موٹر بائیک کو اگر ایک رومان پرور سواری کہا جائے تو بالکل بجا ہوگا ایسی سواری کہ سارے تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دوسری سواری کو بائیک چلانے والے کے مضبوط کندھوں یاموٹی توند کا سہارا لیناہی پڑتا ہے اور اگر بائیک چلانے والا کوئی ہینڈسم اور اسمارٹ انسان ہو اور اس کے پیچھے کوئی دوشیزہ یا مشکیزہ کوئی بھی بیٹھے تو تھوڑی سی تکنیک سے اس خاتون نامحرم کو محرم بنتے دیر نہیں لگتی اور بالفرض اگر کوئی جوڑا موٹر بائیک پر گھومنے کا عادی ہو تو مشاہدہ کیجیے گا کہ ان کے 6 سال میں کم سے کم چار بچے ضرور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
ارم رحمٰن لاہور
چاند ،چاندنی اور چاند گاڑی نام ہی رومان پرور اور ہیجان انگیز ہے لیکن پاکستان میں یہ سب بآسانی دستیاب ہے اور چاند گاڑی کو شاید پاک چین دوستی کی حساب سے چنگ چی کہا جاتا ہے
پاکستان میں سب سے زیادہ چلنے اور ملنے والی سواری، موٹر بائیک ہے، یہ ایسی غیر متوقع سواری ہے کہ کسی لمحے کچھ بھی ہوسکتاہے بظاہر دیکھنے میں دو بندوں کے بیٹھنے کے لیے نظر آتی ہے مگر اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو دو میاں بیوی اور چار بچے تو فٹ آ ہی جاتے ہیں پیٹرول کی ٹینکی بھی ایک سوار کو بٹھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اگر پیچھے کیریر لگوا لیاجائے تو وہ بھی گراں قدر خدمات انجام دیتا ہے سبزی ترکاری ،پھل یا مختلف سامان رکھنے کے علاوہ ہلکا پھلکا بچہ بھی آرام سے بیٹھ جاتاہے ، دو سیٹوں پر مشتمل یہ ہوادار، مزے دار سواری چھ بندوں کو آرام سے ڈھونے کے کام آتی ہے اور کافی عرصے سے تو عقلمند لوگوں نے پیچھے ایسا ڈھانچا جوڑ دیا کہ بائیک سے چاند گاڑی بن گئ یعنی زمین پر رہ کر چاند کی سیر کی جاسکتی ہے اسے عرف عام میں چنگ چی کہا جاتاہے جس میں کم از کم چھ ہٹی کٹی سواریوں کے ساتھ ان کے چھ کم سن بچے بھی سوار ہوسکتے ہیں۔ لہراتا ہوا چنگ چی ہوا کی دوش پر عجیب سماں باندھ دیتا ہے سمجھ نہیں آتا پیٹرول کس نے پی رکھا ہے چنگ چی نے چنگ چی ڈرائیور نے ،چلائے تو چلے نہیں روکو تو رکے نہیں ، بس چل پڑے تو اکثر اسٹاپ پر چیخ وپکار کرتے کرتے اگلا اسٹاپ آنے والاہو جاتاہے اور جب رک جائے تو پھر ذرا دھکا لگانا پڑجاتاہے
الغرض موٹر بائیک ایک عظیم الشان سواری ہے جسے شاہی سواری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس پر بیٹھنے والا خود کو بادشاہ کی طرح محسوس کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ وہ کسی ریاست کا حاکم ہے جب چاہاجسے چاہا موڑ دیا یا چھوڑ دیا کیونکہ دو ہینڈل اس کے قبضے میں ہوتے ہیں اور سوار جہاں چاہے ان کو موڑے یا چھوڑے بریک لگائے نہ لگائے،سیدھا چلے یا لہرائے سب اس کی دسترس میں ہے اور اگر اس پر بیٹھ جائے کوئی شہزادہ جو ون ویلنگ کرنے میں مہارت رکھتاہو پھر تو وہ شہزادہ جہاں جہاں جائے گا باقی عوام ادب و احترام کی بجائے خوف اور ڈر سے خود ہی پیچھے ہٹ جاتی ہے کہ کب شہزادہ حضور کی شان میں گستاخی ہوجائے اور ون ویلنگ کرنے والا شہزادہ عرش سے فرش پر تشریف لے آئے اور اپنے ساتھ بہت سی رعایا کو بھی خالق حقیقی سے ملوانے ساتھ لے چلے۔
