مہندی کی رسم سے لے کر، جوتا چھپائی ،دودھ پلائی  ، خاندان بھر کو  منہ دکھائی کی بے سرو پا بلکہ بڑی حد تک بے  حیا  رسم  تک  خاندان بھر کے لڑکے اور لڑکیاں ،  نہ صرف دلہا ،دلہن سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی خوب بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

 اہلیہ محمد عبید خان

”جوڑے  آسمانوں پر طے ہوتے ہیں “کتنا خوبصورت جملہ ہے !!بلاشبہ!!

لیکن انہیں نبھایا تو زمین پر ہی جاتا ہے نا  ۔نبھانے کی چاہت تو تقریبا ً ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی کامیاب رہے ، برقرار رہے ، خیر و برکات سمیٹے ۔ یہ  نبھانا فطری تقاضا ہے ۔

لیکن اس فطری خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو strategy  چاہیے بد قسمتی سے ہم اس سے ناآشنا ہیں ۔ ہندوانہ رسم و رواج پر مغربی سسٹم کی زبردست یلغار   نے شادی کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے اور ہم خس و خاشاک کی طرح اس میں بہتے چلے جارہے ہیں ۔ 

ڈپریشن ا ور مصیبتوں کے استقبال  کی تیاری ؟

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ(شوری :30)

”جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تمہارے اپنے کرتوت ہیں اور بہت سے تو  وہ معاف کردیتا ہے“

خوشی میں مست ہوکر ہم بھول جاتے ہیں کہ شریعت کی خلاف ورزی کر کے  جس  وقتی و عارضی خوشی سے ہم اپنے نفوس کو تسکین و راحت پہنچانے میں مشغول ہیں ،دنیا و آخرت میں کتنے بڑے  وبال ،عذاب  اور مصائب کو ہمارے استقبال کے لیے تیار کررہا ہے ۔

ایک بات ذہن نشین رکھیے ! مضبوط ،خوبصورت ،پرسکون  ازدواجی تعلق کا ، مذہبِ اسلام سے زیادہ  کوئی سپورٹر اور حمایتی نہیں ہے ۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے جتنے احکام  سے آگاہی ضروری تھی وہ سب آپﷺ کے اقوال،افعال  کے ذریعے ہم تک پہنچا دیے گئے ہیں ۔ جس کا مقصد یہی ہے کہ خوبصورت  ازدواجی تعلق مرتے دم تک قائم رہے، مضبوط اتنا ہو کہ جنت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کی خواہش لَبِ دَم رہے ۔ محبتیں پروان چڑھیں ۔مضبوط اسلامی معاشرہ وجود میں آئے ۔

پھر اس کے لیے کیا کیا جائے ؟؟

   شریعت کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ وہ غیر فطری  لفاظی سے کام نہیں لیتی ، بلکہ فطری خواہشات کو کیسے خیر کے ساتھ تکمیل تک پہنچایا جائے ؟اس کی مکمل بریفنگ  دیتی ہے  اور ان فطری خواہشات کو پورا کرنے کے چکر میں حضرتِ انسان جو شیطانی طور طریقوں کے ذریعے ،نفس کو تسکین فراہم کررہے ہیں ، ان کا بھی سدِّ باب کیا جائے ۔

لہذا اس عنوان کے دونوں رخ پر ہم احادیث مبارکہ کے تحت  روشنی ڈالیں گے ۔

1)شادی کون سا بار بار  ہوتی  ہے ،یاددگار بنانی چاہیے !!

2)شادی یوں بھی تو ہوسکتی ہے!!

(1)شادی کون سابار بار ہوتی ہے !!

جی ہاں! یہ مقولہ  زبانِ زد عام ہے ، بھئی شادی کون سا روز روز ہوتی ہے ،ایک بار ہی تو ہوتی ہے ،کیا حرج ہے اگر ”کچھ“ ہلا گلا ،  موج مستی کرلی جائے   اور پھر یہ ”کچھ “ کتنے ہی گناہوں کو اپنے اندر سمیٹ لاتا ہے  اس    کی کوئی انتہانہیں ۔

آئیے شادی کے موقع کی رسوم، تقریبات  اور دیگر  ہلے گلے کو احادیث مبارکہ کی  نظر سے دیکھتے ہیں ۔اگر باریک بینی سے معاینہ کیا جائے تو یہ بڑے  گناہ ہ ہر رسم یا  شادی کی تقاریب کے انعقاد میں نظر آتے ہیں ۔

