محلے بھر کے پاگل شیدے کو اس کی خوب صورت بیوی  نے سمجھ دار  اور  عقل مند وں کو ابنارمل کیوں کہا ؟

عشوا رانا

"دلہن آئی ہے،  دلہن آئی ہے " محلے میں بچے ہر طرف شور مچا رہے تھے.بڑوں کو الگ تجسس تھا.کب سے اس بارات کا انتظار تھا اور کیوں نہ ہوتا.....!

محلے کا "شیدا "  کی جسے سب پاگل کہتے تھے،  شادی تھی.

میں نے جب سے سنا،  اسی وقت سے مجھے "بے چاری دلہن "پہ ترس آنے لگا تھا.

شیدا جسے اپنے کپڑے جوتے تک کا ہوش نہ تھا،  وہ باولا کیسے اپنی بیوی کا خیال رکھ پائے گا.

لیکن شیدے کی ماں اور گھر والوں کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کی شادی ہو.

کئی رشتے دیکھے، مگر ایک پاگل کو پاگل کے سوا کون کیا دے سکتا تھا..سو بات بگڑ جاتی.

ایک وقت میں تو یہ بھی سننے کو آیا تھا کہ شیدے کی ماں نے اب اس کی شادی کی خواہش ہی چھوڑ دی ہے لیکن پھر ایک دن گھر میں رکھے چار گلاب جامن جب اپنے ہونے کی وجہ بتانے لگے تو پتا چلا شیدے کی بات طے ہو چکی ہے.

لڑکی طلاق یافتہ ہے اور عمر میں کچھ بڑی ہی ہو گئی.

اس وقت سے میرے دل و دماغ میں آنکھوں کی بھینگی، یا کسی بھی ایسی بیماری یا شکل سے ایسے دکھنے والی دلہن کا تصور گھومنے لگا تھا.

 

شیدے کو محلے کے سبھی جوان "دلہا بھائی " کہہ کے چھیڑنے لگے تھے اور وہ تو تھا ہی پاگل سا...ایسی کسی بات پہ قہقے مار کے ہنستا  اور پھر ہنسے چلے جاتا.

ایک پاؤں میں جوتا پہنے،  تو کبھی ننگے پاؤں یوں ہی پھرتا اور اپنی شادی کا اعلان کیے جاتا۔

پورے محلے کے لیے گویا وہ "انٹرٹیمنٹ چینل" تھا لیکن مجھے اس "دلہن "پہ ترس آتا تھا جسے میں ابھی دیکھ نہ پائی تھی.

بالآخر اس کی شادی بھی ہو گئی.دلہن گھر آئی تو میں فٹ سے اماں کے ساتھ دیکھنے کو پہنچی.میرے ذہن میں طرح طرح کے تصور تھے مگر جب اسے دیکھا تو دیکھتی رہ گئی.

وہ تھی تو پچیس سال کی مگر   بہت  خوبصورت ،   اور  اپنی عمر  سے کافی  چھوٹی  لگتی تھی، لڑکی تھی.

گریجویٹ ماریہ "شیدے " کی دلہن تھی.

میں اس شور میں کیا بات کرتی.خاموشی سے چلی آئی.

لگتا ہے ماں باپ نے زبردستی کی ہو گی.

افف،  وہ اس پاگل کے ساتھ کیسے رہے گی؟

یا کوئی مسئلہ ہو گا... پہلے بھی تو طلاق ہوئی.

ماریہ کے ذکر پہ ایسے کئی سوال میرے دماغ میں گردش کرتے لیکن جیسے جیسے وقت گرزتا گیا،  ہر ایک سے اس کی تعریف سنی.اس کے اخلاق کی مثالیں دی جاتیں اور تو اور شیدا بھی اس کے آگے پیچھے پھرتا.صاف ستھرا دکھائی دینے لگا.

میری ماریہ سے ملاقات کی خواہش بڑھتی گئی.محلے کی ایک دعوت میں آخر کار میری اس سے ملاقات ہوئی اور بنا کسی خاص دوستی کے میں اس سے پوچھ بیٹھی.

