میں اپنی ساس اماں سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ مجھے اپنی الماری میں دوسروں کی شراکت گوارا نہیں!! (یہ خیال آتا کہیں ایسا نہ ہو میری بات سے ان کا دل دکھے) بس آہستہ آہستہ اپنے دل کو ہی سمجھا لیا... چلو کوئی بات نہیں جب دلہے میاں اپنی مرضی کے نہیں ملے تو باقی کسی چیز کی حیثیت ہی کیا ہے!! صبر کر لو... جب اتنی بڑی بات پہ صبر کر لیا تو ایک لکڑی کی الماری کی اوقات ہی کیا ہے!!
زہرہ جبیں
شادی کے بعد جب پہلی بار سسرال میں قدم رکھا تو بہت ہی اچھا لگا۔ چوتھی منزل پر چھوٹا سا گھر تھا۔ کمرہ بڑی خوبصورتی اور نفاست سے سجا ہوا، کمرے کے باہر سیمنٹ کی چادروں سے چھت ڈالی گئی تھی۔ دیواروں پر ہلکے گلابی رنگ کا پینٹ کیا گیا تھا جو رات کے وقت ٹیوب لائٹ کی روشنی میں بہت خوب صورت، کھلا کھلا لگ رہا تھا۔ دیوار کی طرف سے چھت کا تھوڑا سا حصہ کھلا چھوڑ دیا گیا تھا اور دیوار بھی آدھی رکھی گئی جس سے اچھی خاصی بالکنی سی بن گئی تھی۔ اس پر ایک خوشنما پردہ لٹکا دیا گیا جو ابھی ایک طرف سرکا ہوا تھا، وہاں سے کھلا آسمان نظر آ رہا تھا اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بھی آ رہے تھے۔ مجموعی طور پر مجھے یہ گھر پسند آیا۔ ایک خوش گوار سا احساس ہوا دیکھ کر اور یہ سوچ کر بہت ہی اچھا لگا کہ یہ گھر میرا ہے!! ایک طمانیت سی رگ و پے میں پھیل گئی۔
شادی سے ایک ماہ قبل مجھے بتایا گیا تھا کہ میرا پورشن ابھی زیر تعمیر ہے۔ باقاعدہ میرا نام لے کر کہا جاتا کہ یہ پورشن میرا ہے۔ خیر.... شادی کے کچھ دن بعد پتا چلا یہ گھر بس” تھوڑا سا“ میرا ہے باقی ”سب گھر والوں کا ہے۔“
”چلو کوئی بات نہیں! اب پورا پورشن مجھے دے دیں گے تو باقی سب لوگ کہاں رہیں گے! یہ تو ان کی محبت تھی کہ اس پورے گھر کو میرے نام سے منسوب کرتے رہے۔“ دل نے فوراً ان کے حق میں تاویل گھڑی۔ سو ہم سب مل جل کر اس گھر میں رہنے لگے۔
میرے اور دلہے میاں کے علاوہ بھی یہاں چار لوگ تھے۔ ایک میری ساس اماں، ایک دیور اور دو نندیں...!! میں اپنی تین جیٹھانیوں کے سر پہ رہائش پذیر تھی۔ پینتالیس گز پر بنے اس گھر کے چار پورشن تھے جو ایک دوسرے کی چھت پر بنے ہوئے تھے اور پہلی منزل، دوسری منزل، تیسری منزل، چوتھی منزل کے نام سے مشہور تھے۔
شادی شدہ زندگی اتنی حسین اور دلکش ہوتی نہیں جتنی شادی سے پہلے لڑکیوں کو نظر آتی ہے۔ ماں باپ ساری زندگی ایک بات سکھاتے رہتے ہیں کہ تمہیں اگلے گھر جانا ہے وہی تمہارا گھر ہے اور جب لڑکی اس گھر میں قدم رنجہ فرماتی ہے تو پتا چلتا ہے یہ گھر اپنا ہے نہیں بلکہ اسے اپنا بنانا پڑے گا... صبر و تحمل سے! قربانیوں سے!!
