اب ان دونوں پر ایک شادی شدہ نند کی ان چاہی ذمہ داری بھی آن پڑی تھی۔دو وقت کے کھانے کے عوض وہ بھابھیوں کے کئی کام نمٹا دیتی کبھی بچوں کے کپڑے سی دیتی تو کبھی ابا نے جو اس کے خرچے کےپیسے ہاتھ پر رکھے تھے اس سے بچوں کو بسکٹ ٹافی منگاکر کھلادیتی۔جو بھائی پہلے اس کے لاڈ اٹھایا کرتے تھے اب بڑے ہی روکھے پھیکے انداز میں حال احوال پوچھتے۔۔

بنت مسعود احمد
(آخری قسط)

آج دو ماہ کی وارننگ کے بعد بجلی والے ان کی بجلی کاٹ گئے تھے۔دن بھر سخت گرمی تھی ،رات کو حبس پھر مچھروں کی بہتات۔۔۔سیمی کو پنکھا جھلتے کب اس کی آنکھ لگی اور کب عمار گھر آیا اسے کچھ پتانہیں چلا۔
صبح اٹھی تو فضہ اپنے گھر جانے کو تیار بیٹھی تھی، دونوں بچے بھی بےزار ہوۓ بیٹھے تھے اماں دودھ ناشتا لے کر آچکی تھیں اس نے جلدی سے چاۓ بنائی سب نے ناشتا کیا عمار اور سیمی اب تک سوۓ تھے۔
"ناعمہ میں ذرا فضہ کو اس کے گھر چھوڑنے جارہی ہوں۔۔۔کیا پتا آج رات رک جاؤں۔"انہوں نے بہو کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور دونوں بچوں کا ہاتھ تھامے جانے کے دروازے کی طرف بڑھ گیئں۔ناعمہ کیا کہہ سکتی تھی وہ جانتی تھی اماں سے گرمی برداشت نہیں ہوتی اور لائٹ غیر معینہ مدت تک کے لیے بند ہوچکی تھی ساس کا قیام بیٹی کے گھر طویل بھی ہوسکتا تھا۔ ★**★
اماں کو گئے تیسرا دن تھا اور وہ ابھی مزید کچھ دن وہیں رہنا چاہ رہی تھیں۔ٹنکی میں چڑھا پانی بھی اب تو ختم ہوچکا تھا وہ ٹینک سے پانی نکال کر استعمال کر رہی تھی، جو تھوڑا بہت راشن آیا تھا، وہ بھی ختم ہونے کے قریب تھا۔عمار کی لاپروائی عروج پر تھی۔لائٹ کٹی ہے تو کٹی رہی۔۔۔اور وہ کیا کرسکتا تھا بل بھرنے کے لیے سولہ ہزار کی رقم وہ کہاں سے لے آتا جب کہ کوئی کام دھندہ اسے راس نہ تھا۔روز کا آدھا کلو دودھ اور سیمی کے لیے پراٹھا۔۔۔بس اتنا ہی خرچ وہ اٹھا سکتا تھا۔اس دن اتنی گرمی تھی اس نے سیمی کو نہلانے کے لیے بڑی مشکل سے ٹینک سے بالٹی بھر کر نکالی پھر اپنے لیے بھی وہ ڈول کی مدد سے بالٹی بھرنے لگی ہی تھی کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جاکر جونہی دروازہ کھولا اماں ابا کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔
جلدی سے انہیں لاکر کمرے میں بٹھایا۔اتنی گرمی میں گھر میں ٹھنڈا پانی بھی میسر نہ تھا۔وہ مٹکے سے پانی بھر کر لائی اور انہیں دیا۔اماں ابا کسی کام سے گھر سے نکلے تھے راستے میں سوچا نواسی سے سے ملتے چلیں۔ "لائٹ کب سے گئی ہوئی ہے؟"
ابا کے سوال پر ابھی اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ سیمی پہلے بول پڑی۔ "نانا جی تین دن ہوگئے، ہمارے گھر کی لائٹ بجلی والے بند کرکے چلے گئے۔" "کیوں خیریت ؟"
