زرق برق لباس میں ملبوس زارا اور
ٹوکری میں رکھے سرخ رسیلے سیبوں نے اس کی اشتہا میں اضافہ کر دیا تھا
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد
وہ اپنے مرمریں بازوؤں کے گھیرے میں سر جھکائے سکڑی سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ جب دروازے پر آہٹ سی ہوئی۔
سکندر نے اندر داخل ہو کر کمرے کی چٹخنی چڑھا دی۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ وہ اس کے سامنے نیم دراز ہوگیا۔ ” تم میری پسند نہیں ہو۔“ الفاظ تھے یا زہر بجھے تیر، جو شرماتی لجاتی دلہن کی روح کے آر پار اتر گئے۔ مہکتی کلی کو بری طرح روندنے کے بعد سکندر بےخبر سو گیا۔ کمرے میں اس کے خراٹے گونج رہے تھے۔ وہ یادگار رات زارا نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔
٭٭٭٭
"صبح بخیر بھائی!" ثمرہ نے حجلۂ عروسی کا پردہ ہٹایا۔ بیڈ پر بیٹھی زارا کا عکس آئینے میں دیکھائی دے رہا تھا۔
"بھابھو! آپ ابھی تک ایسی ہی بیٹھی ہوئی ہیں، آپ کے گھر والے آپ سے ملنے کے لیے آتے ہی ہوں گے۔ آئیے میں آپ کو تیار کر دوں۔"
ثمرہ نے نازک اور شرمیلی سی زارا کا پکڑ کر اسے کھڑا کیا اور آئینے کے سامنے لا بیٹھایا۔
"توبہ ہے! یہ سیب تو جھوٹا ہے۔ ہی ہی ہی اور میں اسے صحیح سالم سمجھ رہی تھی۔" ثمرہ نے کھلکھلاتے ہوئے کہا۔ سکندر چونک گیا وہ آئینے کی طرف دیکھتے ہوئے مسخرے پن سے بولا:
" جھوٹی چیزوں کی جگہ میز پر نہیں وہاں ہوتی ہے۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے ٹوکری میں رکھے ادھے کھائے سیب کو لاپروائی سے ڈسٹ بن میں اچھال دیا۔
نٹ کھٹ سی نند کی توجہ بھٹکتے ہی زارا نے اپنی آنکھوں پر ٹکے موتیوں کو کمال ہوشیاری سے انگلی کی پور پر اتار لیا۔ اپنے درد کو چھپا کر اسے امی بابا اور نو کنواری بہنوں کے لیے مسکرانا جو تھا۔ ان چاہی بیوی کے نصیب میں رشتے نبھانے کے لیے نجانے کب تک جلتے انگاروں پر لوٹتے رہنا لکھا تھا۔ کڑوا گھونٹ پی کر مسکرانا تقدیر کا فیصلہ تھا۔ حکم ربی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے گہرا سانس لے کر صابر و شاکر زارا نے وفا شعار بیوی بننے کی ٹھان لی، امید پہ دنیا قائم ہے کبھی نہ کبھی میں اپنے کٹھور دل شریک حیات کے دل میں جگہ بنا ہی لوں گی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے ہولے سے ان شاءاللہ کہتے ہوئے مسکرائی تھی۔ سکندر کے اکھڑے رویے کو دیکھ کر اس کا ننھا سا دل بری طرح سکڑا ”نہیں“ ایک سسکی کی بن کر اس کے لبوں پہ تھرتھراتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔
لبوں کو سی کر برداشت کی انتہا کو پہنچ جانا زارا کو گھٹی میں ملا تھا۔
ختم شد