یاد ماضی کی وجہ یہ بنی کہ اس سال اسکول کی چھٹیوں میں بہن کے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے بلکہ درحقیقت اس کو تھوڑا آرام دینے کے لیے یہ طے پایا کہ ہفتے میں ایک دو دن بچے خالہ جی یعنی کہ مابدولت کے پاس تشریف لایا کریں گے اور یقین جانیے ان چند تشریف آوریوں نے ہی عاجزہ کے چودہ طبق روشن کرکے یہ سوچنے پہ مجبور کردیا۔۔۔۔
جویریہ شعیب ،یوکے-انگلینڈ

ایک ہمارا زمانہ تھا، سارا دن پہلی دوجی، یسوپنجو، پکڑن پکڑائی،چھپن چھپائی کھیل کر بھی دل نہیں بھرتا تھا۔ لڈو تو صرف چھٹیوں میں ملا کرتی تھی اور اللہ جانتا ہے کہ اس کا انجام پھٹنے پہ ہوا کرتا تھا۔ مٹی اور پلاسٹک کے برتن سجا کر آپا بوا کھیلتے تو دوپہر گذرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ چڑیا گھر یا کلفٹن جانا، ڈزنی لینڈ جانے کے مترادف تھا۔ گڑیا کی شادی بچپن کا ایک واحد معصوم ایڈونچر ہوا کرتا تھا، جس پہ پاس موجود تمام وسائل خرچ کر دیے جاتے تھے۔ پڑھنے کے لیے اخبار میں بچوں کے لیے چھپنے والا خاص صفحہ نین تارا، ریڑھی پہ بکنے والی عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں یا آنٹی کے پرانے نونہال کے رسالے جو کارٹن میں ڈال کر اونچی مچان پہ کسی خزانے کی طرح دھرے ہوتے تھے، پڑھنے کو ملاکرتے تھے اور کبھی کبھار نظر بچاکر آنٹی کے ڈائجسٹ پڑھنے کا بھی موقع مل جاتا مگر ایسی وارداتیں خطرے سے خالی نہیں ہوا کرتی تھیں کیوں کہ ان کی اجازت نہیں تھی۔ اگر پھر بھی وقت نہ کٹتا تو گھر آنے والے اخبار کا ایک ایک لفظ بشمول شہ سرخیوں سے عاق نامے کے اشتہارات تک ہرہر لفظ پڑھا جاتا۔ سیاست، کھیل، کامرس، ایڈیٹوریل، شوبز غرض کوئی ایسی تحریر نہ ہوتی جو ہم سے بچ پاتی۔
اگرچہ ہمارا یہ زمانہ کوئی 19ویں صدی کا وسط نہیں تھا بلکہ19ویں صدی کا اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز کا سنگم تھا مگر متوسط طبقہ بلکہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق کی بنا پر زندگی جدید فیشن سے دور، سادہ اور آسان تھی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے یہ یاد ماضی کسی خوشی میں بےوقت کی راگنی کی طرح الاپی جا رہی ہے تو وجہ اس کی کچھ یہ بنی کہ اس سال اسکول کی چھٹیوں میں بہن کے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے بلکہ درحقیقت اس کو تھوڑا آرام دینے کے لیے یہ طے پایا کہ ہفتے میں ایک دو دن بچے خالہ جی یعنی کہ مابدولت کے پاس تشریف لایا کریں گے اور یقین جانیے ان چند تشریف آوریوں نے ہی عاجزہ کے چودہ طبق روشن کرکے یہ سوچنے پہ مجبور کردیا کہ موجودہ زمانے کے اور ہمارے زمانے کے بچپن میں کس قدر واضح فرق ہے۔
آج کل کے بچے ہر چیز سے بہت جلد دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ بےشمار مواقع اور مشاغل میسر ہونے کے باوجود ان کی طبیعت میں بےچینی اور اکتاہٹ ہے۔ جہاں ہماری اسٹیشنری میں کٹ مارکرز کا مل جانا نعمت غیر مترقبہ ہوا کرتی تھی اور رنگ برنگے مارکرز کا نہ ہونا ایک قلق رہا کرتا تھا وہاں آج کا بچہ ہر قسم کی نت نئی چیزوں سے بھرا بیگ موجود ہونے کے باوجود ان چیزوں کی اہمیت سے نا آشنا ہے۔ بلاشبہ آج کے بچے بے انتہا معلومات رکھتے ہیں اور انہیں جدید ترین آلات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرنے کی قدرت حاصل ہے، انٹرنیٹ کی شکل میں ان کو لامحدود تفریحات سے لطف اندوز ہونے کی آزادی ہے مگر ۔۔۔ مگر پھر بھی بچے خوش نہیں ہیں، والدین مطمئن نہیں ہیں! کیوں؟
