بس !اتنی سی بات کے لیے ہماری بیگم نے اپنے اتنے قیمتی آنسو بہا دیے ۔اچھا! اب میری بات غور سے سنو ، بلکہ دل کے کانوں سے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
حفصہ فیصل
کالج میں ہر طرف گہما گہمی تھی، ہرلڑکی گلابی ،سرخ یا آتشی رنگ زیب تن کرکے خود کو پری محسوس کر رہی تھی۔
یہ شہر کے پوش علاقے کا مہنگا ترین کالج تھا۔ مسزدرانی اس کالج کی روح رواں تھیں۔ اس کالج میں ترقی اور لبرل ازم کے نام پر ہر عالمی دن اور یادگار منائی جاتی تھی۔
امیر گھرانوں کی بچیاں گھر سے زیادہ کالج میں خوش باش رہتی تھیں ،کیونکہ کالج میں آئے روز تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ،اس طرح انہیں اپنے فیشن ایبل ملبوسات پہن کر اپنی امارت کے اظہار کا موقع ملتا رہتا تھا ۔چونکہ فروری شروع ہوچکا تھا ،اور اسی ضمن میں آج اس کالج می ویلنٹائن ڈے کا انعقاد کیا جارہا تھا۔ لڑکیاں بے حجابانہ ملبوسات پہن کر خوب ہار سنگھار کے ساتھ کالج میں منڈلاتی پھر رہی تھیں۔
سارا ،ثمن اور نادیہ کا گروپ بھی اس دن کو منانے میں پیش پیش تھا۔ ان کے گروپ نے ایک ٹیبلو بھی پیش کرکے عاشق ومعشوق کے واقعے کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔
سارا ویلنٹائن ، سمن اس کی محبوبہ جبکہ نادیہ اس لارڈ کا کردار ادا کر رہی تھی جو ان دونوں کے بیچ ظالم سماج کا کردار ادا کرتا ہے۔
٭٭٭٭
ڈیئر !میں اس ظالم لارڈ سے ٹکڑا جاؤں گا ،میں تمہارے لیے سب کچھ کرسکتا ہوں۔ ویلنٹائن رسان سے بولا ۔
"مگر تمہاری جان کو بہت خطرہ ہے" محبوبہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
"او مین !تم دونوں نہیں باز آؤ گے؟" لارڈ چلایا ۔
لارڈ نے زہر میں بجھا تیر ویلنٹائن کی طرف اچھالا، اس کا نشانہ خطا ہو گیا۔
ویلنٹائن نے وہی تیر لارڈ کی طرف پلٹایا ۔لارڈ وہیں ہلاک ہوگیا ۔
پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ویلنٹائن نے محبوبہ کو گلاب کا پھول پیش کیا۔
محبوبہ شرماتی لجاتی اس کو قبول کر گئی ۔
ہال میں سیٹیاں بجیں، ہوٹنگ ہوئی ۔ہر لڑکی خوشی سے شاد تھی،گویا بہت بڑا معرکہ سر کیا گیا ہو۔
مسز درانی اپنے مہمان خصوصی "محکم انٹرپرائزز کے چیف ایگزیکٹیو" کے سامنے فخر سے کھڑی تھیں کہ :"دیکھیں! ہماری بچیاں کتنی ہونہار ہیں "
کالج کے دو سال اسی تفریح طبع میں گزر گئے۔ سارا اور نادیہ تو ہائی اسٹیڈیز کے لئے باہرجانے کی منصوبہ بندی کرنے لگیں ۔ ارادے تو ثمن کے بھی یہی تھے مگر ثمن کے والدین امیر کبیر ہونے کے باوجود اتنے ایڈوانس نہ تھے کہ:" بچیوں کو اکیلے باہر ملکوں کی خاک چھاننے کے لیے بھیج دیتے "
ان کے ہاں ابھی خاندانی روایات اور اقدار کی پاسداری پائی جاتی تھی۔اور اس پاسداری کے اصل وجہ زینب بی بی (ثمن کی دادی) کا وجود تھا۔ زینب بی بی نے سیٹھ اسلم ( ثمن کے والد) کو باور کروایا کہ :"بچیوں کو جلد از جلد اپنے گھر کی کرنے میں ہی عافیت و راحت ہے اور یہی شریعت کا حکم بھی ہے۔"
ثمن نےلاکھ منتیں اور کوششیں کیں، مگر سیٹھ اسلم نے والدہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ ذمے داری والدہ ہی کے کاندھوں پر ڈال دی کہ:" ثمن کے لیے اچھا" برّ "بھی وہی تلاش کریں۔
٭٭٭٭
"خیریت ہے جناب! اکیلے ہی اکیلے مسکرایا جارہا ہے۔' حنین نے آفس سے آکر ٹائی کی نوڈ ڈھیلی کرتے ہوئے خیالوں میں گم مسکراتی ثمن کو مخاطب کیا ۔
"ہاں! جی نہیں، نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بس، ایسے ہی!!
