ان کی تلخی بھی بہت تلخ تھی اور سچ ہے اگر یہی برداشت کی بنیاد پر رکھے جائیں تو انکی مٹھاس بھی بہت شیریں ہے ۔۔۔۔ نازش کچن میں کام کررہی تھی، جب اچانک اسے کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئی، پلٹ کر دیکھا تو ان کے میاں صاحب مسکراتے ہوئے آرہے تھے ۔
امۃ اللہ ند ا اختر
وہ دستر خوان پر بیٹھنے ہی لگے تھے کہ اچانک چنو نے جو جیٹھ کا بیٹا تھا رائتے سے بھرا پیالہ گرا دیا ۔ دادا جان اسے گھورنے لگے، اسی لمحے دادی جان نے چنو کو اپنی شفقت بھری بانہوں میں لے لیا ۔ یہ کہتے ہوئے کہ بچے تو شرارت کرتے ہی ہیں ۔ ٭٭٭٭
نازش کچن میں کام کرتی ہوئی آج گھبرائی ہوئی تھی کیوں کہ آج اس کا پہلا دن تھا سسرال کا دل اپنے ہاتھ کے کھانوں سے جیتنے کا ۔
کچھ الفت کی مٹھاس سے بنے زردے کا اور کچھ سنجیدگی کی سخاوت سے پلاؤ کا ۔ ساسو ماں چکر لگا رہی تھیں کیا اس میں زیرہ بھی ڈلتا ہے بہو ؟ وہ نروس سی ہو کر جج جی جی کہتی ہوئی کام میں مشغول ہوگئی ۔۔ دیور جی آئے اور آدھے پکے کھانے سے ناک لمبی کی اور خووووب خوف زدہ کیا ۔۔ بڑے بھائی مسالے ذرا کم پسند کرتے ہیں ۔۔۔ اور آپ کے میاں جی تو بہت تیکھے ہیں ۔ معلوم نہیں کب اور کیسے ہوگا یہ سب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن اللہ اللہ کرکے کام کیے جاتی اور مڑ مڑ کے سسرال کا جائزہ لیتی ۔۔
اب نند کی باری تھی جو جیٹھ کے بچوں کے گال کھینچتے ہوئے قہقہہ لگا رہی تھی ۔ لپک کے نازش کے پاس آگئ ۔۔
ارے ارے نمک دیکھ کر ڈالیں بھابی ۔
اافف ۔۔۔۔۔۔ نازش کی جان نکل گئی لگ بھک ۔
خیر ۔۔۔ کھانا تیار ہے کی صدائیں گونجنے لگیں ،جیسے نمازی نماز کو لپکتے ہیں ،سب پہلی صف میں آ کھڑے ہوگئے۔ ٭٭٭ امام صاحب یعنی سسر جی کی سیٹ تیار تھی جو خیر سے بھاری بھر کم وجود کے ساتھ اس پر براجمان ہوگئے ۔۔۔ مہک دور دور تک اوٹھ رہی تھی مگر مجال تھی جو ساسو ماں کی ٹنڈے جیسی ناک میں جانے کو تیار ہو ۔۔۔۔ نند کی ترچھی نگاہیں ،قورمے پلاؤ، زردے کو گھور رہی تھیں جبکہ دیور کی رال ٹپک ٹپک کر گود میں رکھے چنو پر گررہی تھی ۔
نازش کی جان حلق کو آگئی تھی سسر جی نے جب نوالہ اپنے منہ مبارک کی نذر کیا ۔۔۔۔۔ بہو کی جان میں جان آئی
ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ بہو پاس ہوگئی ہے اور سب کھانے پر ٹوٹ پڑے تو جٹھانی صاحبہ نازش کو داد دینے لگیں ۔۔ کہ شکر میری جان چھوٹی آپ تشریف لائیں ٭٭٭٭
وہ ایک جوائنٹ فیملی میں شادی ہوکر گئی تھی وہ اکلوتی بیٹی تھی ۔۔ لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ اتنے بڑے خاندان کی نورِ نظر بن جائے گی ۔
اسے بہت کچھ جھیلنا پڑا بہت کٹھن راستے ۔ جو راتوں کی نندیں اور دن کے اجالے لے گیا ۔ ۔۔ لیکن وہ ثابت قدم رہی ۔ ۔۔۔
اس کی آج تین بیٹیاں ہیں ۔ جن کی پرورش میں جیٹھانی صاحبہ ساتھ دیتی ہیں اپنے بچوں کی طرح ۔۔۔ دیورانی کی اولاد نہیں وہ انہی کو اپنا سب کچھ سمجھتی ہے ۔ کبھی نازش بیمار ہو جائے تو ساس ٹوٹکوں سے پل میں ٹھیک کر دیتی ہے ۔ دیور روز شام کو بچوں کو گھمانے لے جاتے ہیں ۔
جیٹھ اپنے تمام بھائیوں کے بچوں کی تعلیم کے نگراں ہیں سب کچھ دیکھنا بھالنا، پنسل سے لے کر یونی فارم تک، ایڈمیشن سے لے کرفراغت تک کے معاملات اپنی اولاد کی طرح دیکھتے ہیں ۔۔ نازش بہت گھبرائی ہوئی تھی کہ بھروسا کس طرح کرے لیکن نند نے کبھی بھی آپس کی ناچاکیوں کا بدلہ بچوں سے نہیں لیا ان پر ہمیشہ مہربان رہی ۔۔
غرض رشتوں کی بنیاد جہاں تک سمجھ آتی ہے برداشت پر ہے ۔ شاید یہ وقت ہر لڑکی پر آتا ہے ۔ ابتدائی مراحل میں خاموشی بہت سود مند ہوتی ہے ۔ نازش کو یہ سب باتیں اس کی جیٹھانی بتایا کرتی تھی جب جب وہ حالات سے نکلنا مشکل سمجھتی وہ چھاؤں کی طرح آجاتی ٭٭٭
نازش نے یہ رشتے پہلی بار دیکھے تھے ۔ ان کی تلخی بھی بہت تلخ تھی اور سچ ہے اگر یہی برداشت کی بنیاد پر رکھے جائیں تو انکی مٹھاس بھی بہت شیریں ہے ۔۔۔۔ نازش کچن میں کام کررہی تھی، جب اچانک اسے کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئی، پلٹ کر دیکھا تو ان کے میاں صاحب مسکراتے ہوئے آرہے تھے ۔
آپ اس وقت کیسے؟ وہ حیراں سی ہوکر بولی ۔۔
اسد نے نازش کی چمکتی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ جی یہ وقت صرف آپکے لیے ۔۔ وہ دھیما سا مسکرا دی ۔۔۔۔
یقیناً یہی وہ لہجہ تھا جس کی خاطر اس نے سب کچھ سہا اور بہت کچھ برداشت کیا تھا ۔