انسانی زندگی کے سکون اور بے سکونی  کا ادراک اسی وقت ممکن ہے جب اس کی ازدواجی زندگی کو پرکھا  جائے اس جانچ کے لیے بیویوں کی اقسام جاننا بھی ضروری ہے۔  اس تحریر کی روشنی میں شادی شدہ حضرات اپنی بیگم کی عادات و خصائل ، مزاج اور شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بیویاں اس تحریر کوآئینہ سمجھ کر اپنا آپ تلاش کریں اور کنوارے حضرات اسے کسوٹی بنا کر ہم نشیں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی

نیک پروین

یہ روایتی بیویوں کی ایسی قسم ہوتی ہے جو ہمہ وقت آپ کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھی رہتی ہے۔ فربہی مائل قبول صورت کی مالکہ۔ اپنی پوری زندگی آپ کے ساتھ ساتھ پانچ سات بچوں کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ اس قسم کی بیویاں عام طور پر مڈل کلاس سے لوئر کلاس دونوں گھرانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اکثر مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) میں خوش وخرم رہتی ہیں کیوں کہ وہاں فرائض اور ذمے داریوں کی تقسیم پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ وفا شعاری انہیں گھٹی میں ملی ہوتی ہے۔ پیار، خلوص اور اچھے برے وقتوں میں نندوں، دیوروں جیٹھوں اور تو اور ہر سسرالی رشتے داروں کے کام آنا ان کی اضافی خوبی اور وہ شاندار premium ہے جسے یہ اپنی ایثار پسندی کی عادت کے سبب بھرتی رہتی ہیں۔ جب یہ تھکنے لگتی ہیں تو بچوں پر اپنی تھکن اتارنے کے لیے خوب چیختی چلاتی ہیں۔ یہ میاں جی کے کان بھی بھر سکتی ہیں کہ ”اے جی! اس مہنگائی میں ہمارا گزارا نہیں ہوتا کوئی اور کام بھی ڈھونڈیں ، بھئی اپنے بھائیوں سے contribution (شراکت) بڑھوائیں۔ (کیوں کہ مشترکہ خاندانی نظام میں باروچی خانے اور یوٹیلیٹی بلز کی مد میں خرچ ہونے والی رقم باہم تقسیم ہوتی ہے)۔ اسی فیصد معاملات میں روایتی بیویوں کی مرضی نہیں چلتی بلکہ انہیں اپنے سے بڑوں کی بات انکساری سے زیادہ مجبوری میں ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا چاروناچار وہ خوش وخرم ، مطمئن و مسرور نظر آنے کا ڈھونگ رچانے کی حتی الامکان سعی کرتی ہیں۔

اللہ میاں کی گائے

کچھ مرد حضرات کے منہ سے یہ جملہ کہتے سنا ہی ہوگا ”بھئی میری بیوی تو اللہ میاں کی گائے ہے۔“

مرد حضرات حاکم پسند ہوتے ہیں سو مردوں کی اکثریت بلا چوں و چراں سر تسلیم خم کرنے والی بیویوں کی گرویدہ و دلدادہ ہوتی ہے۔ ایسی جو ستی ساوتری بالکل اللہ میاں کی گائے ہوں۔ شوہر صاحب اور سسرال والوں کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے جن کی زبان نہ تھکتی ہو۔ ذہین و فطین  اور سگھڑ سلیقہ مند بھی ہوں۔ جو بحث ومباحثے سے کوسوں دور بھاگتی ہوں تو تکرار و مخالفت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اور جو شوہر کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرتی ہو اور شوہر کو مجازی خدا سمجھتی ہی نہیں مانتی بھی ہوں۔ ایسی بیویاں جان نہیں بلکہ عزیز از جان ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خوبصورت ، جاذب نظر اور پرکشش شخصیت  بھی رکھتی ہوں کیونکہ عموماً خوبصورت بیویاں خود پرستی کے مرض میں مبتلا ہوسکتی ہیں پھر وہ اپنے مقابل آنے والی کسی ہستی کو اس قدر عزت و احترام دیں یہ لازمی تو نہیں سو ایسی بیویاں جان کی بجائے وبالِ جان بن جاتی ہیں۔