ثمن اس طرح اپنی چوری پکڑی جانے پر ہڑ بڑا گئی۔
" چلو بھئی نہ بتاؤ۔۔۔کہ کیوں مسکرا رہی تھیں۔" حنین نے ایک بار پھر اسے چھیڑا۔
ثمن خفگی سے حنین کو دیکھنے لگی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی، جہاں شام کی چائے کی تیاری کرنے میں ملازمہ مشغول تھی ۔
٭٭٭٭
زینب بی بی کے فیصلے پر ثمن نے احتجاج ضرور کیا مگر دادی بھی گھاگ خاتون تھیں ،کچی عمر کی بچیوں کو جس رخ موڑ کر ڈھالا جائے، وہ ڈھل جاتی ہیں۔ جیسے جیسے عمر پکی ہونے لگتی ہے، وہ شتر بے مہار کی طرح سخت ہونے لگتی ہیں، پھر ان کو کسی کی اطاعت اور فرماں برداری کرنے کے لیے جھکنا بے حد مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے۔الا یہ کہ وہ چاہتی ہیں کہ ؛ہم حکم چلائیں اور سب ہمارے ماتحت بنیں۔ جب کہ یہ باتیں ہمارا مذہب عورت کے لیے پسند نہیں کرتا ۔اور دادی کے اسی فلسفے اور سوچ نے ثمن کوحنین کی دلہن بنا کر رخصت کر دیا ۔ اب چند ہی دنوں میں" ثمن حنین کی داسی بن چکی تھی" کہاں وہ ثمن جو غصے میں سوچتی تھی کہ :دادی نے بھلے میری شادی کر دی لیکن میں بھی سسرال میں کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کروں گی، ساتھ ہی کچھ پٹیاں نادیہ اور سارا نے بھی ثمن کو پڑھائی تھیں ۔
ہائے ثمن !!ہمیں تو اپنا ویلنٹائن تلاش کرنا تھا۔ یہ کیا تم بزرگوں کے آگے جھک گئی ؟نادیہ نے دہائی دی ۔
اور آج شادی کے ایک ماہ بعد ثمن، سارا اور نادیہ کی باتیں سوچ کر آپ ہی آپ مسکرا رہی تھی۔
٭٭٭٭
"وہ آپ کو پتا ہے ، اگلا مہینہ فروری کا ہے۔" ثمن جھجھکتے ہوئے بولی۔
بالکل ،بالکل !پتا ہے"۔ حنین دھیمے لہجے میں بولا ۔
"پھر تو یہ بھی پتا ہوگا کہ فروری میں کچھ منایا جاتا ہے"؟ ثمن اب کے اعتماد سے بولی۔
"منایا جاتا ہے؟؟؟"حنین تھوڑا چوکنا ہو کر بولا۔
"کیا منایا جاتا ہے؟ تم ہی بتا دو۔" حنین نے اپنا رخ اپنی نٹ کھٹ سی بیوی کی طرف موڑتے ہوئے شوخی سے کہا۔
کیا،کیا واقعی آپ کو نہیں پتا؟
ثمن حیرت زدہ لہجے میں بولی۔
یار !کہا تو۔۔۔.نہیں پتا"! حنین بے زاری سے بولا۔
" ویلنٹائن ڈے" ثمن آزردگی سے بولی۔
"اوہ! تو بےہودگی کا دن بولو نا !!" حنین قہقہہ لگا کر ہنسا۔
" کیا ؟ثمن چلا ئی۔۔۔!