مرد و زن کا اختلاط / فرینکنس/بے پردگی:

مہندی کی رسم سے لے کر، جوتا چھپائی ،دودھ پلائی  ، خاندان بھر کو  منہ دکھائی کی بے سرو پا بلکہ بڑی حد تک بے  حیا  رسم  تک  خاندان بھر کے لڑکے اور لڑکیاں ،  نہ صرف دلہا ،دلہن سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی خوب بے تکلفی کے مظاہرے کرتے ہوئے رسوم میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔

اسی طرح نکاح مسنونہ کی تقریب سے،و لیمے کی  تقاریب یا تو بالکل ہی مخلوط(mix gathering) ہوتی ہیں یا خواتین کے پورشن میں   بلا تکلف کزن ،قریبی  نا محرم رشتے داروں کا آنا عام ہے ۔ پردہ ،حیا ،غیرت سے طرفین بالکل یا تو نا آشنا ہوچکے ہیں ،یا وہی بودا سا بہانہ ،” کزن ہی تو ہیں “   افسوس !! شریعت کے احکام سے اتنی لاپروائی کہ ان  باتوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ۔

کیا نامحرم کے ساتھ خواہ وہ کزن ہی ہوں  ،بے تکلفی کا مظاہرہ جائز ہے ؟؟

جبکہ فرمانِ نبیﷺ میں کتنی سخت وعید ہے :

لأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ رَجُلٍ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لا تَحِلُّ لَهُ. (صحيح الجامع 5045)

”تم میں سے کسی کا سر لوہے کے کیل سے پھاڑ دیا جانا، یہ اس کے لیے کسی غیر محرم عورت (یا مرد) کو چھونے سے بہتر ہے“

کیا بے پردہ ،میک ایپ سے مزین  صورتیں ، زرق برق لباس پہن کر تقریب میں مرکزِ نگاہ بننا ایک ”صنف نازک “ کو زیب دیتا ہے ؟    جس کے نام  ”عورۃ“ کا معنیٰ ہی پوشیدہ چیز ہے ؟

 جبکہ دیکھنے والے مرد اور خود کو دکھانے والی عورت   دونوں پر لعنت کی گئی ہے ،اللہ کی رحمت سے دوری کے بعد  بھی کسی خیر کی توقع رہ جاتی ہے؟؟ 

لَعَنَ اللهُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ إلَيْهِ".  (مشکوۃ شریف2/ 936)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”دیکھنے والے اور جسے دیکھا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو“

بتائیے ذرا!  نیا ازدواجی جوڑاجس  کو اللہ کی رحمت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے،  وہی خود کو لعنت کا مستحق   بنا کر عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہے !! پھر برکت و خوشیاں آئیں گی کہاں سے؟؟

بہنوں!کیا آپ شیطان کے حملے سے ”جس نے اللہ کے سامنے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے “ سے بے نیاز ہوچکی ہیں؟؟

ألْمَرْأةُ عَورَةْ، فَإذَا خَرَجَتْ إسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ" (مشکوۃ شریف: 2/269)

” عورت چھپانے کی چیز ہے، چنانچہ جب وہ (گھر سے) نکلتی ہے تو شیطان اس کو دوسروں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے“

آپ تو ”سیپ میں بند موتی “کی مانند قیمتی تھیں بہن!! خود کو عام اور سستا کیوں کردیا؟؟

پھر اس پر مستزاد ،لباس، فیشن میں ا یک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ ،محض واہ وا اور شہرت  و  دکھاوے کے لیے ۔

جبکہ دکھاوے اور شہرت کے لیے یہ حدیث مبارک ہی بطور وعید ، احتراز کے لیے کافی ہونی چاہیے !

