دیورانی جٹھانی ، نند بھاوج، ساس بہو یہ وہ رشتے ہوتے ہیں جن میں  ان بن ہو ہی جاتی ہے، ایک کی بات دوسرے کو بری بھی لگ سکتی ہے ، اور جس طرح ایک ریگ و شیلف میں چند برتن ہوں تو ان کے آپس میں ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی ہے ،  بوقت ضرورت تھوڑا سا فاصلہ بہتری پیدا کردیتا ہے لیکن اس کا حل ہر برتن کو الگ الگ خانے و شیلف میں رکھنا نہیں ہوتا

 عمارہ فہیم

مومنہ و اریبہ کالج سے آئیں تو گھر میں کافی سناٹا تھا ، سناٹا تو ہمیشہ ہی رہتا تھا ، لیکن دونوں مائیں انہیں واپسی پر گھر کے صحن میں ہی ملتی تھیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صحن بالکل خالی ہوتا ، صحن ہی نہیں کچن کی حدود بھی خالی ہوتیں یا دونوں ماؤں میں سے کوئی ایک وہاں موجود ہوتیں اور دوسری اپنے کمرے میں ،

اور جو ماں اس وقت وہاں ہوتیں وہ بھی بالکل خاموش ہوتی تھیں یہی لمحہ دونوں لڑکیوں کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کہ آیا کیا کریں اور کیا نہیں کیونکہ کہیں سے کوئی روکنے، ٹوکنے ،بولنے والی آواز کانوں میں نہیں پڑتی تھی، اور ماؤں کی آواز سنے بغیر ان دونوں کا نہ دن ہوتا تھا نہ رات ، ہر لمحہ انہیں ماؤں کا ساتھ اور ماؤں کی توجہ چاہیے ہوتی تھی ، جس وقت انہیں مائیں نظر نہ آئیں دونوں کی بیٹری کی چارجنگ ختم ہوجاتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے ، مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ کچھ وقت بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور سارے گھر کی رونق ایک بار پھر بحال ہوجائے گی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی کہ آیا ہوا کیا تھا۔

”اففف ! پھر لگتا ہے گھر میں کچھ مسئلہ ہوا ہے۔“

اریبہ نے صحن سے کچن تک کی خالی راہ داری کو دیکھ کر تبصرہ کیا ۔

”ہمم! اور ہماری مائیں ہمیں کچھ بتائیں گی نہیں کہ آخر ہوا کیا ہے ؟۔“

مومنہ نے منہ سے اک آہ خارج کرتے ہوئے جواب دیا ۔

”مگر یہ غلط ہے ، آخر ہم اب بڑے ہوگئے ہیں ، ہم سے کچھ تو شیئر کرسکتی ہیں ، لیکن نہیں وہ تو ہم سے کوئی بھی بات شیئر نہیں کرتیں، میں جارہی ہوں کمرے میں ، آج کلاس کی چھٹی کردینا یا سب خود کرلینا میرا موڈ خراب ہورہا ہے ، ایسا نہ ہو کسی بچے پر غصہ آجائے  ۔“

اریبہ کا منہ پھول کر گپا ہورہا تھا اور بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی جب ماں نے اس کی بڑبڑاہٹ کو سن لیا ۔

یونیفارم تبدیل کرکے نماز پڑھ کر جب دونوں واپس کچن میں آئیں تو مائیں وہاں موجود تھیں بالکل ہشاش بشاش ، مومنہ و اریبہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آل سیٹ کا اشارہ دیتے ہوئے کھانے کی میز تک آئیں ۔

” کھانا کھاؤ ! کچن سمیٹو!  اور پھر دونوں بیٹھک میں آؤ بات کرنی ہے ۔“

تائی جان نے سنجیدگی سے فرمان سنایا تو مومنہ و اریبہ نے فرماں برداری کا اعلی مظاہرہ پیش کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔

 کھانے سے فارغ ہوکر مائیں بیٹھک میں چلی گئیں اور مومنہ و اریبہ کچن سمیٹنے لگیں ۔

”مومی ! تمہیں کیا لگتا ہے ماں کو کیا بات کرنی ہوگی ۔؟“

اریبہ نے برتنوں پر صابن لگاتے ہوئے پوچھا ۔

”مجھے کیا معلوم! میں کوئی نجومی تھوڑی ہوں جو ہر بات مجھے پتا ہوگی ۔“

مومنہ نے صابن لگے برتنوں کو پانی سے دھو کر باسکٹ میں رکھتے ہوئے اریبہ کو گھورتے ہوئے کہا ۔

