بیوی  شوہر کی تسکین  کرے تو اس کا مطلب اس کی غلامی کرنا ہے ؟ یا اپنے  اور اس کے رشتے کو مضبوط و محفوظ بنانا ہے

 محمد حمزہ صدیقی

کئی ایک احادیث میں عورت کو اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اس کا شوہر جب بھی اس سے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ انکار نہ کرے، بلکہ ایسی عورت کی تعریف کی گئی ہے جو بطور خاص مرد کی اس ضرورت اور خواہش کا خیال رکھے اور ایسی عورت کے لیے وعید تک بیان کی گئی ہے جو اس پہلو سے لاپروائی اختیار کرے بالخصوص ایسی صورت میں کہ جب مرد اپنی عورت سے اس خواہش کا اظہار کرے اور عورت انکار کر دے

ایسی احادیث کو دیکھنے کا ایک زاویہ نظر تو یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ عورت تو مرد کی غلام ہے، یا عورت کو صرف اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، عورت کی خواہش کا کوئی احترام نہیں ہے، مردوں کے لیے کوئی ہدایات نہیں ہیں، مردوں کو کوئی نہیں بتاتا کہ ان پر عورتوں کے کیا حقوق ہیں وغیرہ وغیرہ

ایک مسلمان عورت اگر چہ یہ باتیں اپنی زبان پر نہ لا سکے، لیکن اس ڈیجیٹل زمانے میں ایسی باتیں اس کی نظر سے بھی نہ گزریں، یہ ذرا مشکل ہو گیا ہے اور جب نظر سے گزریں گی تو دل و دماغ پر بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ضرور کریں گی سو لازم ہے کہ ایسی احادیث کا جو اصل مقصد ہے، ان کو واضح کیا جائے تاکہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ہمارا ذہن کسی قسم کے شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو، اس حوالے سے ہم اپنی چند معروضات بالترتيب پیش کرتے ہیں

1-ایسا ہر گز نہیں ہے کہ شریعت نے صرف عورتوں پر مردوں کے حقوق لازم کیے ہیں، بلکہ مردوں پر بھی عورتوں کے بہت سے حقوق لازم کیے ہیں اور اگر مرد وہ حقوق ادا نہیں کرتے تو قانون اور شریعت دونوں کی نگاہ میں مجرم ہیں جن کے حصول کے لیے عورت عدالت تک سے رجوع کر سکتی ہے، شادی کے بعد عورت مکمل طور پر مرد کی ذمہ داری ہے، اس کے لیے رہائش، لباس، کھانا پینا، علاج معالجہ یہ سب کچھ مرد کے ذمے ہے اور ذمہ دار مرد اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ میں لگے ہوتے ہیں

2-مرد کی زندگی کا اصل محور گھر سے باہر کی دنیا ہے، جہاں وہ دن کا اکثر حصہ معاش کے انتظام میں سرگرداں رہتا ہے، اور اس انتظام میں اسے کیسی کیسی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں، یہ مرد ہی جانتا ہے، کیسے کیسے رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، یہ ایک مرد ہی سمجھ سکتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو اپنے مزاج اور طبیعت کے بالکل بر خلاف اپنی تذلیل کو بھی سہ جاتا ہے، کس کے لیے؟؟؟؟ صرف اور صرف اپنے بیوی بچوں کے لیے!!! 

ایسے میں جب وہ دن بھر کا تھکا ہارا گھر کو لوٹتا ہے تو وہ درحقیقت ذہنی و جسمانی سکون کا متلاشی ہوتا ہے، لیکن اگر گھر پہنچ کر بھی اسے سکون نہ ملے تو وہ پھر شاید یہ سکون بھی باہر کی دنیا میں تلاش کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے، ایک عورت کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مرد کو کس طرح ذہنی و جسمانی سکون پہنچا سکتی ہے یہ جملہ دوبارہ دہرا لیں کہ ایک عورت کو اپنے شوہر کے مزاج سے اس قدر لازمی واقفیت ہونی چاہیے کہ اسے یہ معلوم ہو کہ اپنے شوہر کا استقبال کس طرح کرنا ہے اور باہر سے تھکے ہارے آنے والے شوہر کو ذہنی و جسمانی آرام پہنچانے کا کیا انتظام کرنا ہے؟؟؟

3-جنسی خواہش ایک فطری چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں میں رکھی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مرد کی بنسبت عورت میں اللہ نے برداشت کا مادہ بھی زیادہ رکھا ہے اور شرم و حیا میں بھی عورت مرد پر فائق ہے، اس کے مقابلے میں مرد کے لیے بعض اوقات اس تقاضے کو برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، ایسے میں اگر مرد کو اپنی بیوی کی طرف سے مناسب رد عمل نہ ملے تو شاید چند ایک بار تو مرد صبر کا گھونٹ پی جائے، لیکن اگر عورت اس کو اپنا مزاج ہی بنا لے تو یقینی طور پر مرد کی بھی اپنی بیوی میں دلچسپی کم ہونے لگے گی اور وہ کوئی متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہوگا اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ متبادل حرام ہوگا، اس سارے تناظر میں اگر ان احادیث مبارکہ کو دیکھا جائے تو بآسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نہ تو عورت کو مرد کا غلام بنایا جا رہا ہے اور نہ ہی عورت کی آزادی سلب کی جا رہی ہے بلکہ درحقیقت عورت کو ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مرد کو اپنے حلال کھونٹے سے ایسا باندھ کر رکھو کہ حرام کی طرف اس کی نظر بھی نہ اٹھے، اسی میں عورت کی بھی عزت کی حفاظت ہے، اس کے شوہر کی عزت کی بھی اور معاشرے میں موجود دیگر خواتین کی عصمت و عفت کی بھی حفاظت کی ضمانت ہے کیوں  کہ مرد اگر کوئی متبادل تلاشتا ہے تو وہ بھی یقیناً کوئی عورت ہی ہوگی