جہاں تک مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ ہم سب کی توقعات بہت اونچی ہیں۔ ہم یہ سوچ کر اپنے بچوں کو وہ سب کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے بچپن میں عزیز تھا مگر ویسے نہیں ملا جیسے ہم چاہتے تھے۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر بچوں کو آسائشات فراہم کرتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے، وہی جو ہم اپنے بڑوں کے ساتھ کرکے آئے ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر زمانے کی ضروریات، توقعات اور ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ایک کے ختم ہونے سے پہلے دوسری پیدا ہوجاتی ہے اور پھر تیسری اور چوتھی، غرض یہ خواہشات لامتناہی ہوتی ہیں تو کیوں نہ ہم خواہشات کی بجائے ضروریات پر توجہ دیں۔ آج ہم جب اپنے بچپن کو دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس فقط محرومیاں نہیں ہیں بلکہ اکثریت حسین یادوں کی ہے۔ اگرچہ ہمیں ویسی آسائشات نہیں ملیں مگر ہمیں وہ مہربان لوگ ملے جنہوں نے اپنی محبت لٹانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ جب پلٹ کر ماضی کو دیکھیں ہیں تو ان میں تاروں کی طرح جگمگاتے چہرے نظر آتے ہیں جو تصنع اور بناوٹ سے پاک تھے۔ جو کامیابی پہ خوش ہوتے تھے اور ناکامی پہ غمگین ہوتے تھے۔ ہم آج بچوں کو زیادہ سے زیادہ مادی آسائیشیں مہیا کرنے کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے بچے کی ہر خواہش پوری ہوجائے مگر ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ان کو اچھی یادیں دیں، ان کو ایسی باتیں سکھا جائیں جو کل ان کے کام آئیں اور جب ہم اس دنیا میں نہ ہوں تو ایک لمحے کے لیے ہی سہی ان کی آنکھیں نم ہوں اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھیں اور یقین کریں اس کے لیے بہت بڑے بینک بیلنس اور مہنگے تحائف کی ضرورت نہیں۔ فقط خلوص نیت کافی ہے۔ یہ سوچ کہ آج ہم جو وقت ان بچوں پر (چاہے اپنے ہیں یا کسی اور کے ہیں) لگا رہے ہیں یہ ہماری کل کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔ ہم دل براشتہ ہوجاتے ہیں جب بچوں کے ناشکرے مزاج کو دیکھتے ہیں مگر نظر انجام پر رکھنی چاہیے۔ مالی دا کم پانی دینا، تے بهربھرمشکاں پاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا، لَاوے یا نہ لَاوے
فوری اور ظاہری نتیجہ اگرچہ نہ ملے مگر یقین کیجیے اس سے آدھی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ بلاوجہ کی فکریں ختم ہوجاتی ہیں جب ظاہری اسباب اپنی طاقت کے بقدر خرچ کرکے بندہ نتیجہ مسبب الاسباب پہ چھوڑ دیتا ہے۔ نیکی کا ہر چیک دنیا میں ہی کیش کروا لینا عقل مندی نہیں ہے، بہت کچھ آخرت کے لیے بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ بچے بچپنے میں کچھ ایسا کرجائیں جو دل کو تکلیف پہنچائے تو صبر کیجیے۔بچوں کی تربیت میں ظاہری اسباب کے ساتھ دعا سے بہتر کوئی جائے پناہ نہیں۔ دعا کو اپنی ہر مشکل کے سامنے ڈھال بنالیجیے۔
ایک اور نازک پہلو جس سے غفلت برتی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ والدین میں سے دونوں یا بعض اوقات کوئی ایک بچوں کو تمام آسائشات دینا کافی سمجھ لیتے ہیں۔ انہیں وقت اور مکمل توجہ بھی دینی ہے اس پر دھیان نہیں دیاجاتا۔ بچے جب موبائل/کمپیوٹر/گیمز وغیرہ کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر انہی میں پناہ اور سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ چیزیں دنیا بھر کی معلومات اور خبریں تو دے سکتی ہیں مگر احساسات اور جذبات سے عاری ہوتی ہیں نتیجتا بچہ بھی بنسبت لوگوں میں گھل مل کر رہنے کے ان سے ہٹ کٹ کر تنہا ایک گوشہ میں اپنی پسندیدہ ڈیوائس کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرتا ہے لہذا بڑوں کی ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ بچوں کو ایک حد میں رہتے ہوئے تفریح کی اجازت دے جائے۔ ان کے ساتھ شامل ہوکر ان کی عمر اور دلچسپی کے حساب سے مختلف سرگرمیاں انجام دی جائیں۔ مثلا کھانا پکانا یا بیکنگ کرنا سکھایا جائے۔ آرٹس اینڈ کرافٹس کی بے شمار قسموں سے کچھ منتخب کیا جائے۔ قریبی پارکس میں جایا جائے، ان کے دوستوں اور کزنز کی دعوت کی جائے اور گھر کو سجانے کے لیے اور گفٹس دینے کے لیے جو کچھ کرافٹ کی کلاس میں سیکھا اسے بروئے کار لانا چاہیے۔ اپنے علاقے اور اپنے بچے کے مزاج کے مطابق دل چسپیاں ڈھونڈی جائیں۔ جب بندہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو اللہ راستے بھی سجھادیتے ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے بچوں کو کامل مومن اور معاشرے کا کارآمد شہری بنائے۔ آمین