جب حماد اور طیبہ کی جدائی میں بس ایک دستخط کا فاصلہ تھا تو انا کی دیوار کیسے ریزہ ریزہ ہوئی ؟
اُمِّ نُسیبہ
فون سنتے ہوئے نہ جانے کیوں مستقل اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ حالانکہ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون بند کیا اور باہر کی طرف کُھلی کھڑکی کے قریب آگئی۔
رات بھر کی موسلادھار بارش کے بعد صبح سورج کی پہلی کرن عجیب فسوں قائم کر رہی تھی۔ ہر شے دھلی دھلی اور نکھری نکھری محسوس ہو رہی تھی سوائے اس کے دل پر جمی وحشت و یاسیت اور اس کے چہرے پر پھیلی اداسی کے۔ نہ جانے کیوں رات سے اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ وہ خود اپنی کیفیت سمجھنے میں ناکام تھی۔
کھڑکی سے آتی تازہ ٹھنڈی ہوائیں اس کے مزاج اور طبیعت کی بےزاری کو کم کرنے میں ناکام رہیں۔ وہ چار ماہ سے اپنے میکے میں تھی۔ روز روز کی کِل کِل اور شور سے طبعیت مکدر ہوئی تو اس نے میکے جانے کی دھمکی دے ڈالی۔
"کل کی جاتی آج چلی جاؤ، میں بھی تنگ آگیا ہوں تم سے۔"
یہ اس کے ہمسفر اس کی زندگی کے ساتھی کا آخری جملہ تھا جو اس نے طیبہ سے کہا تھا۔ اس نے حیرت سے حماد کی جانب دیکھا مگر کچھ بول نہ سکی۔ یہ وہی حماد تھا جو کبھی اس کے میکے جانے کی دھمکیوں پر ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا تھا، جو اس کی ہستی کا ساماں تھا، جو اس کے لیے جینے کی امید اور زندگی کی بہار تھا۔
کتنے ہی لوگوں کی مخالفت مول لے کر اس کے والدین نے حماد کے رشتے کی ہامی بھری تھی۔ طیبہ کے خاندان میں ذات برادری سے باہر شادی کا تصور نہ تھا۔ اس کی والدہ نے لاکھ جتن کرکے حماد جیسے مناسب رشتے کے لیے اس کے والد کو منایا تھا۔
سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ شادی کو پانچ سال بخیر و خوبی بیت گئے اور وہ دونوں ایک بیٹا اور بیٹی کے ماں باپ بن گئے کہ یکایک ان کے ستارے گویا گردش میں آگئے۔ آئے روز کاروبار میں گھاٹے کے باعث حماد کے مزاج میں عجیب سا کھچاؤ پیدا ہوگیا۔ حماد جسے بلند آواز میں بات کرنا بھی گراں گزرتا تھا اب چیختا چلاتا تھا۔
طیبہ جس نے حماد کا یہ نیا روپ دیکھا تو اس سے یکسر نالاں ہوگئی۔ آئے روز پیسوں اور اخراجات پر جھگڑے زور پکڑنے لگے تو گویا شیطان لعین کو کُھلی چھٹی ہی مل گئی۔
"کل کی جاتی آج چلی جاؤ۔ میں بھی تنگ آگیا ہوں تم سے۔۔ "
الفاظ نہیں انگارے تھے جو طیبہ پر برسے تھے۔ طیبہ نے شکوہ کناں نظروں سے حماد کی جانب دیکھا اور سامان باندھنے لگی۔
"خبردار!!! بچوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا سوچنا بھی مت۔ جانا ہے تو اکیلی جاؤ گی۔"
حماد نے طیبہ کو بچوں کا سامان بیگ میں ڈالتے دیکھا تو ڈھارا۔ بالآخر طیبہ اکیلی میکے آگئی۔
اس دوران بڑوں کی مفاہمت کی تمام کوششیں بےکار گئیں۔ حماد کا مطالبہ تھا کہ طیبہ جس طرح خود گئی ہے گھر سے اسی طرح واپس آجائے، جبکہ طیبہ کی ضد تھی کہ حماد اسے لینے آئے اور منا کر لے جائے۔
ضد اور انا کے بیچ محبت کا حائل ہونا ممکن نہیں رہتا۔ برسوں کا ساتھ، سفر میں ساتھ نبھانے کے عہد و پیماں، زندگی کے خوشگوار لمحات اور سنگ بتائے وہ حسین پل ۔۔۔ سب کچھ کہیں بہت پیچھے چلا گیا تھا۔ دونوں طرف ایک سرد جنگ چھڑی ہوئی تھی جس میں محبت بارہا ناکام ہوتی چلی جارہی تھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی جھکنے کو یا پہل کرنے کو تیار نہ تھا۔