موٹر بائیک کو اگر ایک رومان پرور سواری کہا جائے تو بالکل بجا ہوگا ایسی سواری کہ سارے تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دوسری سواری کو بائیک چلانے والے کے مضبوط کندھوں یاموٹی توند کا سہارا لیناہی پڑتا ہے اور اگر بائیک چلانے والا کوئی ہینڈسم اور اسمارٹ انسان ہو اور اس کے پیچھے کوئی دوشیزہ یا مشکیزہ کوئی بھی بیٹھے تو تھوڑی سی تکنیک سے اس خاتون نامحرم کو محرم بنتے دیر نہیں لگتی اور بالفرض اگر کوئی جوڑا موٹر بائیک پر گھومنے کا عادی ہو تو مشاہدہ کیجیے گا کہ ان کے 6 سال میں کم سے کم چار بچے ضرور ہوتے ہیں کیونکہ سڑکوں کی حالت اور موٹر بائیک پر جوڑے کی قربت خود بخود ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتے دیر نہیں لگتی ویسے بھی ہر فلم میں رومانس کے لیے بہترین سواری موٹر بائیک ہی استعمال ہوتی ہے کیونکہ کار جتنی مہنگی اور بڑی ہوتی یے اچھے سے اچھے جوڑے میں بھی دوریاں بڑھا دیتی ہیں جبکہ انتہائی لڑاکا اور بدمزہ جوڑا بھی اگر آدھا گھنٹے لاہور کی سڑکوں پر پھر لے تو کچھ ماہ بعد خاندان میں مٹھائی بٹنے کی نوبت آہی جاتی ہے آپ ملاحظہ کیجیے گا کہ بڑی بڑی کوٹھی کاروں والے ایک یا دو بچے پیدا کرکے ہی تھک جاتے ہیں جبکہ بائیک والوں کے حوصلے پچاس میں بھی جوان رہتے ہیں موٹر بائیک میں ایسی جادوئی کشش ہوتی ہے کہ ہزار ناچاقی کے باوجود اگر جوڑا ایک چکر صدر گول چکر کا یا چوبرجی کا لگا آئے تو پھر بیوی کو چکر اور اس کے ڈاکٹرکے چکر شروع ہو جاتے ہیں،جب بھی دو روٹھے میاں بیوی میں صلح کروانے کے سارے حربے ناکام ہوجائیں ،تعویذ گنڈے ،دم درود، عامل کامل کام نہ کریں تو بس ان میاں بیوی کو ایسی دور دراز جگہ بائیک پر بھیج دیں جس میں ان کو آدھے لاہور کا سفر کرنا پڑے ، اور اس سفر کو ایک ساتھ کرنا لازم ہو کیونکہ پیسے اور وقت کو بچانے کا واحد حل ہو ،پھر دیکھیے یہ یک روزہ سفر ایسا مجرب نسخہ ثابت ہوگا کہ فرق صاف ظاہر ہو جائے گا اس جوڑے کے واپس آنے تک ان کے تقریبا" زیادہ گلے شکوے ختم ہوچکے ہوں گے ، ہولے ہولے ہچکولے کھاتے اور راستے کی دگرگوں حالت میں بہت بار ان کو ایک دوسرے کے اتنا قریب آنا پڑے گا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جذبات بر انگیختہ ہو جائیں گے ایک سچ تو یہ ہے موٹر بائیک والے جوڑوں میں محبت نہ بھی ہو قربت بہت ہوتی ہے سو فی صد سچ پوچھیں تو " غربت میں قربت ہے "،
چھوٹے گھر ،چھوٹے کمرے چھوٹے بیڈ ،اور سونے پہ سہاگا موٹر بائیک کا کمال , اس لیے کہتے ہیں کہ پیسے سے دلوں میں دوریاں بڑھتی ہیں جبکہ غربت میں قربتیں ، تو بس اگر آپ محبت سے بھر پور بھرا پرا خاندان چاہتے ہیں تو بے شک کم کمائیے مگر بائیک چلائیے اور ہفتے میں کم از کم دو بار اپنے ہمسفر کو سیر پر لے جائیے ان شاءاللہ اس سواری کی بدولت محبت میں بھی اضافہ ہو گا اور آبادی میں بھی اور جب بچے زیادہ ہوں گے تو طلاق کی شرح بھی کم ہوتی جائے گی لہذا بائیک چلائیے
خود کو طلاق سے بچائیے
اور دعائیں دیجیے بائیک بنانے والے کو جسے یقیننا" خود بھی نہیں پتہ ہوگا کہ محبت کی روانی اور آبادی کی فراوانی میں بائیک نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے
شکر ہے بائیک ہے ورنہ زندگی کا سارا رومان کار میں بیٹھ کر سوچ بچار اور برداشت کی بھینٹ چڑھ جاتا