آپ کو پتا ہے!یہ کتنا عظیم دن ہے.. اس دن لوگ اپنی محبت کا اظہار اپنے محبوب سے کرتے ہیں، اور اپنے سارے ارمان اس پر لٹاتے ہیں ۔اور آپ اس دن کو" بےہودگی کا دن "کہہ رہے ہیں ۔"ثمن باقاعدہ رونے لگی۔
حنین کے تو گویا ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ثمن کو روتا دیکھ کر۔
"ارے ارے! تم اتنی سی بات پر رونے لگیں ،میں نے تمہیں کوئی" بے ہودہ یا بے حیا "تھوڑی کہا ہے۔"حنین منمنایا ۔
" میں نے تو سوچا تھا کہ: میں آپ کو "ٹیڈی بیئر اور کارڈ" دو ں گی، آپ میرے لیے" ریڈ روز "لائیں گے ۔
آپ مجھے وش کریں گے۔ ثمن سوسو کرتی اپنے جذبات حنین کے گوش گزار کر رہی تھی۔ جب کہ حنین اسے شرارتی نظروں سے گھور رہا تھا ۔
"بس !اتنی سی بات کے لیے ہماری بیگم نے اپنے اتنے قیمتی آنسو بہا دیے ۔اچھا! اب میری بات غور سے سنو ، بلکہ دل کے کانوں سے سنو۔" "دیکھو !میرے چند کالج فیلو بھی بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے اور اب تو بہت سے لڑکے لڑکیاں اس دن کو مناتے ہیں۔ باقاعدہ فنکشن اور تقریبات ہونے لگی ہیں، بازاروں اور دکانوں پر اس دن کی مناسبت سے چیزیں بھی باآسانی دستیاب ہوتی ہیں، اور پھر جو جذبات اور محسوسات وہ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر نچھاور کرتے نظر آتے ہیں : تم کیا سمجھتی ہو ،کیا وہ سب کچھ درست ہوتا ہے؟ یا کیا وہ جذبات اور احساسات کسی کی امانت نہیں ہوتے ؟جو یہ نامحرم لڑکے لڑکیاں امانت میں خیانت کرتے جاتے ہیں، اس کا ان کو حساب نہیں دینا ہوگا ؟
کیاہمارا اللہ ہمیں ان چیزوں کو کرتے دیکھ کر ناراض نہیں ہوتا ہوگا ؟
کیا ہمارا مذہب ہمیں اس بے حیائی کی اجازت دیتا ہے؟
ابھی میں تم سے کہوں کہ: پچھلے سالوں میں، میں بھی اظہار واقرار کسی نا محرم لڑکی سے باندھ آیا ہوں، تو تمہیں کیسا محسوس ہوگا؟ ثمن ،حنین کے اس سوال پر تو دہل ہی گئی ۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے حنین کے ہاتھ تھام لیے۔
حنین اس حرکت پر دھیما سامسکرایا ۔
"مائی ڈیئر وائف! میرے سارے جذبات، احساسات اور محسوسات اس پاکیزہ بندھن کے بندھتے ہی فقط آپ کے لیے ہی ہو گئے تھے، اور تاحیات آپ ہی کے لیے رہیں گے۔ اس میں نہ، میں نے پہلے خیانت کی تھی اور نہ اب کروں گا ،مجھے اظہار کے لیے ان یہود و نصاری کے کے کسی مخصوص "بے حیائی کے دن" کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ میرے لیے سارا سال ہی آپ کے جیسی باحیا زوجہ محترمہ سے اظہار محبت کرنے کا کھلا موقع میرے اللہ اور رسول نے دیا ہے ۔" حنین شرارت سے بولا ۔
اور ثمن دادی کے بروقت فیصلے پر رب کی شکر گزار ہونے لگی، ساتھ ہی نادیہ اور سارا کی ہدایت کے لئے دعا گو ہوتے ہوئے اپنی سوچ پر پشیمانی محسوس کر رہی تھی۔