اور واقعی! گھر بڑی محنت سے بنتے ہیں بڑا دل مارنا پڑتا ہے، خواہشیں قربان کرنا پڑتی ہیں، خود پہ بڑا جبر سہنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے سسرال کا گھر اپنا گھر بنتا ہے۔ ہاں مگر بنتا ضرور ہے! ایک نہ ایک دن قربانیاں رنگ لاتی ہیں۔
** ابا جان نے فرنیچر بڑا خوب صورت اور پائیدار لے کر دیا تھا۔ کمرہ بھی کشادہ اور ہوا دار تھا۔ چاندنی راتوں میں کھڑکی سے چاند نظر آتا تو بڑا ہی دلفریب منظر ہوتا... اس لیے مجھے اپنا یہ کمرہ بہت اچھا لگتا تھا۔ شادی کے دوسرے دن کسی نے مجھے الماری کی چابیاں دی تھیں کہ یہ اپنے پرس میں سنبھال کر رکھ لو، میں نے چابیاں پرس میں رکھ لیں۔ تیسرے دن میرے دلہے میاں مجھے میکے لے کر آئے اور دو دن کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ دو دن بعد سسرال والے لینے آئے، ان کے لیے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ جب میں واپس گھر پہنچی تو چھوٹی نند نے عجیب سا سوال کیا...
”بھابھی آپ الماری کی چابیاں اپنے ساتھ لے گئی تھیں؟“ مجھے سمجھ نہیں آیا میں اس سوال کا کیا جواب دوں...؟ کیا مجھے چابیاں ساتھ نہیں لے کر جانی چاہیے تھیں؟ لیکن کیوں؟ یہ الماری میری ہے. اس کے اندر سب سامان میرا ہے، یہ کمرہ بھی میرا ہے اور پھر ان لوگوں نے خود ہی تو چابیاں مجھے دی تھیں کہ سنبھال کر رکھوں اپنے پاس!! تو پھر میں یہ چابیاں ساتھ کیوں نہیں لے جا سکتی تھی؟؟ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ وہ بولی... میں نے اپنے، اماں کے اور بھائی کے کپڑے الماری میں سیٹ کر کے رکھ دیے تھے۔ اب ہمیں کتنی پریشانی ہوئی دو دن تک بغیر چابی کے... وہ تو شکر ہے کچھ کپڑے باہر صندوق میں رکھے تھے جو کام آ گئے...!! وہ ناک بھوں چڑھا کے چلی گئی اور میں حیران... یا الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے؟ انھیں میں نے کہا تھا کہ میری الماری میں اپنے کپڑے رکھو!! مجھ سے پوچھا نہ ہی مجھے کچھ بتایا اور اب یہ انداز!! مجھے انتہائی برا لگا۔ پھر دلہے میاں آئے تو وہ بھی اسی بات پر تفتیش کرنے لگے کہ میں چابیاں اپنے ساتھ کیوں لے گئی تھی؟
”بندہ خدا! مجھے تو جاتے وقت یاد بھی نہیں تھا کہ چابیاں میرے پرس میں ہیں! بھلا میں نے اس سے قبل چابیاں کب سنبھالی تھیں۔ میرا تو خود پہلا پہلا تجربہ تھا جو کہ بالکل اچھا نہیں رہا...! ابھی تو میں نے تسلی سے اس میں اپنا سامان بھی نہیں رکھا تھا کہ میری الماری پہ غاصبانہ قبضہ ہو گیا! اور الٹا قصور وار بھی میں ہی گردانی جا رہی تھی۔
لیکن دلہے میاں الٹا مجھے ہی سرزنش کیے جا رہے تھے کہ میں نے یہ ٹھیک نہیں کیا اور مجھے آئندہ ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ جب بھی کہیں جاؤں چابیاں گھر میں کسی کے حوالے کر کے جاؤں! بلکہ چابیاں سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ الماری میں ہی لگی رہنے دو... یہاں کون سا چوروں کا خدشہ ہے۔
لو بھئی یہ اچھی زبردستی ہے!! ہمارے ابا جان نے یہ سارا فرنیچر ہمارے استعمال کے لیے دیا تھا یا سسرال والوں کے؟ اور سسرال والے بھی ایسے ہیں کہ نہ صرف دلہن کا جہیز استعمال کرنا ہے بلکہ قبضہ بھی چاہیے...!! واہ بھئی واہ!! ہم نے بڑے طریقے سلیقے سے یہ بات دلہے میاں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کہاں سمجھنے والے تھے!! بلکہ ہماری الٹی عقل کو ہی سیدھا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
