دیکھا جائے تو ”زوجین کی شبِ ملاقات“ایک نئی زندگی،نئی سوچ،نئی ذمے داری ،نئے تعلق،نئی نسل،کی آبیاری کی رات ہے ،جسے خوبصورت ، یادگار بنانے کا طریقہ ، مادی اشیاء پر اسراف  نہیں، بلکہ سنت کےخوبصورت طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے ، اس شب کے متعلق، زوجین  کے دلوں میں جو مسرت خیز اور خوش آئند تصور ہوتا ہے ،اصل یہی ہے کہ اس تصور پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے ، اور اس کے لیے نبوی تعلیمات سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا !!

جی ہاں!سنن و احادیث کا وہ خزانہ، جو ہر موقع پر راہنمائی کے لیے موجود رہتا ہے ،کیسے ممکن ہے کہ اس نازک موقع کی  خیر و برکت کو کشید کرنے کے طریقے سے  امت کو محروم رکھے ؟؟

لیکن افسوس یہ ہے کہ آج شادی بیاہ،میں آرائش سے زیبائش تک،بے دریغ پیسہ بہایا جاتا ہے ،لیکن مسنون دعائیں ،مسنون اعمال ، نبوی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ  ہوتےہیں یہی وجہ ہے کہ ازدواجی رشتے میں برکت کا حصول خال ہی نظر آتا ہے ۔ کیونکہ برکت اللہ کے نام و ذکراور یاد  میں پنہاں ہے :

کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ ببِسْمِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَھُو اَبْتَرُ(صحیح ابن حبان)

جو کام اللہ کے نام سے شروع نہ  کیا جائےوہ بے برکت ہوتاہے ۔

سب سے پہلے تو اس حسین بندھن کو کلامِ باری تعالیٰ،ایک جملے میں سمیٹ دیتا ہے،

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنَّ(البقرۃ:187)

’’وہ تمہارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔‘‘

یہ معجزانہ کلام کی انتہائی  بلیغ تشبیہ ہے ،جو میاں بیوی کو اپنا تعلق انڈرسٹینڈ کرنے کی دعوت دیتی ہے ، یہ بات  اب ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہوچکے ہیں ،جس طرح ہمارا لباس ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح ہر شریک حیات ،اپنے ساتھی کا آئینہ دار ہوچکا ہے۔

”لباس“ اپنے اندر مفہوم کا ایک جہاں رکھتا ہے اور اس  مفہوم کی وسعت میں  رشتۂ زوجین کے علاوہ کوئی اور تعلق نہیں سما سکتا، ازدواجی تعلق ،زوجین کو ایسا لباس عطا کرتا ہے جس کے بعد وہ تمام مقاصد جو اس تعلق سے پہلے حسی اور مادی لبادے سے پورے ہورہے تھے ،اب وہ ایک دوسرے کی ذات  سے وابستہ ہوچکے ہیں ،

*آج سے آپ کےعیوب پر ستر ڈھانپنے میں اہم کردار آپ کے شریک حیات کا ہوگا،گویا بیوی کا عیب شوہر کا عیب شمار ہوگا،

*اپنی زینت اور محاسن کا اظہار ،ایک دوسرے کی ذات  کے ذریعے ہوگا۔اپنی ذات میں” تشنہ“ اور باہم مل کر” کامل“ بنیں گے۔

*عزت و تحفظ ،صرف لبادوں میں نہیں ،ایک دوسرے کے ساتھ میں ہوگا۔معاشرے میں تنہا وجود کی اب عزت نہیں رہی بلکہ جوڑا عزت و تحفظ پائے گا۔

  جتنا غور کرتے جائیں  ازدواجی لباس کی  افادیت میں وسعت بڑھتی جائے گی ۔ زوجین کے ہر موقع کو جب اس آیت کے اوپر تول کر دیکھا جائے گا تو آیت اپنا وسیع مفہوم  خودآشکار کرے گی ۔

زوجین سلامتی کے زیادہ حقدار :