ٹوہ میں لگی رہنے والی

قطعی طور پر ناپسندیدہ اور غیر مقبول کہلانے والی بیویوں کی یہ قسم شوہروں کو بری طرح کَھلتی چُھبتی ہے۔ یہ خواتین خواہ کتنی ہی حسین ماہ جبیں، امیر وکبیر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں۔ مرد حضرات انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں۔ یہ خواتین ہر وقت ٹوہ میں لگی رہتی ہیں اور شوہروں کے خیال میں ان کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر شوہر شکی مزاج ہوں تو بیویاں بڑی صابر وشاکر بھی ہو رہتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے متوازن زندگی کے لیے شوہروں سے زیادہ بیویوں میں ایثار ، مصلحت پسندی اور صبر و تحمل کا عنصر نمایاں رکھا ہے۔ خیر دور کے یہ ڈھول سہانے بھی ہوسکتے ہیں۔

میرا جسم میری مرضی

یہ بیویوں کی خطرناک ترین قسم ہے۔ اس سلوگن کا راگ الاپنے والی بیویوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ سانپ کے ڈسے کو پانی تو مل جائے مگر حاکم پسند بیوی کے سامنے اچھا خاصا شوہر بھی مخنچو بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ گھر کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے جہاں شوہر غریب مُزارِع جیسی حیثیت  رکھتا ہے، اپنی راجدھانی، جاگیرداری اور چودھراہٹ میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتی۔ مکمل آزادی اور بھرپور اختیارات کی چاہت رکھتی ہے۔ اب یہ حسن و جمال کا رعب ہو یا شخصیت کا خاصہ وہ اپنے اردگرد صرف جی حضوری کرنے والوں کا تانتا بندھے رہنا پسند کرتی ہے۔ ایسی بیویاں عموما وہ ہوتی ہیں جو رئیس زادیاں، خاندانی جاہ و حشمت رکھنے والے طبقوں کی ماہ جبینیں اور دولت و حسن سے مالا مال ہوتی ہیں، جو معاشرے میں بےپناہ اثر ورسوخ بھی رکھتی ہیں۔ ہوسکتا ہے اس سب میں سے کچھ نہ ہونے کے باوجود مزاجا کچھ بیویاں ایسی ہوں ۔

سوچنا چاہیے  کہ بیوی کی حاکمیت سے گھر میں چین و سکون قائم رہ سکتا ہے؟ بہرحال عام طور پر مرد اتنے تو زیرک ہوتے ہیں کہ ایسی حاکمیت پسند بیوی کے طور طریقوں پر تنقید کرتے ہیں یا بعض جیالے ایسی لڑکی سے شادی ہی نہیں کرتے۔ بلکہ ایسا رشتہ اگر ملے بھی تو کہتے ہیں

بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا

 کامو بیوی

اس قسم کی بیویاں اس قدر مصروف ہوتی ہیں کہ شوہروں پر نظر نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے شوہر حضرات کو بھی ان کے رویوں سے عموماً شکایت نہیں ہوتی گویا ان کے ضمنی اثرات، زندگیوں پر غالب ہوتے کم ہی دیکھے جاتے ہیں۔ ان حالات میں شوہروں کو اپنی من مانی کرنے کی مکمل آزادی مل جاتی ہے۔ اس قسم کی بیویاں آج کل بہت ان ہیں اور مقبول ہیں۔ اس شہرت مقبولیت کی ایک نہیں کئی معاشرتی وجوہ اور اسباب ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم سبب تو یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں یہ آمدنی میں گراں قدر اضافے کا موجب بنتی ہیں، وہ صرف دفتری یا ملازمت کرنے کے فرائض انجام نہیں دیتیں بلکہ گھر کے اندر باہر کے سارے کام بطریقِ احسن و بہ خوبی انجام دیتی ہیں اس لیے انہیں شوہروں کی لیلیٰ کہا جاتا ہے۔ ایسی کامو بیویوں کے شوہر گھر میں ایڑے بن کر پیڑے کھاتے ہوئے اینٹھتے رہتے ہیں۔

