتوں پر حاکم ہیں، محافظ ہیں، نگہبان ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قوم کا حاکم قوم کا خادم ہوتا ہے اس لیے مرد جب گھر کا سربراہ ہوتا ہے تو اس کی بہت ساری ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ صرف حکمرانی نہیں کرتا بلکہ وہ بہت احسن طریقے سے اپنی گھریلو ریاست کا انتظام کرتا ہے۔
ایک اچھا شوہر عورت کو محکوم سمجھ کر اس پر حکومت نہیں کرتا، اس پر ظلم نہیں ڈھاتا،اسے طعنے نہیں دیتا، اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو برا بھلا نہیں کہتا بلکہ اسے تحفظ دیتا ہے، اعتماد اور بھروسہ دیتا ہے ۔ اسے محبت اور عزت کی چادر اڑھاتا ہے اس کے دین اور دنیا کی فکر کرتا ہے۔ اس کی تمام جائز ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اس کے ساتھ بخل نہیں کرتا ۔ اسے کھلے دل کے ساتھ گھر میں جینے کی آزادی دیتا ہے اور بدلے میں عورت سے صرف حیا اور وفاداری چاہتا ہے اپنے بچوں کی بہترین پرورش چاہتا ہے ۔ گھر کو سلیقے سے چلانے والی ایک منتظمہ اور شوہر کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جانے والی محبوبہ چاہتا ہے ۔
_
اچھا جی اب ہم تو چلے، بیگم کی آوازیں آرہی ہیں "نور کے بابا!! ہمیں رکشہ لادیجیے" ۔
دراصل آج ویک اینڈ ہے اور بیگم نے پورے اٹھائیس گھنٹوں کے لیے میکے جانا ہے اب وہ کل رات دس بجے تک تشریف لائیں گی ۔ اور خادمِ اعلٰی بیوی بچوں کے لیے سواری کا بندوبست کرنے جارہے ہیں۔ واپسی میں اپنے لیے ہوٹل سے دو گرما گرم روٹیاں بھی لے کر آنی ہیں اور پھر مزے سے بیٹھ کر اچار گوشت کے ساتھ تناول کرنی ہیں جو ہماری بیگم نے آج دوپہر کو ہی بنا کر رکھا ہے ۔ ناشتے کے لیے انڈے ڈبل روٹی، دودھ اور فریج میں گندھا ہوا آٹا بھی رکھا ہے تاکہ اگر مابدولت کا جی چاہے تو خود پراٹھا بنا کر کھا سکیں ۔
ارے ارے حیران ہونے کی کیا بات ہے "محترمہ" نے ہمیں پراٹھا بنانا بھی سکھا دیا ہے اور آملیٹ بھی، تاکہ وہ بے فکری کے ساتھ ہر مہینے ویک اینڈ پر میکے جا سکیں ۔ اچھا جی اب ہم تو چلے ۔۔۔۔ !!