”اب اس میں گھورنے کی کیا بات ہے ، میرے ذہن میں سوال آیا تو تم سے پوچھ لیا ، تم تو مرچیں چبائے رکھو بس ہاں !“

اریبہ منہ پھلا کر برتن رکھ کر کرسی پر جا بیٹھی ۔

”میڈم جی ! ذرا تشریف یہاں لے آئیں آپ ! ورنہ ابھی تائی جان کو آواز لگاتی ہوں ۔“

مومنہ نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا ، جانتی تھی ابھی سیکنڈ کی دیر ہوگی اور اریبہ کے ہاتھ میں صابن اور برتن ہوں گے ، اور یہی ہوا ۔

”بس نہ چلے تو تائی جان کو آواز لگالو ! واہ واہ ! اب سے میں بھی چچی جان کو آواز لگایا کروں گی ہر بات پر دیکھنا بچو!“

اریبہ کا منہ مزید پھول کر بڑے غبارے کی شکل اختیار کر چکا تھا، اور ہاتھ کسی مشین کے انداز میں برتنوں پر گھوم رہے تھے ۔

”آرام سے کرو ، ایسا نہ ہو کسی پلیٹ ، پیالی کو توڑ دو اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔

اچھا بابا سوری ! اب موڈ ٹھیک کرو ، میں کیا کہوں تمہارے اس سوال کے جواب میں ، خود بتاؤ !“

”کچھ بھی کہہ دیتیں ، مگر آرام سے تو کہو نا !“ پتا ہے میرا معصوم سا چھوٹا سا دل ہے ٹوٹ جاتا ہے ۔“

اریبہ نے منہ لٹکا کر جس انداز سے کہا مومنہ کا قہقہہ نکلنے ہی لگا تھا بڑی مشکل سے اس نے خود پر قابو پایا ۔

”ہمممم ! ٹھیک ہے ۔

اچھا معصوم سے دل والی لڑکی ! ذرا ہاتھ تیز مگر دھیان سے چلاؤ ورنہ ابھی ہم دونوں کی خیر نہیں ہوگی ۔“

دونوں نے جلدی جلدی برتن دھو کر سب برتن خشک کیے اور شیلف میں برتنوں کی جگہ پر طریقے سے رکھ کر آخر میں کچن سلپ کو صاف کرکے فرش صاف کیا اور ہاتھ منہ دھو کر بیٹھک کی طرف رخ کیا ۔

دروازے پر دستک دے کر دونوں اندر گئیں۔

”بیٹھو ! “

مائیں سیدھے ہاتھ پر لگے صوفوں پر بیٹھی ہوئی تھیں مومنہ و اریبہ کو سامنے لگے صوفوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔

”ہممم اریبہ ! کالج سے آتے ہوئے کیا کہہ رہی تھیں آپ ؟“

تائی جان نے بغیر کوئی تمہید باندھے اریبہ کو مخاطب کیا تو اریبہ کو جیسے چار سو پاور کا کرنٹ لگا اور مومنہ بھی شاکڈ ہوکر اریبہ کو دیکھنے لگی ۔

”وہ امی کچھ نہیں! ہم تو صرف بات کررہے تھے، ہیں نا مومنہ!“

اریبہ نے ہمیشہ کی طرح مومنہ کا سہارا لینے کی کوشش کی ۔

”جی تائی جان ! ہم صرف بات کررہے تھے ۔“

واقعی حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں صرف بات ہی تو کررہی تھیں ، وہ الگ بات ہے کہ بات کرنے کا انداز تھوڑا عجیب تھا ، کیونکہ آپ کے بات کرنے کا انداز آپ کی تعلیم و تربیت کو واضح کرتا ہے ۔

”جی بالکل ! آپ دونوں بس بات کررہی تھیں  میں نے اس سے انکار کب کیا ؟ میں تو بس یہ پوچھ رہی ہوں کہ آپ کیا بات کررہی تھیں ؟“

تائی جان بھی تو تائی جان ہی تھیں، اور ماؤں کو اتنا سمجھدار اور ہوشیار ہونا ہی چاہیے کہ بچوں کے دل میں چھپی ہر بات کو جاننے کا فن آتا ہو ورنہ زمانہ تو بڑا ظالم ہے جب کسی بچے کو گھر سے مکمل توجہ نہ ملے تو اس کو غلط راستے دکھانے والے ارد گرد بہت ہوتے ہیں ۔

