آۓ تو وہ صوبے دار کے حکم پر ان کی جائیداد نیلام کرنے تھےمگر ماں بیٹی کی غیرت مندی اور بے سروسانی نے ان کو سوچنے پر مجبور کر دیا.درددل رکھنے والے شیخ فتح محمد نے مجیدہ بیگم کو پورے عزت واحترام سے اپنے گھر میں بسالیا۔
جویریہ شعیب- انگلینڈ
صوبے دار عبدالرسول سے کیے گۓ معاہدے کے مطابق چھ مہینوں کے اندراگر لگان ادا نہ کیا گیا تو آبائی جائیداد نیلام کر دی جاۓگی".مجیدہ بیگم نے ماں کی پریشانی میں ڈوبی آواز سنی،مگر اصل آزمائش تو اس وقت شروع ہوئی جب معاہدے کے چار ماہ کے اندر ہی میر اکبرعلی خان دنیا
چھوڑ کر چلے گۓاور یوں ان ماں بیٹی کی تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی.اس پریشانی کے عالم میں شیخ فتح محمد ان کے لیے کسی فرشتے سے کم نہ تھے،آۓ تو وہ صوبے دار کے حکم پر ان کی جائیداد نیلام کرنے تھےمگر ماں بیٹی کی غیرت مندی اور بے سروسانی نے ان کو سوچنے پر مجبور کر دیا.درددل رکھنے والے شیخ فتح محمد نے مجیدہ بیگم کو پورے عزت واحترام سے اپنے گھر میں بسالیا.اس وقت فتح محمد ایک بیٹے کے باپ تھے، دوسری شادی کا مقصد ایک مجبور اور بے کس عورت کو سہارا دینا تھاجو انہوں نے بخوبی ادا کیا.یوں مجیدہ بیگم مزید کسی بڑی آزمائش کےخوش وخرم زندگی گذارنے لگیں۔
انہوں نے ماں باپ کے حالات زندگی دیکھے تھے،بغیر بیٹے کے انہوں نے بہت سے آزار سہے تھےکچھ انہی حالات کا اثر تھا کہ جب حیدر علی ان کی گود میں آیا تو ان کی آنکھیں خوشی سے چھلک گئیں.
زندگی اپنے ڈھب پر تھی کہ فتح محمد کی پہلی بیوی اچانک وفات پا گئی،اور یوں دس سالہ شہباز کی ذمہ داری بھی مجیدہ بیگم کے کاندھوں پر آ گئی ،مگر ابھی تو بہت کچھ سہنا باقی تھا، ایک ماہ بعد ہی صوبے دار عبدالرسول اور نواب طاہر محمد خان میں صوبے داری کے لیے جنگ چھڑ گئی،عبدالرسول کو شکست ہوئی اور فتح محمد نے لڑتے ہوئے جان دے دی۔
مجیدہ بیگم پر تو جیسے زندگی تنگ ھو گئی مخالف نے اقتدار میں آتے ھی ان پر زندگی تنگ کر دی.جواں سال مجیدہ بیگم دونوں بچوں پانچ سالہ حیدر علی اور دس سالہ شہباز کے ساتھ تپتے صحرا میں آ کھڑی ہوئیں.گھر میں موجود اناج اور کپڑوں تک کو لوٹ لیا گیا.نہ باپ بھائی کا سایہ نہ سر پر اپنی چھت,25-26سالہ مجیدہ بیگم بیک وقت کئی غموں میں جھلسی تھیں,پہلے تو عین جوانی میں بیوہ ہونا،پھر گھر کی چار دیواری تک نیلام ہو جانا اور سب سے بڑھ کر اولاد کا تاریک مستقبل ،غموں کا ایک سمندر تھا.دوسری شادی کے مشوروں پر انہوں نے عمل نہ کیا اور دونوں بچوں کے سر کا سایہ بن گئیں۔
عجیب بات ہے کہ جب آپ کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہوتاہے تو خاندان والے آپ کی شان میں زمین آسمان ایک قلابے میں ملا دیتے ھیں اور اگر یہ ستارہ گردش میں ہو تو طعنہ زنی کرنے والے بھی سب سے پہلے یہی ہوتے ھیں.خاندان کے لوگ حیدر علی کو منحوس کہہ کر پکارتے تھے کہ اس کاباپ میدان جنگ میں مارا گیا تھا اور پے درپے آنے والی مصیبتوں کو دیکھتے ھوۓ یہ پیشن گوئی کی جاتی کہ اب فتح محمد کا گھرانہ کبھی اس گرداب سے نہیں نکل پاۓ گا، پر مجیدہ بیگم کی تربیت اور بیٹے کی سخت جدوجہد نے یہ دن دکھایا کہ پانچ سال کی عمر میں یتیم ہونے والا بچہ ایک دن ریاست میسور کا حکمران "نواب حیدر علی" بنا،وہ حیدر علی جس نے کبھی والدہ سے نظر اٹھا کر بات نہیں کی، جس کی اطاعت اور فرماں برداری کی مثالیں دی جاتی تھیں,اس دن مجیدہ بیگم مبارک بادوں کی پر شور آوازوں کی گونج میں ایک کونے میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھیں.
نوٹ: یہ نواب حیدر علی ،شیر میسور فتح علی ٹیپو سلطان کے والد گرامی تھے۔