آپ کے نصف بہتر ،آپ کی جانب سے سلامتی پانے کے ،زیادہ حقدار ہیں ،لہذا اپنی پہلی ملاقات کی ابتداء زوجین کو ”سلام“کا پھول پیش کرکے کرنی چاہیے، اپنے شریک حیات پر سلامتی بھیجنا اس بات کا اظہار ہے کہ میرے شر و برائی سے محفوظ و سلامت  ہو۔

کلام باری تعالیٰ واضحاً اس عمل کی تاکید کرتا ہے :

فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُبٰرَكَۃً طَيِّبَۃً (النور:61)

’’ جب گھروں میں داخل ہواکرو تواپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، یہ دعائے خیر ہے اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ ‘‘

ملاقات کی ابتداء سلام سے کرنا ،محبتوں میں اضافے ،خیر کو پانے   اور برکتوں کے لانے کا موجب بنتا ہے ، مخاطب کی وحشت ، انسیت وسکون میں بدلتی ہے ، اور اس رات یہی تو اہم ہے کہ شوہر ،بیوی کو اپنی جانب سے مطمئن اور پرسکون کرے ۔پھر فرمان ِ نبیﷺ کے مطابق محبتوں کے آغاز کی بھی یہی ایک مستند کڑی  ہے :

لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ

 (رواہ مسلم)

’’تم لوگ جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم مومن نہ ہوجاؤ اور تم لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر تم عمل کروتو آپس میں محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلام کو عام کرو“

اہتمام ِزینت:

پہلی ملاقات کو پرمسرت بنانے کا ایک طریقہ ،یہ بھی ہے کہ ہر ممکن زینت  اختیار کی جائے ، وہ زینت پھر خواہ،اسراف و تبذیر نیز تکلف سے بچتے ہوئے کمرے کی پھولوں اور دیگر خوشبودار چیزوں سے  سجاوٹ میں ہو، لباس میں ہویاشرعی حدود میں رہتے ہوئے سنگھار کرنے میں ہو ،

حضرت اسماء بنت یزید ؓ فرماتی ہیں :کہ ”رسولﷺ کے لیے میں نے حضرت عائشہ ؓ کا بناؤ سنگھار کیا پھر انہیں خدمت میں لے کر حاضر ہوئی ،آپ کو انہیں دیکھنے کی دعوت دی“

نیز مرد کو بھی ممکن حد تک خوشبو اور صفائی کا اہتمام کرنا چاہیے ،

آپ ﷺ گھر تشریف لانے کے بعد سب سے پہلا عمل  مسواک فرمانے کا کرتے تھے “(مسلم )

شاید اس لیے کہ خوشبؤ دہن ،زوجین کے لیے راحت کا باعث ہے ،

پھر  آنکھ، بھی  دل کی قاصد ہے ،جب آنکھ کو کوئی منظر بھلا معلوم ہوگا تو وہ براہ راست اس کو دل تک پہنچائے گی،جس سے دل میں محبت کا خوبصورت احساس گدگدائے گا ۔

سجدۂ شکر:

اس حسین بندھن میں جڑ کر اب اجتماعی طور پر اللہ کے حضور سر بسجود ہونے کی بھی اپنی ہی خیر و برکات ہیں،

چنانچہ زوجین،سلف صالحین سے منقول عمل کو اختیار کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھیں :

یہ عمل،حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے تعلیماً  منقول ہے : ابو حريز نامى ايك شخص ،عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہماسے  عرض كرنے لگا: ميں نے ايك نوجوان كنوارى لڑكى سے شادى كى ہے، اور مجھے خطرہ ہے كہ كہيں وہ مجھے ناپسند نہ كرنے لگے تو عبد اللہؓ نے كہا:” الفت و محبت تو اللہ كى جانب سے ہے، اور ناپسنديدگى شيطان كى جانب سے، وہ يہ چاہتا ہے كہ اللہ نے جو تمہارے ليے حلال كيا ہے اسے تمہارے ليے ناپسند بنا دے، لہذا جب تم اپنى بيوى كے پاس جاؤ تو اسے كہو كے وہ تمہارے پيچھے دو ركعت نماز ادا كرے ".

