سادگی جس دن سے مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ہوئی ہے اسی روز سے لڑکیاں رخصت ہونے سے رہ گئی ہیں ۔۔

برادری ہو یا سازوسامان کا نظام لوگ کیا کہیں گے، کیا سوچیں گے ان باتوں نے احساسات کو صحیح وقت پر سانس لینے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا  نسل بے راہ روی کی نذر ہوگئی

ند ا اخترمیر پور خاص

سورج کی روشنی میں اس کا چہرہ پیلا نظر آرہا تھا، جیسے دینار کا کوئی سکہ  ہو  یا چاندی کی گردن پر سونے کی کوئی شاہ کار تصویر ہو ۔ مورتی کی طرح کھڑی وہ پرندوں کے جھڑمٹ کو دیکھ رہی تھی ۔  وہ بہت سارے ہوکر بھی دو دو الگ الگ ٹہنیوں پر بیٹھے تھے ۔ بہت خوشنما سا نظر اور یادوں کا اک جھونکا سا آیا جو اس کے وجود کو کسی کی ہمنشینی سے معطر کر گیا ٭٭٭٭

وہ سفید  تازہ گلاب جو ہر صبح اسکے سرہانے رکھے ہوتے ۔ وہ کافی کا گرم کپ جس میں انسیت کی مہک ہوتی ۔ ۔۔۔

ایک محبت کی ادا جو ہر صبح اپنایت کا احساس دلاتی ۔۔ ۔ 

وہ باہر ہوکر بھی اتنا خیال رکھ سکتے ہیں کبھی کبھی وہ بہت حیران ہوتی ۔

نہ دیکھا تھا کبھی اس نے اپنے ہمسفر کو ۔۔۔۔ یہ بچپن میں ہوا نکاح اسے کبھی اپنایت کبھی اجنبیت کا احساس دلاتا مگر مدت تھی کہ طول پکڑتی گئی ۔۔۔

جذبات ٹھنڈے ہوتے گئے شام سرد پڑ گئی ۔۔ ۔۔۔۔۔ رنگ پھیکے ہوگئے، یادیں ہی یادیں رہ گیئں ہاں مگر وہ پھول اب تازہ تھے  جو اس کے سرہانے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔

کبھی خاموش پیغام آتا تو کبھی کچھ کہنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ۔۔۔ مگر اس کا یہ کہنا تھا کہ بات ملاقات پر ہی ہوگی ٭٭٭

رابطے کمزور ہوگئے اور عمر نے کسی سفید چادر کو اوڑھ لیا ۔۔۔

عکس الفت کا دھندلا گیا، تصویر سونے کی ماند پڑ گئی وہ مجسم مورتی انتظار کی شام لپیٹے کہیں ویرانیوں کی نظر ہوگئ ۔۔۔

والدین کا نکاح کی ڈور میں باندھ کر رخصتی کی دہلیز پر کھڑا رکھنا یہ نازک جذبات کے ساتھ نا انصافی نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟؟؟

سادگی جس دن سے مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ہوئی ہے اسی روز سے لڑکیاں رخصت ہونے سے رہ گئی ہیں ۔۔

برادری ہو یا سازوسامان کا نظام لوگ کیا کہیں گے کیا سوچیں گے ان باتوں نے احساسات کو صحیح وقت پر سانس لینے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا  نسل بے راہ روی کی نذر ہوگئی ۔ ۔۔۔۔ حیادار لڑکیاں خاموش مجسمہ بن گئیں اور والدین نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مجرم بن گئے ۔

سفید گلاب اب خشک ہو چکے تھے اور انکی مہک میں اب تازگی نہ تھی