لاریب عبد الحمید میر پور خاص
والدین ہی وہ ہستی ہیں، جو اپنے بچوں کی تمام تر ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ ان کی ہر طرح کی مدد کرتے ہوئے انہیں پالتے پوستے ہیں ، تعلیم دلواتے ہیں اور پھر انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اپنا سکھ ، چین ،آرام ، سکون غرض اپنی ہر راحت کو اپنے بچوں پر قربان کر دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے برعکس بچوں کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ اتنا اچھا نہیں ہوتا ۔
جب والدین کو اپنے بچوں سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں بچوں کی طرف سے مایوسی ہوتی ہے ۔ اور آج کے دور میں تو بہت ہی کم والدین ایسے ہیں جنہیں ہونہار ، تابعدار اولاد نصیب ہوتی ہے ۔ لیکن اس میں صرف بچوں کا ہی قصور نہیں ہوتا، اس میں والدین بھی برابر کے شریک ہیں ۔ ذیل میں ہم کچھ بنیادی باتوں کا ذکر کرتے ہیں :
٭اپنے خیالات بچوں پر مسلط کرنا :
یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں مگر خیالات نہیں دے سکتے ۔ کیوں کہ سب کے خیالات الگ الگ ہوتے ہیں ۔
٭قول و فعل میں تضاد :
قول و فعل میں تضاد والدین اور بچوں کے درمیان خلیج بنتا ہے ۔ آپ اپنے بچے کے سامنے کسی اور کے بچے سے محبت کریں اور اپنے بچوں کو نظر انداز کرکے یہ دعویٰ کریں کہ آپ کو اپنی اولاد سے بہت محبت ہے ۔ یہ دعویٰ قول و فعل میں خرابی کا سبب بنتا ہے ۔ اس طریقے سے بچے والدین سے دور ہوتے ہیں ۔
٭جھوٹے وعدے :
عموما والدین بچوں سے کچھ ایسے وعدے کر لیتے ہیں جنہیں پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا اور اکثر تو ان کی نیت بھی پورا کرنے کی نہیں ہوتی بلکہ محض بچوں کو ٹالنا مقصد ہوتا ہے ۔ یہ رویہ اور ایسے جھوٹے وعدے والدین اور بچوں کی دوری کا سبب بنتے ہیں ۔
٭بچوں کو وقت نہ دینا :
ایک دور تھا جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ پورے اہتمام سے وقت گزارا کرتے تھے اور آج کل اکثر والدین اپنے بچوں کو یوں تو سب کچھ دیتے ہیں مگر انہیں وقت نہیں دے پاتے ۔آج اگروالدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے کل جب والدین کو بچوں کی ضرورت ہوتی ہے تو بچوں کے پاس بھی والدین کے لیے وقت نہیں ہوتا ۔
بعض والدین اتنے بے فکر ہو جاتے ہیں کہ ان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے بچے کس سمت میں سفر کررہے ہیں ، کن مشاغل میں اپنا وقت بسر کر رہے ہیں ، کیا خواب دیکھتے ہیں ۔
بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہوکہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کام انجام دیں ۔ یاد رکھنا چاہیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے گھر کی تعمیر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر کی تھی۔ بڑوں کو چاہیے چھوٹوں کے ساتھ مل کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔ اور اپنے خوابوں میں اپنے چھوٹوں کو شریک کریں ۔ اس طرح چھوٹے بھی اپنے خواب بڑوں کو بلا جھجک بتاسکیں گے ۔ بڑے چھوٹوں کو نصیحت ضرور کریں ، لیکن ایسے جیسے حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے ۔ سمجھداری ، حکمت ، محبت اور پیار بھری نصیحتیں ، کہ کوئی بھی نصیحت بار خاطر نہ ہو ۔ طنز اور طعنوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے کتنے ہی والدین ایسے ہیں کہ دولت کمانے کی دھن میں ساری زندگی بچوں سے دور گزاردیتے ہیں ۔ بچوں کے لیے دولت کماتے رہتے ہیں مگر بچوں کو کھوتے رہتے ہیں ۔ دولت بچوں کے ہاتھ لگی ، بچے شیطان کے ہاتھ لگے ۔ بے چارے والدین کے ہاتھ کیا آیا ؟؟؟
خالی ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے دل کے ----
بس یہی وجوہ ہیں جو والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں پیدا کر رہی ہیں ۔
جسے ہوائے زمانہ کبھی بجھا نہ سکے
قدم قدم پہ اک شمعِ راہ پیدا کر