"ہمارا بل نہیں بھرا نا کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے۔"سیمی کی زبان فراٹے بھر رہی تھی۔ "سیمی خاموش ہوجاؤ تمہیں کیا پتا ابھی تم چھوٹی ہو۔"اسے سیمی پر غصہ آنے لگا۔ "کیا ہوا عمار کام پر جارہا ہے یا پھر چھوڑ دیا کام؟" "جی جارہے ہیں مگر۔۔۔"
"کتنی کمزور ہورہی ہے میری بچی۔۔ ایک مہینے سے اوپر ہوگیا ہے، ماں کے گھر چکر تک نہ لگایا۔پھر اب یہ لائٹ بھی کٹ گئی ہے کیسے گزارہ ہورہا ہے اور تمہاری ساس کہاں ہیں؟"اماں کو گڑبڑ کا احساس ہوچکا تھا حالانکہ وہ تو بھرم رکھنے کی پوری کوشش میں لگی تھی۔
"دادو تو پھوپھو کے یہاں رکنے گئیں ہیں کیونکہ ہمارے ابو پیسے لے کر نہیں آتے نا۔" "سیمی بہت بولنا آرہا ہے۔چپ کرو تم۔"وہ جو باتیں دادی کے منہ سے سنتی تھی، وہی سب کے سامنے کہہ رہی تھی اور وہ اماں ابا کے سامنے شرمندہ ہوئی جارہی تھی۔
"ناعمہ کیا بات ہے بیٹی کھل کر بتاؤ۔"ابا سنجیدگی سے بولے۔عام حالات ہوتے تو وہ منہ سے کچھ نہ کہتی اسے شوہر کی عزت کا خیال تھا اور والدین کا دل دکھانا بھی منظور نہ تھا مگر اب ابا کے پوچھنے پر اس نے مختصرا گھر کی ساری بات ان کے سامنے رکھ دی۔
"مجھے حیرت ہے وہ بہو اور پوتی کو چھوڑ کر بیٹی کے یہاں رہ رہیں ہیں جب کہ جانتی ہیں کر بیٹا کماکر لانے والوں میں سے نہیں۔"امی کو اس کی داستان سن کر دکھ اور حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
"چلو ابھی تو فی الحال ہمارے ساتھ گھر چلو۔۔۔"ابا دو ٹوک انداز میں بولے۔
"ابھی کچھ دیر میں سیمی کے ابو آجائیں ان سے پوچھ لوں۔"وہ منمنائی۔
"اب عمار سے جب ہی بات کریں گے جب وہ خود تمہیں لینے آۓ گا۔جلدی سے کچھ کپڑے بیگ میں رکھ لو۔۔' ابا کا حکم اسے ماننا ہی پڑا۔
★***★ اس نے گھر بند کرکے تالا لگایا اور گھر کی چابی برابر والی خالہ جی کو دے آئی۔ "تم کس کی اجازت سے یہاں سے گئی ہو؟"چند گھنٹے بعد ہی اس کے نمبر بر کال آئی دوسری طرف اس کا شوہر تھا۔ "اماں ابا مجھے لے آۓ ہیں آپ ان سےبات کریں۔" اس کی بات سن کر عمار نے فون بند کردیا۔ ★***★
وہ کیا بات کرسکتا تھا اس میں اتنی ہمت ہی کہاں تھی۔۔۔رات کو ابا نے اس کے تینوں بھائیوں کو بٹھاکر ساری بات ان کے سامنے رکھی کہ تمہاری اکلوتی بہن کے ساتھ اس کی سسرال میں یہ سلوک ہورہا ہے اور وہ سب کچھ خاموشی سے جھیل رہی ہے۔۔ہم اچانک پہنچے تو یہ دل دکھا دینے والے معاملات تھے۔ میں کچھ دن کے لیے اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا ہوں۔تمہارا کیا مشورہ ہے؟"