مَن لَبِسَ ثوبَ شُهرةٍ في الدُّنيا، ألْبَسَهُ اللهُ ثوبَ مَذلَّةٍ يومَ القيامةِ  ثم تلهَّبُ فيه النارُ(ابن ماجہ :3607)

” جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا پھر اس میں آگ بھڑکائے گا“

فوٹو گرافی  یا فضول خرچی ؟

شادی کی تقریب ہو اور فوٹو  یا ویڈیو گرافی نہ ہو یہ تو شاید آج کے دور کے ذہن تسلیم ہی نہیں کرسکتے،جبکہ ”دجالی فتنہ“ بھی اب ہاتھوں میں آچکا ہے ۔یہ گناہ جتنا سنگین ہے اتنے ہی اس کے مفاسد کی کوئی انتہا نہیں ، نامحرم مرد  کے سامنے مختلف پوز بنا نا، ان کو وائرل کرنا، ڈیویلپ کروانا ، البم بنوانا ، خاندان بھر کا محرم،نامحرم کی تمیز کے بغیر دیکھنا، ہر ایک کے موبائل میں موجود ہونا۔

کیا یہ حدیث ہم بھول گئے ؟

قال رسولﷺ :إنَّ أشَدَّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُصَوِّرُوْنَ(مسلم:1/ 202)

”بلاشبہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن  تصویر بنانے والوں کو ہوگا“

لَعَنَ (رسولﷺ)الْمُصَوِّرَ (بخاری:881)

”تصویر بنانے والے پر رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے “

لَاتَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ فِیْہِ کَلْبٌ وَلَاتَصَاوِیْرُ(بخاری :2/ 880)

”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویریں ہوں“

”نھی رسول الله صلی الله علیہ و سلم عن الصورۃ فی البیت و نھی عن ذلک“(ابوداود: کتاب اللباس)

جب گھروں میں البم و تصاویر کی موجود گی کی وجہ سے رحمت کے فرشتے آئیں گے ہی نہیں! تو ازدواجی تعلق میں محبت و سکون کہاں سے پروان چڑھے گا ؟؟ 

دیوثیت؟

غیرت کا شدید فقدان ہے کہ گھر کے سربراہ،باپ،بھائی ،یہاں تک کہ جس کی عزت بنائی جارہی ہے اس کو بھی عورت کے بے پردہ

ہونے ،غیر مرد کی ہدایات کے مطابق مختلف پوز دینے سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا ؟؟

کیا آپ جانتے ہیں؟  شریعت ایسے مرد کو جو اپنے گھر والوں کے متعلق دینی غیرت و حمیت سے عاری ہو کیا کہتی ہے ؟؟

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ قَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ الْخَمْرِ وَالْعَاقُّ وَالدَّيُّوثُ الَّذِي يُقِرُّ فِي أَهْلِهِ الْخَبَثَ(مسند احمد

:5349)

فرمان رسولﷺ”تین قسم کے لوگوں پر اللہ نے  جنت حرام کردی ہے:شراب پینے کا عادی، والدین کا نافرمان اور دَیُّوث جو اپنے گھر میں بے حیائی اور خباثت کو برداشت کرتا ہے“

قال: ثلاثۃ لا یدخلون الجنۃ أبدا: الدیوث من الرجال، والرجلۃ من النساء فقالوا: یا رسول اﷲ!۔۔۔ فما الدیوث من الرجال؟ قال: الذي لا یبالي من دخل علی أہلہ (شعب الإیمان للبیہقي : رقم: 10800)

فرمایاﷺنے :”جنت میں ،مردوں میں سے دیوث اور عورتوں میں سے، مردوں کی مشابہت اختیار  کرنے والی داخل نہ ہوگی“ پوچھا گیا یارسول اللہﷺ دیوث کون ہے ؟ فرمایا:  ” جو اپنے گھر والوں کے پاس آنے والوں کی پروا نہ کرے کہ  کون آ تا ہے“

ان تمام احادیث کی روشنی میں محدثین ،دیوث کا معنیٰ ”بے غیرت شخص“ کے کرتے ہیں ،جو گھر میں غیر مردوں  کا آنا جانا ،اور گھر کی خواتین سے بے تکلف ہونا   دیکھے اور خاموشی سے برداشت کرے ،قدرت کے باوجود بھی نہ روکے ۔

افسوس صد افسوس !! کیا یہ تمام صورتحال ہمارے گھروں ،محفلوں تقریبات میں رائج نہیں ؟ جس پر  گھر کے مرد گونگے شیطان بنے ہوئے ہیں ، آپ کو اگر قوّام بنا کر بلند منصب دیا ہے تو ذمہ داری بھی بہت کڑی دی ہے  ،  آپ راعی(نگران) ہیں ،گھر کی عورت کی بے پردگی اور بے حیائی کے متعلق پوچھ آپ سے ہی ہونی ہے !! پھر اتنا تساہل کیوں ؟؟

اکبر الہ آبادی تو پہلے ہی اس کا نقشہ کھینچ گئے نا!