تائی جان کا سوال بظاہر تھا تو بہت معمولی مگر اس سوال کا جو جواب دونوں لڑکیوں کو دینا تھا وہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اسی جواب کے لیے تو یہ مجلس منعقد ہوئی تھی ، اور اس وقت مومنہ و اریبہ کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں کہ اب جواب کیسے دیں ؟ اور جواب کے بعد کیا ہونا ہے کون جانتا ہے ۔

”وہ امی ! میں بس یہ کہہ رہی تھی کہ آپ لوگ ہم سے کوئی بات شیئر نہیں کرتے ، ہم اب بچے نہیں ہیں بڑے ہو گئے ہیں ، ہمیں آپ اپنی پریشانی و تکلیف بتاتی نہیں ہیں ، اگر گھر میں کوئی پرابلم ہوتی ہے تو اس کا بھی ہم سے کوئی ذکر نہیں کیا جاتا ایسا کیوں ؟ کیا صرف بچوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہر بات بڑوں سے شیئر کریں بڑوں کے لیے ایسی کوئی بات لازم نہیں کہ وہ بھی بچوں کو اپنے معاملات میں شامل رکھیں ۔“

اریبہ کے دل میں جتنا غبار بھرا تھا بالآخر وہ باہر آہی گیا ۔

”اچھا ! تو آپ بڑی ہوگئی ہیں، اور آپ چاہتی ہیں کہ آپ سے اپنے مسائل وغیرہ شیئر کیے جائیں ، چلیں فرض کریں ہم آپ سے کچھ شیئر کرتے ہیں تو آپ کیا کریں گی ، اسے کیسے حل کریں گی ؟“

تائی جان نے اریبہ کے سامنے ایک اور سوال رکھا ۔

”یہ تو مسئلے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ آیا وہ مسئلہ کس نوعیت کا ہے ۔“

”جی میں بھی یہی کہوں گی ۔“

اریبہ و مومنہ نے باری باری جواب دیا ۔

”تو حل مسئلہ کی نوعیت کو دیکھ کر نکلے گا ، یہ بھی ٹھیک ہے، ہم دیورانی جٹھانی ہیں، نند بھاوج، دیورانی جٹھانی، ساس بہو یہ وہ رشتے ہوتے ہیں جن میں اونچ نیچ ہوجاتی ہے ، ان بن ہوجاتی ہے، ایک کی بات دوسرے کو بری بھی لگ سکتی ہے ، اور جس طرح ایک ریگ و شیلف میں چند برتن ہوں تو ان کے آپس میں ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی ہے ،  بوقت ضرورت تھوڑا سا فاصلہ بہتری پیدا کردیتا ہے لیکن اس کا حل ہر برتن کو الگ الگ خانے و شیلف میں رکھنا نہیں ہوتا ، اسی طرح گھروں میں خاندانوں میں کچھ باتیں پیش آجاتی ہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سارے رشتے ایک دوسرے سے دور ہو جائیں ، اللہ نے رشتے ایک دوسرے سے دور ہونے کے لیے نہیں دیئے بلکہ اس لیے دیئے ہیں کہ انسان اکیلے سروائیو نہیں کرسکتا تھا اسے زندگی گزارنے کے لیے جہاں دوسری چیزوں کی ضرورت ہے وہیں ساتھ رہنے کے لیے ان رشتوں کی ۔“

ماں کچھ دیر خاموش ہوئیں تو کب سے خاموش بیٹھی اریبہ کی زبان میں خارش شروع ہوئی۔

”ماں ! میں آپ سے کیا کہہ رہی ہوں اور آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ، میں سچ کہوں گی مجھے آپ کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی ۔“

”میں اسی لیے خاموش ہوئی تھی کہ تمہاری اور تمہاری اس جوڑی کی شکلیں واضح کررہی تھیں کہ میری یہ ساری بات تم دونوں کے سر سے گزر رہی ہے ، اور گزرنی بھی چاہیے تھی کیونکہ تمہاری بات سے بالکل الٹ بات جو کی ہے میں نے ، لیکن تمہاری کی گئی بات تمہیں بتانے کے لیے یہ بات بتانی بہت ضروری تھی اس لیے یہ سب بتایا ۔