پھر ہم نے بیٹھ کر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیا... ہر چیز کو بنظر غائر دیکھا... یہ پورشن تو نیا بنا تھا اس میں کچھ بھی نہیں تھا سوائے لاؤنج میں بچھے ساس اماں کے پلنگ اور چھوٹے صندوق کے۔ باورچی خانے میں جو سامان سیٹ کیا گیا تھا وہ سب میرے جہیز کا تھا، کمرے میں سارا فرنیچر اور سامان بھی سب جہیز کا... اس کے علاوہ گھر میں جو کچھ تھا وہ میرے جہیز کا ہی سامان تھا۔ سارا دن اٹھنے بیٹھنے آرام کرنے اور کھانے پینے کے لیے میرا کمرہ ہی استعمال ہوتا تھا، بہت کم وقت باہر لاؤنج میں گزرتا۔
میرے ہی کمرے میں میری کوئی پرائیویسی نہیں تھی۔ جب جس کا دل چاہتا کمرے میں آ جاتا۔ صرف رات کو ہی یہ کمرہ ہم میاں بیوی کا ہوتا تھا دن میں تو یہ سب کا مشترکہ کمرہ تھا۔ میری ہر چیز بے دھڑک استعمال کی جاتی۔ جہیز کے سامان کے علاوہ بھی میرے زیور، کپڑے، میک اپ تک... سب چیزیں...!! لیکن چیزوں کے استعمال پر مجھے کوئی اعتراض تھا بھی نہیں!! آخر چیزیں استعمال کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ اور کپڑوں کی تو کوئی بات ہی نہیں، آخر امی کے گھر میں بھی تو ہم بہنیں ایک دوسرے کے کپڑے پہن لیا کرتی تھیں اگر یہاں بھی نند یا جیٹھانی میرے کپڑے لے کر پہن لیتی ہیں تو کیا ہوا؟ کوئی مسئلہ نہیں!!
پھر میں نے کئی بار دیکھا کہ دیور صاحب تولیا بھی میرا ہی استعمال کرتے ہیں، میری زنانہ غیرت کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ میں نے شوہر سے کہا کہ دیور میرا تولیا استعمال نہ کرے مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس پر بھی میاں کے اعتراض کی پٹاری کھل گئی۔ ”تم پتا نہیں کیوں ہر چیز پر پہرے بٹھاتی ہو... کیا ہوا اگر میرا بھائی بھی یہ تولیا استعمال کر لیتا ہے تو...!!“
(میں بس میاں کو دکھ سے دیکھ کر ہی رہ گئی) یہاں بات بنتے نہ دیکھی تو میں نے تولیا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ لان کا دوپٹا تولیے کی جگہ استعمال کر لیتی۔ مگر ایک چیز پر اپنے دل کو سمجھانا بہت مشکل تھا، مجھے اپنی الماری پر دوسروں کے مالکانہ حقوق بالکل برداشت نہیں ہوتے تھے۔ مگر میرا کوئی زور چلتا نہیں تھا۔
کبھی کبھی میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے سوچتی کہ آخر کیا ہو گیا اگر یہ لوگ میری الماری استعمال کرتے ہیں تو...؟ ہم دونوں میاں بیوی کا کون سا اتنا سامان ہے جو پوری الماری چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ الماری اگرچہ کافی بڑی اور کشادہ تھی مگر اس میں صرف دو پٹ تھے. ایک طرف ہینگر لگا تھا کپڑے لٹکانے کے لیے، دراز اور تجوری وغیرہ تھی جس میں کئی قیمتی چیزیں رکھی تھیں اور دوسری طرف چار خانے بنے تھے جس میں میرے اور سسرال والوں کے کپڑے رکھے تھے۔ میری نندیں جب بھی الماری کھولتیں میرا سب سامان بھی سامنے پڑا ہوتا جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں اپنے شوہر سے پوچھا کرتی: ”جب میری شادی نہیں ہوئی تھی تو آپ سب لوگ اپنے کپڑے کہاں رکھا کرتے تھے؟“