وہ میرے تجسس پہ مسکرائی.

"برا مت منائیے گا " میں اپنے سوالوں پہ شرمندہ ہوئی، مگر اس نے میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے تسلی دی.

"میں ایف اے کے امتحان سے فارغ ہوئی تھی، جب میرے لیے ایک اچھا رشتہ آیا.لڑکے کا اپنا کاروبار تھا.تھوڑی چھان پھٹک کے بعد شادی کر دی گئی.

شربتی آنکھوں کے خواب بھی گلابی ہوتے ہیں،  ہر خواہش پہ اپنے شوہر کے ساتھ کا تصور کرتے میں بھی رخصت ہوئی، لیکن رنگوں کی یہ بارش وقتی تھی.!

میرا شوہر غصے کا تیز اور احساس کمتری کا شکار ایک اکھڑ مزاج والا شخص تھا ،جس کے بدلتے رویے سے میں بھی حیران رہ جاتی.کبھی وہ میری ایسی خدمتیں کرتا تو کبھی اتنا غصہ کہ میں کانپ جاتی.

ایک سال بعد اولاد نہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے..مگر وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا گیا۔

 

بات بے بات غصے اور پھر اس غصے پہ مار پیٹ کی نوبت نے مجھے دنوں میں ذہنی مرض کا شکار کر دیا.

یہ کہہ کے ماریہ رکی ،اس کی سیاہ آنکھوں میں بس سفید رنگ تھا.

 

"ایک دن اسی غصے میں،  اس نے مجھے  تھپڑ مارے،  اتفاق سے میرا بھائی اسی وقت مجھے ملنے کو آیا،  وہ میری حالت برداشت نہ کر سکااور مجھے اپنے ساتھ لے گیا.معاملہ بگڑتا گیا اور نوبت طلاق تک جا پہنچی.ڈیڑھ سال کی یہ شادی شہنائی سے رسوائی میں بدل گئی اور سارے خوابوں کو اپنی لپیٹ میں لے گئی.

میں نے خود کو سنبھالا،  اور دوبارہ پڑھائی شروع کی.

بہت رشتے آئے مگر طلاق یافتہ کا لیبل ہر چیز پہ بھاری تھا اور جو اپنانے کو تیار تھے ان کے شرافت کے لبادے اور خوبصورت چہروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی مطلب نکل آتا.

شیدے کا رشتہ بھی ایسی ہی غرض میں لپٹا ہوا تھا جہاں مجھے اپنی ذات کی قربانی دینا تھی مگر میں نے قبول کیا.

تمہیں پتاہے؟  اس سے محبت سے پیش آؤ تو وہ عزت دیتا ہے.اسے سمجھاؤ تو وہ اسے میرے دماغ کا خلل نہیں سمجھتا،  وہ مجھے کسی ایسے سیپ کی طرح سمجھتا ہے جو قسمت نے اسے وار دیا ہے، اپنی تمام تر نا سمجھی اور پاگل پن کی باتوں میں وہ مسلسل میرا احساس کرتا ہے.کسی بچے کی طرح ہر اس چیز پہ اقرار، اور انکار کرتا ہے جیسے میری مرضی کے خلاف جائے گا تو گناہ سرزد ہو جائے گا.

وہ سب کی نظر میں پاگل ہے، لیکن وہ سب سے سمجھدار ہے کیوں کہ  وہ اپنے دل و دماغ اور حرکات سے کوئی بھی ایسا عمل شعوری طور پہ نہیں کرتا جو دوسروں کا دل چیر پھاڑ کے رکھ دے.

ماریہ نے گہری سانس لے کے اپنی بات مکمل کی اور کچھ منٹ کی خاموشی کے بعد بولی.....!

تمہارے سارے سوال اپنی جگہ.....مگر اس دنیا کے ابنارمل ہی  اصل میں سب سے نارمل انسان ہیں۔