"ابا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔بے شک ناعمہ ہم پر بوجھ نہیں مگر وہ اس کے نکاح میں ہے۔ ہماری دخل اندازی خدا نخواستہ کہیں ان کے رشتے میں کوئی دارڑ نہ پڑجاۓ۔"بڑے بھیا بولے۔ "بھیا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔میرے خیال سے عمار اور ان کی والدہ کو بلاکر بات کرنی چاہیے۔بہن کو گھر میں بٹھانا مسئلے کا حل نہیں۔"
میری بچی کس طرح وہاں گزارا کر رہی ہے میرا دل کٹ رہا ہے۔۔۔تم بھائی ہو اس کا سہارا بنو۔۔۔چپ چاپ کچھ دن صبر کرو۔۔اگر اسے اس رشتے کی اہمیت ہوگی تو وہ خود چل کر آۓ گا۔۔۔ورنہ میری بیٹی اب دوبارہ اس گھر میں نہیں جاۓ گی۔" ابا کی بات سن کر پھر تینوں خاموش ہوگئے۔ ★**★
اور یوں اسے ماں باپ کے گھر آۓ پندرہ روز ہوچلے تھے اس کی ساس اور شوہر کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔دونوں بھاوجوں کا رویہ رسمی سا تھا۔ایک دن بڑی بھابھی اماں ابا کا کھانا دیتی تھی تو دوسرے دن دوسری ۔۔۔۔اب ان دونوں پر ایک شادی شدہ نند کی ان چاہی ذمہ داری بھی آن پڑی تھی۔دو وقت کے کھانے کے عوض وہ بھابھیوں کے کئی کام نمٹا دیتی کبھی بچوں کے کپڑے سی دیتی تو کبھی ابا نے جو اس کے خرچے کےپیسے ہاتھ پر رکھے تھے اس سے بچوں کو بسکٹ ٹافی منگاکر کھلادیتی۔جو بھائی پہلے اس کے لاڈ اٹھایا کرتے تھے اب بڑے ہی روکھے پھیکے انداز میں حال احوال پوچھتے مگر اس کے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔اب سیمی کی طبعیت خراب تھی تو اسے مجبوراً گھر سے نکلنا پڑگیا۔ جب وہ ڈاکٹر کو دکھاکر گھر پہنچی تو گھڑی کی سوئیاں دس کا ہندسہ عبور کرچکیں تھیں۔ اسی وقت ٹرے میں کھانا سجاۓ بڑی بھابھی اندر آئیں۔
"کہاں رہ گئی تھیں؟ میں دو بار آچکی ہوں تمہارا کھانا لے کر۔"وہ جتلاکر مصروف سے انداز میں بولیں۔ "بس بھابھی رش بہت تھا پھر ڈاکٹر بھی نو بجے کے بعد آئیں۔" "تم اکیلے ہی نکل گئیں۔۔تمہارے بھائی آچکے تھے ان کے ساتھ چلیں جاتیں۔" "میں نے سوچا تھکے ہارے آئیں گے کیا تکلیف دوں۔" "بہن تکلیف کو چھوڑو تم جب تک اس گھر میں ہو ہماری ذمے داری ہو پھر یہ بچی اسی کا خون ہے کل کلاں کو کچھ ہوجاتا ہے تو وہ تو ہمیں ہی موردالزام ٹھہراۓ گا نا۔" اماں ابا اپنے کمرے میں لیٹ چکے تھے اور وہ باہر پیسج میں دہرے صوفے پر بیٹھی بھابھی کی ذومعنی باتیں سن بھی رہی تھی اور سمجھ بھی رہی تھی۔ ★***★
کیا ہے ایک مجبور عورت کی زندگی بھی۔۔رات کو سونے لیٹی تو بے بسی کے مارے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے خود سے سوال کیا اور جواب نہ پاکر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