چلو آپ دونوں کو مسئلہ جاننے کا شوق ہے اور پھر اسے حل کرنے کی چاہ بھی ہے تو ہم آپ کو مسئلہ بتاتے ہیں ، اب دیکھتے ہیں کہ آپ اسے کیسے حل کرتی ہیں ۔“

تائی جان نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے چچی جان کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا ۔

”مسئلہ یہ ہے کہ مومنہ کے لیے ایک رشتہ آیا ہے اور مجھے وہ لوگ پسند ہیں ، بس فارمیلیٹی کے لیے انہیں گھر بلانا ہے لیکن بھابھی اس سے منع کررہی ہیں ، اب بتاؤ مومنہ میری بیٹی ہے میری مرضی میں اس کا جہاں مرضی رشتہ کروں، بھابھی کو اس میں ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے بس اسی بات پر آج ہم دونوں کا موڈ آف تھا اب تم دونوں حل بتاؤ ! کہ آیا یہاں میں غلط ہوں یا بھابھی  ۔“

چچی جان نے اپنا مسئلہ دونوں لڑکیوں کے سامنے رکھا تو مومنہ و اریبہ دونوں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

اور دونوں ہی اول تو مسئلہ جاننے کی خواہش پر ماتم کرنے لگیں ۔

پھر ظاہر ہے اب مسئلہ پوچھا تھا تو حل بھی تو بتانا تھا ناک تھوڑی کٹوانی تھی ۔

مومنہ کے منہ کو تو تالا لگ گیا تھا اور اس کی آنکھوں نے اریبہ کو یہ باور کروادیا تھا کہ اب جواب دینے کا فریضہ اسے اکیلے ہی ادا کرنا ہوگا ،جیسے تیسے ہمت کرکے اریبہ نے بولنا شروع کیا ۔

”وہ۔۔۔

ماں! یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ تو نہیں ہے ، چچی جان کی بات درست ہے مومنہ ان کی بیٹی ہے وہ اس کے لیے جو مرضی سوچیں، ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے ان کے معاملے میں بولنے کی اور آپ کی ناراضی تو بنتی ہی نہیں ۔“

اریبہ محترمہ نے اپنے طور شاندار جواب تلاش کیا تھا اور وہ دل ہی دل میں خوش ہورہی تھیں ۔

”ارے واہ ! آپ نے تو بہت اچھا حل نکالا ہے اور آپ سے امید بھی ایسے ہی کسی جواب کی تھی ، اسی لیے جو اوپر اتنی لمبی وضاحت کی وہ اسی جواب کے لیے کی تھی ، جس کا مطلب یہی تھا کہ رشتے کوئی ایسی معمولی شئے نہیں ہوتے کہ انہیں جب دل چاہا جوڑ لیا اور جب دل چاہا توڑ دیا ، اور نہ کوئی ایسی بے وقعت چیز کہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا اور بس!

بلکہ رشتے بہت انمول ہوتے ہیں ، انہیں ہمیشہ جوڑ کر رکھنے اور ان تعلقات کو مضبوط سے مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

جس طرح تم لوگ یہ رنگوں سے تجربات کرتی ہو نا اسی سے اب بات کو سمجھو ۔

اگر رنگ کو پکا کرنے کے لیے بائینڈر نہ ڈالو اور اسے ہوا وغیرہ میں اچھی طرح سوکھنے نہ دو تو کیا ہوگا ؟“

”وہ خراب ہو جائے گا۔

 اور محنت برباد ہو جائے گی ۔“

مومنہ و اریبہ نے باری باری جواب دیا ۔

”ہاں ! وہ خراب ہو جائے گا اور محنت برباد ہو جائے گی بالکل اسی طرح اگر رشتوں کی قدر نہ کی جائے ،انہیں جوڑ کر نہ رکھا جائے ، بات بے بات ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسائے جائیں ، یا پھر سب سے اہم ایک بات اور کہ ایک کی بات دوسرے سے کی جائے اور دوسرے کی تیسرے سے تو اس سے نہ صرف سامنے والے کے دل میں برائی پیدا کی بلکہ اپنے ساتھ ساتھ ایک اور فریق کو ٹینشن میں مبتلا بھی کیا اور غیبت کا گناہ الگ ، ایسی باتوں سے رشتے مضبوط نہیں ہوتے بلکہ کمزور ہوتے جاتے ہیں اور بالآخر ایک وقت آتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کی نفرت کی آگ میں سلگنے لگتا ہے  ۔