(المصنف لابن ابی شیبة:7/50)

دوگانہ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے : شوہر آگے بڑھ کر امامت کرے جبکہ دلہن، دلہے کے پیچھے نماز ادا کرے. اس سے دلہا دلہن کے دل میں اگر کوئ نفرت ، کراہیت یا ناپسندیدگی ہو گی تو ان شاء اللہ دور ہوجائے گی“نماز کے بعد دونوں خیرو برکت، مودت و محبت آپسی میل جول اور اتفاق و اتحاد کی دعا کریں۔

اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ اَہْلِیْ وَبَارِکْ لَہُمْ فِیَّ، اَللّٰہُمَّ اجْمَعْ بَیْنَنَا مَا جَمَعْتَ بِخَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ بِخَیْرٍ ․ (غنیة الطالبین: 98، آداب النکاح)

”یا اللہ ! میرے اہل وعیال میں برکت عطا فرما اور ان کے لئے میرے اندر برکت فرما ، جب تک ہمیں یکجا رکھ تو خیر اور بھلائی کے ساتھ اکٹھا رکھ ، جب ہمیں علیحدہ کرنا تو خیر اور بھلائی سے علیحدہ فرما“

پھر خوشی اور انبساط کے موقع پر سجدہ شکر  کا ثبوت نبیﷺ سے بھی ملتا ہے :

أنَّ النبيَّﷺ كان إذا أتاه أمرٌ يسُرُّه ، أو يسرُّ به يخرُّ ساجدًا شُكرًا للهِ تعالى ‘‘(سنن ابن ماجه:1/ 446)

” نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی ایسا معاملہ آتا جس سے آپ خوش ہوتے، یا وہ خوش کن معاملہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑتے“

تسخیرِ زوجہ:

ہر چیز  خیر و شر کا مجموعہ ہے ،ہم کسی چیز کی خیر اسی وقت ہی پاسکتے ہیں جب اللہ نے اس خیر سے فیض حاصل کرنا ہمارے لیے مقدر کیا ہو ، چنانچہ شب زفاف کے متعلق ،خوبصورت احادیث  اس بات کی اہمیت بتاتی ہیں کہ اپنے شریک حیات کی خیر کو پانے کی جستجو کی جائے ، شر سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ،وگرنہ اس کے بغیر زندگی کی خوبصورتی ملنا محال ہے ،

چنانچہ نماز دوگانہ کے بعد  بیوی کی پیشانی کے بال پکڑکر یہ دعا پڑھنا مسنون ہے :

اللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ(بخاری)

ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے اس  کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی جس پر تو نے اس کو پیدا کیا( یعنی اچھے اخلاق،اچھی فطرت) اور میں اس کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا( یعنی برے اخلاق و افعال،فطرت) تیری پناہ چاہتا ہوں “

بھلا بتائیے! جب شادی کی پہلی رات ہی اس دعا کے ذریعے خیر کا حصول اور شر سے بچنے کی محنت کی جائے گی، تو کیا عجب ہے ساری زندگی کی بھلائیں حاصل ہوجائیں !!

تحفہ بنائے انمول:

خوبصورت شب کی گھڑیوں کو مزید انمول بنانے کے لیے تحفے کا اہتمام بھی کرنا چاہیے ،خواہ پھر وہ مہر معجل ہو(بلکہ مہر دینا ہی احسن ہے)یا  اگرحق مہر مؤجل(تاخیری )ہو تب بھی کچھ نہ کچھ ہدیہ دینا مسنون عمل ہے ،

لَمَّا تَزَوَّجَ عَلِيٌّ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَعْطِهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ

جب علی ؓ نے فاطمہ ؓ سے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا:” اسے کچھ دے دو“ ، انہوں نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا:” تمہاری حطمی زرہ ١ ؎ کہاں ہے؟“

یہ حدیث مبارک واضحاً بتاتی ہے کہ تحفے(مہر یا غیر مہر) کا اہتمام اس شب میں مسنون ہے ۔

بات چیت ،ملاعبت،ہنسی مذاق

شب ملاقات ،بنیادی طور پر ایک دوسرے سے انسیت،محبت،ملاطفت پیدا کرنی کی شب ہے ، آپس میں نرم گفتگو،خوش آئند مستقبل کی باتیں ، اجنبی زوجین کے درمیان تکلف اور ججھک کی دیوار گرانے میں معاون بنتی ہیں ، ازدواجی تعلق کی ابتداء اسی

رات سے کرنا ضروری نہیں جیسا کہ عوام میں مشہور ہے ،تاہم اگر کیا جائے تو اس ازدواجی عمل کے دوران اس دعا کا پڑھنا بھی مسنون ہے :

بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ  وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَارَزَقْتَنَا۔(بخاری)

’’اللہ کے نام سے ، اے اللہ ! ہم دونوں کو شیطان سے محفوظ فرما اور جو اولاد ہمیں دے اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔ ‘‘( بخاری )۔

حدیث مبارک کے مطابق،اگر  اس دعا کے بعد اولاد پیدا ہوئی تو شیطان کے شر و ضرر سے محفوظ ہوگی ۔

 

بہر حال ،پہلی شب کے متعلق مسنون دعائیں اور اعمال یہ خاص تاکید کرتے ہیں کہ حلال مواقع پر بھی مقصود صرف لطف و لذت کا حصول نہ ہو بلکہ  ہر مسلم شوہر و بیوی کو مباشرت کے ذریعے زمین کو آباد کرنے، مسلم نسل کو بڑھانے، غلط کاموں سے اپنے آپ کو بچانے اور ایسی نیک اولاد کی طلب میں اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے جو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، اور مرنے کے بعد  ان کے حق میں دعا کرکے فائدہ پہنچائے، تاکہ لطف ولذت کے ساتھ ساتھ یہ عمل اجر وثواب کا باعث بھی بنے۔

رازوں کے امین:

فرمانِ نبیﷺ سے زوجین کو سب سے اہم ٹریننگ شبِ ملاقات میں یہ  ملی کہ آج سے آپ ایک دوسرے کے رازوں کے امین ہو، آپ کے پرسنلز پبلک نہیں ہونے چاہئیں،ازدواجی رازوں  کا افشاکرنے والا شخص ،اللہ کے نزدیک سخت مبغوض ہے :

إنَّ مِن أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْزِلَةً يَومَ القِيَامَةِ، الرَّجُلَ يُفْضِي إلى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا۔(صحیح مسلم)

”سب سے زیادہ برا، لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کا بھید ظاہر کر دے“

یہ انتہائی بے شرمی کی بات ہے کہ دلہا دلہن ،رات کی تمام باتیں ،صبح میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں بیان کرتے پھریں ،پھر صرف یہی نہیں ،بلکہ زندگی کے ہر مواقع میں ایک دوسرے کے رازوں کا اخفا ،فریقین پر لازم ہے ۔

 

خلاصہ یہ کہ  شب ملاقات مجموعہ ہے ،سلامتی بھیجنے کا،اعتماد میں لینے کا،تحفے کے لین دین سے محبتیں بڑھانے کا،اللہ کے حضور نئی

زندگی کی خوشیاں کے حصول سر بسجود ہونے کا،زوجہ کو خود سے مانوس کرنے کا،رازوں کے امین بننے کا،ایمان محفوظ کرنے کا اور نئی  صالح نسل کی  آبیاری کا۔لہذا سنن نبوی ﷺ کے دامن میں پناہ پکڑ کر خیر و برکت بھری اس خوبصورت رات کے ساتھ پرکشش زندگی کا آغاز کیجیے۔