اپنے شوہروں کے اکھڑے رویے سے تنگ کچھ خواتین ایسے شخص کے جال میں پھنس جاتی ہیں جوپہلے نرمی اور ملائمت سے گفتگو کرکے اپنا گروید بناتا ہے۔ پھر بھیڑیا صفت کمینے پن کا مظاہرہ کرکے انہیں بھنبھوڑڈالتا ہے ۔
شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی
شادیاں ناکام ہونے کی سب بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ جب زوجین کے مابین رومانس ختم ہو جاتا ہے تو پھر اس وقت شادی یا پیار کا رشتہ قائم نہیں رہ پاتا۔ تین لفظوں کی ڈور سے جڑا یہ نازک بندھن کوئی ایسا ویسا رشتہ اور نہیں ہوتا کہ نہیں ملے ، روٹھ کر بیٹھے رہے تھے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میاں بیوی کا رشتہ جسم و جاں کا تعلق ہے۔
جب تک یہ تعلق قائم رہے گا رشتہ برقرار رہے گا جوں جوں یہ تعلق کوتاہی، بےزاری یا اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے یہ رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے یہ سلسلہ شاید ایک پتنگ کی مانند ہوتا ہے جس کی اڑان میں تسلسل رکھنے کے لیے ڈور سنبھالنے والے کا ہوشیار، چوکنا اور موقع شناس ہونا اشد ضروری ہے۔ وگرنہ ادھر نظر چوکی اور ادھر بو کاٹا۔ ذرا سی غفلت اور عجلت اس پاک پوتر دھاگے سے بھی زیادہ نازک رشتے کی ڈور کو ایک لمحے میں توڑ دے گی۔ یہ رشتہ ایک گاڑی کی طرح ہے جسے چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے اور رومانس ازدواجی تعلقات کی گاڑی کو چلانے کا واحد ایندھن ہے جو اس رشتے کو دوام بخشتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سی شادیاں ابتدائی دنوں میں ہی ناکامی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہیں۔ کیوں کہ زوجین کی اپنی اپنی انا ہوتی ہے اور وہ اسے برقرار رکھنے پر مصر ہوتے ہیں وہ کسی طور بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کا شریکِ حیات ان پر غلبہ حاصل کر لے۔
چونکہ ہم میں سے ہر ایک خود کو منفرد اور ممتاز شخصیت کا مالک گردانتے ہوئے اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اسے کسی کے غلبے کی ضرورت نہیں یا وہ کسی کو اپنے اوپر تسلط قائم کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں خود مختار ہے۔ بس اس سوچ اور نظریے کے بعد زوجین کے مابین تناؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے شادی شدہ زندگی میں کڑواہٹ گھلتی چلی جاتی ہے اور شادیاں سست، بے رنگ اور بالآخر ناکام ہونے لگتی ہیں۔
یاد رکھیں وہ شادی جو کچھوے کی طرح سست رفتاری سے چلتی رہے، جس تعلق میں وارفتگی، جوش و ولولہ ناپید ہو، جس میں آگے بڑھنے کی لگن نہ ہو جس میں رومانس نہ ہو، جس میں ایک دوسرے کے جذبات واحساسات سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، جو رشتہ طلب، تڑپ اور بے خودی سے عاری ہو ، یا جس میں ایک لگی بندھی روبوٹ نما زندگی ہو تو ایسی شادی کے ڈانڈے بے وفائی، بدنیتی اور اپنے ساتھی سے دھوکے سے جا کر ملتے ہیں۔ اپنے ساتھی سے بےوفائی کرنا رسوائی و جگ ہنسائی کا سبب بن کر دنیا و آخرت برباد کر دیتا ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ آپ کے شریک حیات کو وقتی ہیجان اور عالم تنہائی میں کوئی ایسا ساتھی مل گیا ہو یا مل گئی ہو جس کے کندھے پر سر رکھ کر اس نے اپنا حال دل سنایا ہو، جس کے ساتھ قرب کے چند لمحے اس نے گزار بھی لیے ہوں لیکن یہ صرف ایک طویل رفاقت کو ختم کرنے کا بہانہ ہے۔ آج کی برق رفتار اور مشینی زندگی میں محبت و الفت اور وفا داری نہایت تیزی سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تا دم مرگ نبھائے جانے والی شادیاں بدقسمتی سے قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ یعنی کامیابی کے ساتھ مکمل رفاقت کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے۔
یقیناً ہم میں سے ہر ایک نئی منزل ، نئے جوش و جذبے اور ایڈونچر کی کھوج میں رہتا ہے۔ سو بجائے اس کے کہ شادی کو خوشی و راحت کا وسیلہ سمجھا جائے شادی کے بعد بے رنگ و بے کشش ، یکسانیت کا شکار اور بے زار محسوس ہونے لگتی ہے۔ جبکہ جوش و ولولہ وہاں سے حاصل ہوتا ہے جہاں فریقین میں گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جائے۔