”جب کی بات اور تھی، اب یہ ہے تو سہی!“ انھوں نے الماری کی طرف اشارہ کیا۔ ”تم پتا نہیں کیوں اتنے چھوٹے دل کی ہو!“ انھوں نے مجھے ملامت کی۔ ہائیں ہائیں... الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے... یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ گھر میں ہر چیز میری استعمال ہو رہی ہے اور دل بھی میرا ہی چھوٹا ہے..؟ مجھ پر صدمے کی ایک چھوٹی سی پہاڑی ٹوٹ کے گر پڑی جس کے بوجھ سے میں بمشکل آزاد ہوئی۔
کئی باتیں ہم بہت آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں مگر کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں حلق سے نیچے اتارنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہ الماری بھی ایک ایسا ہی کانٹا بن گئی تھی جسے اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ اللّٰہ میاں سے بھی بار بار کہتی کہ میری الماری کو اس غاصبانہ قبضے سے آزادی دلوا دیں... مگر وہاں بھی جانے کس مصلحت کے تحت شنوائی نہ ہو رہی تھی۔ اکثر دل غم زدہ سا ہو جاتا... یا اللّٰہ!! الماری نہ ہوئی... مقبوضہ کشمیر ہو گیا کہ آزاد ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔
گھر میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جو مکمل میری دسترس میں ہو، میری ہر چیز مشترکہ تھی۔ پوری الماری تو ایک طرف الماری کا ایک حصہ بھی مکمل میرے قبضے میں نہیں تھا۔ یہ چیز میرے لیے اکثر ہی تکلیف کا باعث بنتی۔ مگر یہ مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ میں اپنی ساس اماں سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ مجھے اپنی الماری میں دوسروں کی شراکت گوارا نہیں!! (یہ خیال آتا کہیں ایسا نہ ہو میری بات سے ان کا دل دکھے) بس آہستہ آہستہ اپنے دل کو ہی سمجھا لیا... چلو کوئی بات نہیں جب دلہے میاں اپنی مرضی کے نہیں ملے تو باقی کسی چیز کی حیثیت ہی کیا ہے!! صبر کر لو... جب اتنی بڑی بات پہ صبر کر لیا تو ایک لکڑی کی الماری کی اوقات ہی کیا ہے!!
وقت کا کام ہے گزرنا سو گزرتا رہا... کچھ مسئلے حل نہیں ہوتے، انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کون میری الماری میں کیا رکھ رہا ہے اور کیا نکال رہا ہے کیوں کہ میں نے انھیں مکمل طور پر دل سے قبول کر لیا تھا، یہ سب میرے ہیں اور میں ان کی۔ بس بات ختم!! اب تیرا میرا کیا کرنا... چیزیں انسانوں کے لیے ہوتی ہیں، انسان چیزوں کے لیے نہیں ہوتا کہ ان کے پیچھے ہلکان ہوتا پھرے۔ زندگی میں اچھی باتیں بھی بہت سی ہیں ان پر توجہ مرکوز کر لی جائے۔ جو مسئلے باوجود کوشش اور دعاؤں کے حل نہیں ہوتے انھیں چھوڑ دینا چاہیے! اپنے وقت پر سب سدھر جاتا ہے۔ اور نہ بھی سدھرے تو کوئی بات نہیں! کبھی کبھی کچھ چیزوں کے ٹیڑھا ہونے میں ہی خیر ہوتی ہے۔ شادی کے چھے سات سال بعد نندوں اور دیور کی شادی ہو گئی۔ سب اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے۔ اور وہ گھر جو میرے نام سے منسوب تھا، اب مکمل طور پر میرا ہو گیا تھا۔ اور ہاں!! میری پیاری الماری بھی میری ہو گئی تھی، بلا شرکتِ غیرے....!!