طیبہ نے عدالت میں خلع اور بچوں کے حصول کے لیے کیس دائر کردیا۔ ہر ماہ ایک اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ، بچے ماں کو دیکھ کر ماں کی طرف لپکتے اور واپسی میں حیران حیران سے باپ کے ساتھ چلے جاتے۔
ہر ماہ پیشیوں پر پیشیاں دونوں فریقین کے دلوں میں دوریوں اور کدورتوں کے بیچ بو رہی تھیں۔
امی کی آواز پر اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹا جو اسے ناشتے پر بلا رہی تھیں۔
"آج آخری پیشی ہے، بقول وکیل کے کہ آج حماد خلع کے کاغذات پر دستخط کرنے آئے گا۔ امید ہے کہ بچے بھی مل جائیں مجھے۔"
اس نے ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا تو ناشتا کرتے تینوں نفوس کے ہاتھ رُک گئے۔ ابو نے ناراضی سے امی کی جانب دیکھا اور ناشتا چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔
"ابو کو کیا ہوا؟"
طیبہ نے امی اور بھائی کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
میز پر ناشتا رکھتی بھابھی نے اسے اچھنبے سے دیکھا اور منہ بنا کر کمرے میں چلی گئیں۔
"طیبہ ! اتنا بڑا فیصلہ یوں جلدی میں کرنا حماقت ہے سراسر۔۔۔! "
اس کے بڑے بھائی بولے۔
"نہیں بھائی میں فیصلہ کر چکی ہوں۔ حماد کا مزاج بہت عجیب ہوگیا ہے۔ اس سے بعید نہیں کہ مجھ پر ہاتھ ہی اٹھانا شروع کردے۔"
طیبہ نے جلدی سے کہا۔
"اور بچوں کو بھی فی الحال باپ کے پاس ہی رہنے دو، نہیں سنبھال پائے گا تو لے جائے گا تمھیں خود ہی۔"
بھائی بولے۔
"چار ماہ سے تو سنبھال ہی رہا ہے۔ دن بھر دادی کے گھر میں خوش رہتے ہیں بچے۔ رات میں واپسی پر حماد انہیں گھر لے آتا ہے۔"
طیبہ نے کہا۔
"بچے خوش ہیں تو تمھیں کیا مسئلہ ہے۔ رہنے دو انہیں وہیں۔"
بھائی بولے اور چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ہمم تو یہ مسئلہ ہے۔ میرے بچوں کو نہیں برداشت کیا جائے گا یہاں۔"
طیبہ نے بےبسی سے امی کی طرف دیکھا۔
"بیٹا ایسی بات نہیں۔ حارث اکیلا کمانے والا ہے اس کے اپنے تین بچے اور پھر تمھارے دو۔ کیسے ہوگا سب۔"
امی نے گتھی ہی سلجھادی۔
"اوہ۔۔۔!!! میں زیادہ دن بوجھ نہیں بنوں گی امی۔ پڑھی لکھی ہوں جلد ہی کوئی نوکری مل جائے گی مجھے۔"
طیبہ بولی اور جانے کی تیاری کرنے لگی۔
"ارے ناشتا تو کرو طیبہ!"
امی نے پکارا۔
" امی بھوک نہیں مجھے۔"
طیبہ نے کہا اور جانے کی تیاری کرنے لگی۔
آج غصے میں اس نے ابو کو بھی ساتھ چلنے کا نہیں کہا اور گھر سے نکل گئی۔
اسٹاپ پر پہنچ کر رکشے والے سے کرایہ طے کیا اور کورٹ روانہ ہوگئی۔
وکیل سے ملاقات پر معلوم ہوا کہ حماد کا ابھی فون آیا ہے کہ وہ آج کورٹ نہیں آسکے گا کیونکہ رات اس کا بیٹا گرگیا تھا اور بچے کو چوٹیں وغیرہ آئی ہیں۔
"کیا۔۔۔!!! مگر کیسے؟ "
طیبہ روہانسی ہوگئی۔
"بی بی یہ تو مجھے معلوم نہیں۔"
وکیل نے جواب دیا۔
کئی ماہ بعد وہ آج حماد کا نمبر کانپتے ہاتھوں سے ملا رہی تھی۔ دوسری بیل پر ہی فون اٹھالیا گیا۔
"میرا بچہ۔۔۔ میرا انس کہاں ہے؟ کیا ہوا اسے؟ وہ ٹھیک ہے نا؟
طیبہ نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔
"آگیا خیال بچوں کا؟"
دوسری طرف سے طنزیہ لہجے میں پوچھا گیا۔
"کیسی باتیں کررہے ہو؟ میں ماں ہوں۔"
طیبہ رو دینے کو تھی۔