ہم نہیں چاہتے ہمارے گھر کا پرسکون ماحول خراب ہو اسی لیے آپس میں کوئی بات ہو بھی جاتی ہے تو ہم خود ہی اسے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہی سب سے بہترین حل ہوتا ہے کہ جن دو کے درمیان معاملہ ہو وہ خود حل کریں نہ کہ کسی تیسرے کو شامل کرکے معاملہ کو مزید طول دیں ہاں اگر لگے کہ آپ خود مسئلہ حل نہیں کرسکتے تو کسی ایسے شخص کو درمیان میں شامل کرنا چاہیے جو باشعور ہو ، سمجھداری سے معاملہ کو حل کرے نہ کہ مزید دراڑ پیدا کرے ۔“

تائی جان و چچی جان کی بات اب جاکر دونوں لڑکیوں کے چھوٹے سے دماغوں میں بیٹھنا شروع ہوئی تھی ۔

”مگر یہ تو بتائیں! کہ میں نے جو حل بتایا وہ درست نہیں تھا تو اس کا صحیح حل کیا ہوسکتا ہے ۔“

اریبہ کی بے چین روح کو آسانی سے چین کیسے آسکتا تھا۔

”اگر دیکھا جائے تو آپ کا جواب درست ہے لیکن کہنے کا جو انداز ہے وہ درست نہیں ، اسی بات کو نرمی سے کہا جائے تو بات غلط  نہ ہوگی۔

یہ جملہ کہ : ان کی اولاد جو دل چاہے کریں ہمیں کیا ، ہم کیوں درمیان میں پڑیں ۔ایسے الفاظ نفرت کا پہلا بیج ہوتے ہیں اور ایسے بیج اگر بوئے جائیں تو فصل بھی پھر ایسی سیاہی میں لپٹی ہوئی ہی نکلتی ہے، اسی لیے بیج بوتے وقت بہت دھیان اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اب چاہے وہ باتوں اور اعمال کا بیج ہو یا سچ مچ کھیتی کا بیج !

ہر رشتے کا جس طرح ایک حق ہوتا ہے اسی طرح ایک فرض بھی ہوتا ہے ، آپ کا رتبہ اگر بڑا ہے تو اس رتبے کا پاس رکھنا آپ پر لازم ہے ، اگر آپ رتبے میں چھوٹے ہیں تو آپ پر  بھی کچھ چیزیں عائد ہوتی ہیں ،دونوں درجوں کے لوگ مل کر ہی ایک کھیت کو ایک عمارت کو مضبوطی اور صفائی کے ساتھ پروان چڑھا سکتے ہیں ،تنہا کوئی کچھ نہیں کرسکتا ۔“

مومنہ و اریبہ بہت غور سے ماؤں کی باتیں سن رہی تھیں، انہیں اب ماؤں کی سوچ سمجھ آرہی تھی، کہ وہ اس طرح کیوں کرتی ہیں ، انہیں ہر بات کیوں نہیں بتاتیں ، کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ نسلوں کے ذہنوں میں الجھن پیدا کی جائے، ایسی الجھن جس سے ان کا اعتبار رشتوں سے اٹھ جائے، ایسی الجھن جس کی وجہ سے ان کے دل میلے ہوجائیں، ایسی الجھن جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوجائیں ۔

کیونکہ ہر بڑی بات اور بیماری کے پیچھے ایک چھوٹی بات یا چھوٹی بیماری چھپی ہوتی ہے اور یہی چھوٹی سی بات یا بیماری آہستہ آہستہ جڑ پکڑ لیتی ہے اور اسے ناسور بنا دیتی ہے ، اس لیے بڑی تکلیف سے بچنے کے لیے ابتداء میں ہی حل اور علاج تلاش کرلیا جائے تو یہ سود مند ہوتا ہے ۔

”کیا ہوا لڑکیو! تم دونوں پر اس قدر سناٹا کیوں چھا گیا ۔“

چچی جان نے دونوں کے چہروں کا بغور جائزہ لیا ۔

”کچھ نہیں ماں ہم آپ دونوں کی بات کو سن کر سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں ، اب ہمیں ساری بات سمجھ آگئی ہے ۔