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں  غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا!!

پھر تمام رسوم و تقریبات جو ہر قسم کے گناہوں کا گڑھ ہیں ،جن کی بنیاد ہی تصنع،نمود و نمائش ہے ، ان  گناہوں کو کرنے کے لیے بھی پیسہ پانی کی طرح بہایا جانا ، اس کے لیے قرض لینا ، حرام ذرائع اختیار کرنے کی بھی پروا نہیں کی جاتی ۔ گویا چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے کی فکر میں ہلکان ہوئے جانا ۔ سب سے زیادہ خرچ   تو کاغذ کے ٹکڑوں کی آرائش و زیبائش میں برباد ہوجاتا ہے ۔ ہمارے گھر کے سربراہ ، فوٹو گرافر  /ویڈیو میکر  کو ہزاروں(بلکہ اب تو لاکھ کو یہ عدد پہنچ چکا ہے ) کی رقم ، بزبان ِحال یہ کہہ کر دے رہے ہوتے ہیں کہ ”آپ کا بہت شکریہ ،آپ نے ہماری ”عزت“کو ہر اینگل سے  کیمرے کی آنکھ میں  محفوظ کرلیا ، اور خود کو اور  دوسرے غیر مردوں  کو ”مستفید“ ہونے کا موقع دیا

قارئین کو ہمارےالفاظ تلخ ضرور لگیں گے ،مگر افسوس حقائق پر مبنی ہیں !!  کیا یہ دیوثیت نہیں ہے ؟ کیا یہ اسراف و تبذیر (فضول خرچی) نہیں ہے ؟

کیا قرآن کا واضح حکم ہماری سماعت سے نہیں گزرا ؟

وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (الاسراء:26،27)

اور مال کو بےجا خرچ نہ کرو،بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں“

اتنا خرچ!! صرف شیطان سے تعلق استوار کرنے کے لیے ؟؟ کچھ تو سوچیے !!

موسیقی:

افسوس! جس امت محمدیہ کے دلوں کا سرور و اطمینان ،ذکر الٰہی میں رکھا گیاتھا آج وہ ”موسیقی کو روح کی غذا قرار دے رہی ہے ۔ تقریبات میں بیک گراؤنڈ میوزک سسٹم  کا ہونا تو محفل کی جان سمجھا جاتا ہے، گویا موسیقی کے بغیر کیا مزہ !! انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ایک تو موسیقی خود کبیرہ  گناہ  پھر اس کو گناہ نہ سمجھنا،عذاب بالائے عذاب !

کیا یہ حدیث جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ؟؟

’’صوتانِ مَلْعُونَانِ في الدُّنيا والآخرَةِ مِزْمَارٌ عندَ نعْمَةٍ ورَنَّةٌ عندَ مُصِيبَةٍ“ ]مسند البزار:7513]

” دو قسم کی آوازیں دنیا و آخر ت میں ملعون ہیں،ایک نعمت ملنے پر موسیقی کی آواز اور دوسری مصیبت کے وقت چیخنے چلانے کی آواز“

یہی تو المیہ ہے کہ شادی بیاہ پر جتنے بھی گناہ ہیں ،سب کھلم کھلا،ڈنکے کی چوٹ پر کیے جارہے ہیں ! کوئی دردِ دل رکھنے والا ،سمجھانے کی کوششِ لاحاصل کرے  تو”ارے چھوڑیے !جی ، شادی کونسا روز ہوتی ہے ؟؟ “

اس حدیث سے عبرت کا ساماں پیدا کیجیے !

كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا المُجَاهِرِين

’’ میری امت کے سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں سوائے ان گناہ گاروں کے جو کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والے ہوں گے‘‘

 

چند روزہ زندگی میں وقتی لمحات کی ناجائز خوشیاں خرید کر ابدی سعادتوں سے ہاتھ مت دھوبیٹھیے ۔شادی ،جائز و حلال طریقوں سے خوشیاں منا کر بھی ہوسکتی ہے !!کیسے؟؟ اس کے لیے اگلی تحریر کا انتظار کیجیے ۔

اس دعا کا اہتمام رکھیے! اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ۔(صحيح الجامع للالباني 3388 )

الٰہی !آپ کی رحمت کے امیدوار ہیں، مجھے لحظہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر، میری مکمل حالت درست فرمادے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