"ماں ہو جبھی اتنے ماہ سے بچوں سے الگ ہو۔"
لہجہ ہنوز طنزیہ تھا۔
"حماد میں بحث کے موڈ میں نہیں، کہاں ہو تم اس وقت؟"
طیبہ بےقراری سے بولی۔
"گھر پر ہوں۔"
حماد کی پوری بات سنے بغیر طیبہ نے کال کاٹ دی اور دیوانہ وار باہر کو لپکی۔ انا کی دیوار کو دراڑ پڑ چکی تھی۔
دروازہ حماد نے ہی کھولا، طیبہ آناً فاناً اندر داخل ہوئی۔ بےترتیب اجڑا اجڑا گھر، ہر شے گویا نوحہ کناں تھیں۔ اسے سچ مچ لگا کہ اس کا آشیانہ بکھرنے کو ہے۔ یہ وہی چھوٹا سا فلیٹ تھا جس کے کونے کونے کو اس نے اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا۔
دونوں بچے بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انس کے سر اور ہاتھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ طیبہ کے دل کو کچھ ہوا۔
چار سالہ انس اور ڈھائی سالہ عنایہ ماں کو دیکھ کر ماما ماما پکارنے لگے۔
"کیا ہوا ہے اسے؟"
طیبہ نے حماد سے پوچھا۔
"کل رات باتھ روم میں گرگیا تھا۔"
حماد نے کہا۔
"مگر کیسے؟ تم ساتھ نہیں تھے؟"
طیبہ تڑپ اٹھی۔
"ایک عدد بچی بھی ہے ، جو رو رہی تھی۔ انس کو دیکھتا یا عنایہ کو۔ ایک وقت میں دونوں"ہینڈل" نہیں ہو پارہے تھے۔"
حماد کی زبان سے سچ پھسل ہی گیا۔ انا کی دیوار میں شگاف واضح دکھائی دیا۔
"ماما آپ آگئیں۔ اب مت جانا مجھے چھوڑ کے۔"
انس بولا۔
ننھی عنایہ تو ماں کے گلے لگ کر رونا ہی شروع ہوگئی۔ اس نے حیرت سے عنایہ کو دیکھا۔
"کیا ہوا میری جان!!!"
"ماما !! عنایہ رات میں بھی روتی ہے، کہتی ہے ماما پاس جانا ہے اور بابا کے ہاتھ سے فیڈر بھی نہیں پیتی۔"
انس معصومیت سے بولا، گویا ماں کو روکنا چاہتا ہو۔
بچوں اور گھر کی حالت سے طیبہ کا دل پسیج گیا اور وہ بچوں کو ساتھ لگائے زور زور سے رونے لگی۔ انا کی دیوار لرزی تھی۔
"اب رو کیوں رہی ہو؟ "سنگل پیرنٹ" کے بچے ایسے ہی پلتے ہیں۔ ایسی ہی چوٹیں لگتی ہیں انہیں۔"
حماد بولا۔
"اللہ نہ کرے انہیں کبھی چوٹیں لگیں۔"
طیبہ تڑپ کر بولی۔
انس نے طیبہ کا دوپٹا زور سے پکڑا ہوا تھا۔ گویا اسے ڈر ہو کہ وہ چلی جائے گی۔
"عنایہ ماما پاس سونا۔"
ننھی عنایہ توتلاتے ہوئے بولی تو معصوم سی آنکھوں میں کئی سوالات تھے۔
طیبہ اپنے معصوم بچوں کی سوالیہ نظروں کی تاب لانے سے قاصر تھی۔ انا کی دیوار جگہ جگہ سے چٹخنے لگی تھی۔
"ان معصوموں پر رحم نہیں آرہا؟"
حماد اس کے قریب آ بیٹھا۔
"حماد۔۔۔!!!"
طیبہ سے آنسوؤں کی برسات میں کچھ بولا ہی نہ گیا۔
"اچھا رو مت۔ ہمارے ایک استاد کہتے تھے کہ جب عورت رو دے تو مرد کو سارا قضیہ سمیٹ دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ خدا سے زیادہ طاقتور نہیں ہے جو مکھی کے سر کے برابر آنسو سے سات سمندر کے جھاگ جتنے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔"
حماد نے بےاختیار کہا اور اس کے آنسو صاف کردیے۔
دونوں بچوں کے پھول جیسے چہروں سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔
"ماما لڑائی تو بری بات ہوتی ہے نا۔۔ آپ دونوں دوستی کرلیں اور کان پکڑ کر سوری کرلیں۔"
انس معصومیت سے بولا تو حماد نے بھی تائیداً سر ہلایا اور شرارت سے طیبہ کے کان پکڑ لیے۔
"ہٹیں۔۔۔ بہت برے ہیں آپ۔"
انا کی دیوار ریزہ ریزہ ہوگئی۔۔
طیبہ نے حماد کو پرے دھکیلا تو دونوں بچے زور زور سے ہنسنے لگے اور طیبہ کو لگا کہ کائنات کی ہر شے مسکرا رہی ہو۔