کہ جس طرح رنگوں کی دنیا کے کچھ اصول ہیں اور ان اصولوں کے بغیر رنگ بکھیرنا اور ان رنگوں کا پکا ہونا ناممکن ہے اسی طرح ہماری زندگی کو جینے کے بھی کچھ اصول ہیں اگر ان اصولوں پر صحیح طرح عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں تو زندگی بہت اچھی اور خوبصورت ہوسکتی ہے ورنہ سوائے الجھنوں کے کچھ نہیں ہوگا ۔“

اریبہ و مومنہ نے اپنے ذہنوں کے مطابق سمجھی ہوئی باتیں ماؤں کے سامنے رکھیں تو مائیں مسکرانے لگیں ۔

”دیکھو تو ! واقعی یہ بچیاں بڑی ہوگئی ہیں ، کتنی سمجھداری کی باتیں کرنے لگی ہیں ، مطلب اب وقت آگیا ہے کہ ان کے پلو میں بھی کچھ باتوں کی گرہیں لگوائی جائیں جس کو دیکھ اور یاد کرکے ان کے لیے آگے کے راستے آسان ہوجائیں ۔“

تائی جان نے مسکرا کر چچی کی طرف دیکھ کر کہا تو دنوں ایک بار پھر حیران ہوکر ماؤں کو دیکھنے لگیں ۔

”ماں یہ کون سی سیکرٹ لینگویج میں آپ بات کررہی ہیں ، ہمیں ابھی اتنی ماہر نہیں ہوئیں کہ آپ کی ٹاپ سیکرٹ لینگویج ہمیں سمجھ آئے ۔“

اریبہ کی زبان کی خارش اسے بولے بغیر رہنے نہیں دیتی ۔

”ہیں کچھ نسخے جو تم دونوں کے لیے اب جاننا ضروری ہوگیا ہے ، جن میں آج ایک نسخہ تمہیں دیتے ہیں دیکھتے ہیں اس نسخہ پر عمل کرکے تم دونوں کیا سیکھتی ہو اور کتنی کامیاب ہوتی ہو ۔

تم دونوں اب بڑی ہورہی ہو ،اپنی پریکٹیکل لائف شروع کرنے لگی ہو پڑھتی ہو، پڑھاتی ہو ، کوچنگ چلاتی ہو ،ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے آگے بھی پڑے گا ۔

 اگلے گھر بھی جاؤ گی ،نئے لوگ نیا ماحول ہوگا تو ایسے میں ایسی بہت سی باتیں ہوجائیں گی جو تمہاری طبیعت کے موافق نہ ہوں لیکن تمہیں وہاں صبر سے کام کرنا ہوگا ، ہر چھوٹی بڑی بات دوستوں اور ماؤں ، شوہروں کے کانوں میں انڈیلنے کی نہیں ہوتی ، بعض اوقات اس سے رشتوں میں دراڑ پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے ہر قدم سنبھال کر محتاط انداز میں رکھنے کی عادت ڈالو ، زبان ایک ایسا آلہ ہے جو اچھا بھی بنا دیتا ہے اور برا بھی اس لیے اسے ایسی لگام لگاؤ جس کی ڈور و لاک تمہارے ہاتھ میں ہو جتنا ڈھیل دے کر استعمال کرنا ہو کیا ورنہ لاک لگالیا ۔“

”شکریہ ماں !

شکریہ تائی جان !

اتنی اچھی باتیں ہمیں بتانے کے لیے ہم ان شاءاللہ ہر قدم پر انہیں یاد رکھ کر ان پر عمل کی کوشش کریں گے ۔“

دونوں لڑکیوں نے ماؤں کا شکریہ ادا کیا اور دروازے کی طرف متوجہ ہوئیں جہاں بچیاں گھنٹہ بجانے میں مصروف تھیں آج تو کلاس بھی سیٹ نہیں تھی ، ابھی کلاس کی ترتیب بھی کرنی تھی اور خود حاصل کیا سبق اپنی طالبات میں بھی منتقل کرنا تھا کیونکہ کہا جاتا ہے : کہ جس بات پر عمل کرنا چاہتے ہو اس کا تذکرہ شروع کردو ، جتنی مرتبہ وہ بات یاد کی جائے گی عمل کرنے میں اتنی آسانی ہوگی ، دوسری بات یہ کہ جو چیز یاد رکھنی ہو اسے سن کر محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دہرا لیا جائے ۔

مومنہ و اریبہ تو نئے نسخہ پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں ، کیا آپ بھی اس نسخے کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لیے تیار ہیں ؟