ہمارے یہاں محبت کے بارے میں ایک بہت بڑا غلط تصور قائم ہے کہ یہ ہمیشہ رہتی ہے اس کو کبھی زوال نہیں آتا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے محبت کو ہر پل ہر لمحہ اپنی موجودگی کا احساس اجاگر کرتے رہنا چاہیے۔ محبت اور خلوص کی باقاعدہ پرورش کی جاتی ہے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے ایک ساتھ وقت گزارا جاتا ہے۔ آپ محبت تو کررہے ہیں، آپ کے شریکِ زندگی کو بھی آپ سے محبت ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ آپ کے سوا کسی اور کی طرف دھیان نہیں دے گا/ دے گی؟ ہم میں سے اکثر لوگ اس معصوم اور قدرے بے وقوفانہ تصور میں جکڑے رہتے ہیں کہ چونکہ ہمیں اپنے شریکِ حیات سے شدید محبت اور لگاؤ ہے۔ اور اس پر اندھا اعتماد یے۔ اسی لیے وہ باہر کے حالات و واقعات سے متاثر نہیں ہوگی/ ہوگا۔
کوئی پتھر پر لکیر نہیں کہ بے وفائی کی ابتداء کسی اور سے جسمانی قرب کے ذریعے ہی ہو۔ بنیادی طور پر یہ ایک ذہنی اور قلبی اور بسا اوقات روحانی قسم کا لگاؤ ہوا کرتا ہے۔ ایسا لگاؤ ، ایسی چاہت یا توجہ جو اپنے جسم و جاں کے ساتھی سے چاہ کے بھی نہیں مل پاتی۔ اس معاملے میں بھی تخصیص ہے۔ عموما مرد حضرات جسمانی جبلت کی تسکین کے لیے ایسی چاہت کا آغاز کرتے ہیں جبکہ خواتین عام طور پر ہمدردی کے دو میٹھے بول، ذرا سی توجہ اور جذباتی سہاروں کی طلب میں اس قسم کی حماقت و نادانی کر بیٹھتی ہیں۔ یعنی ان دونوں کے رویوں میں فرق ہوا کرتا ہے۔
شوہر صاحب کی توجہ اور محبت کی بوند بوند کو ترستی اکثر خواتین کسی ایسے شخص کی متلاشی رہتی ہیں، جو تسلی اور مکمل توجہ کے ساتھ ان کے دکھڑے سن سکے، انہیں سمجھ سکے اور انہیں مکمل تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے ان کی عزت اور احترام بھی کرے۔
پھر اکثر خواتین اپنی خوبصورتی اور دل کشی کے زعم میں مبتلا ہو کر اپنے ہم نشین و ہم سفر کو دھوکا دینے لگتی ہیں۔ اور کچھ خواتین اپنی زندگی کے ساتھی کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی خود کو تنہا اور اکیلا محسوس کرتی ہیں اور انہیں ایک ایسے سچے ہمدرد اور خیر خواہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے کندھے پر سر رکھ کر وہ اپنا ہر غم بھول کر کھل کر مسکرا سکیں۔
کئی خواتین اپنے شوہروں کے اکھڑے رویے ، ترش کلامی اور الزامات سے تنگ آکر ایسے شخص کی تلاش میں رہتی ہیں جو مہذب اور شائستہ ہو۔ جو نہایت نرمی اور ملائمت سے گفتگو کرسکے اور انہیں ایسی توجہ کی بھوک در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اور پھر تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر بھیڑیا صفت مرد ایسی لرزی ترسی عورت کو بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔
شوہر حضرات اپنی ہم نشیں سے جسمانی قربت اور تسکین کے سلسلے میں شاکی رہتے ہیں ۔ کچھ کا شکوہ شاید بے جا ہو لیکن بہت سوں کی شکایت بجا ہوتی ہے اس بابت بھی بیوی کو سوچنا چاہیے ۔ خاص طور پر جس معاشرے میں حضرات کی دوسری شادی ایک بہت مشکل مہم اور ایڈونچر کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔ اگر اس شکایت کا سلسلہ دراز ہونے لگے تو نقصان کا اندیشہ بڑھنے لگتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ خواتین بچوں اور گھر کی مصروفیات میں گم ہو جاتی ہیں ۔ بلکہ وہ اپنی ذات اور بننے سنورنے کو بھی بھول جاتی ہیں ، شوہر کی طرف ان کی توجہ خوراک اور لباس کی فراہمی تک ہی رہ جاتی ہے۔ بیوی کے لیے ہر حالت میں سب سے پہلے شوہر ہونا چاہیے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مسلسل پیار ، رومانس ، مستقل اظہارِ محبت ، ایک دوسرے کے دکھ درد اور کیفیات و جذبات کو سمجھنا اور محسوس کرنا ہی شادی کے رشتے کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