ایک طرف شوہر ہے جو لاپروائی کی آخری حدود پر کھڑا ہے اور دوسری طرف اس کی بیٹی ہے جو باپ کی محبت میں بخار میں تپ رہی ہے۔جس کے ہونٹوں پر بس بابا بابا کی پکار ہے ۔
نانا ماموں کے گھر آکر بےشک وہ صبح و شام اپنی من پسند چیزیں کھا پی رہی ہے پر جو لاڈ اور محبت اسے باپ کی جانب سے ملتی تھی وہ اس سے محروم ہے۔وہ آہستہ آہستہ اپنی خود اعتمادی کھورہی ہے اور احساس کمتری اسے اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے وہ بہت غور سے سیمی کے بدلتے رویے کو دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ ایسے حالات بچے کی شخصیت اور اس کے محسوسات کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بیوی ہونے کے ناتے عمار کو برداشت کرنا ۔اس کی لاابالی طبیعت کے باعث کسمپرسی کی زندگی میں صبر و شکر سے رہتے رہنا مشکل ضرور ہے پر ناممکن تو نہیں۔۔۔میری بیٹی کو باپ سے جدائی کا غم کھارہا ہے وہ اکیلی ہوتی تو شاید عمار کو چھوڑنا اتنا مشکل نہ ہوتا پر وہ خود غرض نہ تھی وہ ایک ماں تھی جو اولاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔
سوچوں کا جوار بھاٹا اسے جلائےدے رہا تھا اور اس وقت اس کے جی میں آیا کہ یہ نرم گرم بستر چھوڑ کر بچی کے ساتھ رات کی تاریکی میں ہی اپنے گھر کی راہ لے۔۔۔ماں باپ اپنے تھے پر یہ گھر اب پرایا ہوچکا تھا یہ بات وہ چند دنوں میں ہی جان چکی تھی جو اپنائیت اسے اپنے گھر میں محسوس ہوتی تھی وہ یہاں نہ تھی ۔زندگی کے بائیس سال جو اس نے اسی گھر میں گزارے تھے وہ محض چھ سالوں میں اجنبیت کا لبادہ اوڑھ چکے تھے۔ اس نے ایک فیصلہ کیا اور مطمئن ہوکر سوگئی۔ ★**★
سورج نے مشرق سے جیسے ہی سر نکلا وہ اس کے چہرے پر بہتی آنسوؤں کی لکیروں کو دیکھ کر افسردہ ہوگیا۔ دعا مانگ کر اس نے جاۓ نماز تہ کرکے رکھی اور آہستگی سے اٹھ کر اپنی چیزیں بیگ میں رکھنے لگی۔وہ بڑے دنوں بعد خود کو ہشاش بشاش محسوس کررہی تھی۔سیمی بڑے مزے سے اپنے بستر میں سورہی تھی۔وہ یہ سوچ کر خوش ہوۓ جارہی تھی کہ سیمی کتنی خوش ہوجاۓ گی جب اسے پتا لگے گا کہ آج ہم اپنے گھر جارہے ہیں مگر اسے ابا کی طرف سے دھڑکا تھا کہ وہ ناراض نہ ہوں ۔
اپنی انا کو روندنا اتنا آسان نہیں ہوتا نہ ہی بغیر غلطی کئے غلطی تسلیم کرنا سہل ہے مگر وہ دونوں کام کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکی تھی اس نے ٹھان لی تھی کہ اسے اپنا گھر بچانا ہے۔ہمارے معاشرے میں عورت کے لیے طلاق ایک داغ ہے۔۔۔عمار میں چند برائیاں ضرور تھی مگر وہ اب صرف اس کا شوہر تو نہ تھا کہ چند برائیوں کو وجہ بناکر وہ اس سے جان چھڑالیتی وہ اس کی بیٹی کا باپ بھی تھا جس کے لیے وہ اپنی جان بھی قربان کرسکتی تھی۔ اس نے ہر طرح غور و فکر کرکے دیکھ لیا تھا وہ یونہی واپسی کا سفر کرنے کے لیے اٹھ کھڑی نہیں ہوئی تھی۔۔۔عمار کو چھوڑ کر اس کا مستقبل کیا تھا؟؟؟طلاق یافتہ ہونے کا لیبل۔۔۔پھر یہاں رہ کر وہ بھائی بھابھیوں کے روکھے پھیکے رویے دیکھ چکی تھی۔۔۔