آئیڈیل بیوی

اللہ تعالیٰ کا انعام ، مثلِ حور، سرو قد ، دراز زلف وغیرہ وغیرہ، سات پشتوں سے دولت کی فراوانی میں پلتی بڑھتی ہوئی حسینہ۔ بااثر و بارسوخ،  وفا کی دیوی ، ایثار پسند ، بظاہر روایتی  حقیقت میں جدید تقاضوں کی دلدادہ۔ دنیا جہاں کی خوبیوں سے مالا مال یہ جنتی مخلوق تو ہو سکتی ہے کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں اس لیے روئے زمین پر ایسی بے عیب مخلوق ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے کہ ایسی آئیڈیل خوابوں کی شہزادی کے انتظار میں کتنے وقت کی سرمایہ کاری کر سکیں گے یا کیسی بیوی کے ساتھ گزارا کر لیں گے!

فیشن کی دلدادہ

جدید فیشن کی دلدادہ اور ماڈرن خاتون خانہ میں اتنی صلاحیت موجود ہی ہوتی ہے کہ وہ شوہر کو قابو میں رکھ لے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ایسی بیویاں حور پری ہوں ہاں مگر انہیں مختلف تہواروں ، تقریبوں اور کام کاج کے دوران کیسا نظر آنا چاہیے اس بھید سے وہ بخوبی واقف ہیں اور یہی ان کے پرکشش نظر آنے کا اہم راز ہے۔ وہ حسین نہیں حسین و جمیل نظر آنے کی تگ ودو کرسکتی ہیں۔ انہیں صحت کی بھی فکر لاحق رہتی ہے وہ اپنی خوراک اور دیکھ بھال کا بھرپور خیال رکھتی ہیں انہیں احساس ہوتا ہے کہ بیمار پڑنے کی صورت میں ان کا گھریلو نظام زندگی درہم برہم ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی عین ممکن ہے کہ وہ شادی کے ابتدائی سالوں میں بچے کی خواہش نہ کریں۔ اور بدقسمتی سے شوہر کو اس آزادی کی ایسی لت پڑ جائے کہ اگلے برس وہ ہی اولاد کا خواہشمند نہ رہے۔ ویسے عموماً شوہر ایسی عورت سے نبھا نہیں کر پاتے۔ اختلافات بڑھتے رہتے ہیں اور یہ بیوی سنبھالنی مشکل ہو جاتی ہے۔ شریف آدمی کو چار و ناچار گلے میں پڑا ڈھول بجانا ہی پڑتا ہے۔

وفا کی دیوی

اول یہ تو گرہ سے باندھ لیں کہ یہ کسی عورت کے ماتھے پر کندہ نہیں ہوتا کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ کتنے فیصد وفادار رہے گی یا نہیں رہے گی۔ مگر آٹے میں نمک کے برابر کچھ خواتین میں وفاداری اور شوہر پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ایسی بیویاں حساس ، ذمہ دار، شائستہ اور محتاط انداز میں گفتگو کرنے والی، شوہر پر نکتہ چینی نہ کرنے والی جو ہر مرتبہ غصے کو بھڑکانے سے روکتی ہے۔ یعنی چنگاری کو مزید ہوا دینا اسے آتا ہی نہیں۔ ایک چپ سو سکھ پر عمل پیرا ایسی بیویاں شوہر ہی سسرال پر راج کرتی ہیں۔ اور یہی گھر کی اصل ملکہ دل کی رانی ہوتی ہیں۔

 

بتائیے آپ کی نظرِ انتخاب کس قسم پر جا ٹھہری ہے.....!

کہیں ایسا تو نہیں اپنی بیوی میں ان سب قسم کی بیویوں میں اپنی من پسند خوبیاں جمع دیکھنا چاہتے ہوں