اور جس طرح احساس کمتری سیمی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی وہ آگے چل کر اس کی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ۔۔۔پھر اگر کوئی زور زبردستی اس کی شادی کروانے کھڑا ہوجاتا تو کیا گارنٹی ہوگی کہ سیمی کو باپ کا پیار وہ تحفظ بھی میسر آجاۓ گا جو ایک سگا باپ اسے دے سکتا ہے۔۔۔
وہ مشکل حالات سے منہ موڑنے والوں میں سے نہ تھی. وہ ایک پر عزم اور باہمت لڑکی تھی اس نے بہت سے لڑکیوں کو میکے سسرال کے درمیان رلتے دیکھا تھا وہ جانتی تھی بیاہی بیٹی کنواری بیٹی سے زیادہ بوجھ محسوس ہوتی ہے۔
★***★ وہ کمرے سے باہر نکلی تو ابا نماز پڑھ کر آچکے تھے اور اماں کچن میں چاۓ بنارہی تھی۔ اماں آپ بیٹھیں میں کر لیتی ہو وہ ماں کو کمرے میں بھیج کر خود چاۓ نکالنے لگی اس نے سوچا کہ ابا اماں سے وہ ابھی بات کرلے گی اور انہیں راضی کرلے گی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی ۔
ابا نے جاکر گیٹ کھولا اور لانے والے کو اپنے ساتھ لئے بیٹھک میں چلے گئے۔
"اس وقت کون ملنے آگیا؟" اس نے خود کلامی کی اور چاۓ ایک اور کپ میں انڈیلی اور ٹرے میں چاۓ کے دو کپ اور ناشتے کے لوازمات رکھ کر ابا کو آواز دی۔
اس کے ہاتھ سے ناشتے کی ٹرے لے کر ابا واپس اندر چلے گئے وہ اور اماں ساتھ ناشتہ کرلینے لگی۔ "اتنی صبح صبح کون ملنے آگیا؟"
پتا نہیں۔۔اس نے یہ کہہ کر بات شروع کی۔
"اماں ایک بات کہوں۔۔۔"
"ہاں بولو۔۔" "میں نے ایک فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔" "کیسا فیصلہ۔۔۔؟" "یہی کہ میں اپنے گھر واپس چلی جاؤں گی۔" "اچھھھا۔۔۔اور وہاں جاکر کیا ملے گا۔۔۔؟تھوڑے دن یہیں رکی رہو چین سے۔۔۔ تمہاری ساس اور شوہر کو کچھ احساس نہیں ہے۔۔۔کم ازکم تمہیں انسان تو سمجھیں۔۔۔"
"اماں چھوڑیں بھی۔۔ ہر لڑکی کو ہی بہت کچھ سہنا پڑتا ہے تب جاکر گھر کی گاڑی چل پاتی ہے۔" "میری بچی مجھے انکار نہیں۔۔نہ میں تمہارا گھر خراب کرنا چاہتی ہوں مگر جس طرح ان لوگوں نے تمہیں چھوڑ رکھا تھا ہمارے لیے دکھ کا باعث ہے ہم اس لیے تمہیں لے آۓ کہ تمہاری ساس بیٹے کے ساتھ آئیں گی کچھ بات چیت ہوگی پھر تمہیں واپس بھیج دیں گے۔انہیں یہ تو ہو کہ ہمیں بیٹی کی فکر ہے۔ اب دیکھ لو پندرہ دن سے اوپر ہوچکے ہیں انہوں نے پلٹ کر بھی نہ پوچھا۔"اماں کی باتیں تلخ تھیں پر وہ سچ کہہ رہی تھیں۔
"وہ پوچھیں نہ پوچھیں مگر میں اپنا گھر بچانے کی خاطر اور سیمی کے لیے خود چلی جاؤں گی۔۔۔وہ روہنسی ہوگئی۔ "تھوڑے دن اور رہ لو کیا پتا۔۔"۔اماں کے لہجہ میں آس کا جگنو ٹمٹمایا۔ "اماں آج کل جیسا دور ہے نا وہاں چند دن کا انتظار کہیں طلاق کی صورت ہی نہ مل جاۓ۔۔۔۔یہ جیسے بھی ہیں مجھے ان کا ساتھ قبول ہے۔۔۔پرفیکٹ تو کوئی نہیں ہوتا۔"
"جیسی تمہاری مرضی میں اس معاملے میں زور زبردستی نہیں کروں گی۔۔۔مگر یاد رکھنا اب دوبارہ کبھی کوئی شکایت لے کر نہ آنا۔۔۔"
"میں نے پہلے بھی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔"وہ آئستگی سی بولی۔ "ہاں مگر زندگی وہاں مشکل تو تھی نا۔۔۔؟"ان کی آنکھوں میں آنسوؤں تیرگئے۔ وہ بھی تو ایک ماں تھیں اور اپنی ناز ونعم میں پلی اکلوتی بیٹی کی بے بسی کو خوب سمجھ رہیں تھیں مگر مجبور تھیں کہ کاتب تقدیر کے آگے ماؤں کی مرضی تو نہیں چلا کرتی ہاں دعا کا سہارا وہ مضبوطی سے تھامے ہوئیں تھیں جو تقدیر پر بھی غالب آجاتا ہے۔ ان کے بیٹوں اور بہوؤں کا رویہ کوئی ان سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔۔۔اگر اس کے بھائی چاہتے تو بہنوئی کو بلاکر اکلوتی بہن کے لیے بات کرسکتے تھے اسے سمجھا سکتے تھے اسے یہ باور کراسکتے تھے کہ ہماری بہن کوئی لاوارث نہیں ہے کہ اس کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کرتے رھو۔۔۔مگر وہ ایسا تب کرتے جب بہن کا درد ہوتا وہ سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن اور خوش تھے۔
انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔۔۔اور کہا۔۔۔"ٹھیک ہے میں اور تمہارے ابا تمہیں چھوڑنے چلیں گے۔" ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہی رہیں تھیں کہ ابا نے اسے آواز دی۔ "جی ابا ۔۔۔"وہ بیٹھک کے دروازے پر آکر پوچھنے لگی۔ "اندر آجاؤ۔۔۔"
اس نے جھجھک کر اندر قدم رکھا۔۔۔عمار سرجھکاۓ ابا کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا تھا۔ "یہ تمہیں لینے آیا ہے اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ تمہارا ہر طرح خیال رکھے گا اور کام بھی لگ کر دل جمعی سے کرے گا۔کیا تم راضی ہو اس وقت جانے کے لیے یا کچھ دن اور رہنا چاہتی ہو۔۔؟" ابا کے منہ سے نکلی باتیں اسے زندگی کی بڑی خوشی سے ہمکنار کرگئیں۔اللہ نے اس کی لاج رکھ لی تھی ایک بیوی ایک ماں ایک بیٹی کو رلنے اور بے عزت ہونے سے بچالیا تھا۔وہ رب کا ڈھیروں شکر ادا کرتی خوشی خوشی سیمی کو اٹھانے چل دی کیونکہ اسے ابھی عمار کے ساتھ اپنے گھر جانا تھا۔