ابا میاں کو شکار کا بہت شوق تھا۔ گرمیوں میں تو یہ شوق ذرا دھیما ہوتا مگر سردیوں میں اپنے عروج پہ پہنچ جاتا۔ مچھلی کا شکار کرنے نکل پڑتے۔ پہلے پہل تو سائیکل پر جایا کرتے تھے پھر موٹر سائیکل خرید لی۔ مفلر کانوں کے گرد لپیٹا، کوٹ پہنا، مچھلی کی ڈور والا تھیلا اٹھایا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔! ابا میاں جتنا مچھلی کا شکار کرنے کے شوقین تھے اتنا ہی مچھلی کھانے کا بھی شوق رکھتے تھے
ام محمد سلمان
سردیاں آتی ہیں تو ڈھیر ساری یادیں بھی در آتی ہیں اور دل کے دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ان دریچوں میں جگہ جگہ یادوں کے دیپ جلتے ہیں۔ کہیں بارش برستی ہے، کہیں تیز چمکیلی دھوپ نکلتی ہے تو کہیں دھند سے اٹے راستے ہوتے ہیں۔ کہیں گرم تیل میں فرائی ہوتی مچھلی کی اشتہا انگیز خوشبو ہوتی ہے،
کہیں چھت پہ جا بجا پھیلے مالٹے اور مونگ پھلیوں کے چھلکے ہوتے ہیں۔ انگیٹھی سے اٹھتا دھواں، الائچی والے قہوے کی مہک، بھوبھل (چولہے کی گرم راکھ جس میں آگ کی چنگاریاں ہوتی ہیں) میں بھنی شکر قندی، تلوں کی پاپڑی اور مٹھی بھر چلغوزے۔ اماں کی اون سلائیاں۔۔۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی رضائی گدوں پر قلابازیاں۔۔۔ اور نجانے کیا کچھ ہوتا ہے۔
اپنے گاؤں کا موسم بھی بڑا مست تھا۔ کبھی نیلے آسمان پہ اڑتے سفید بادل اور چمکتا سورج ہوتا تو کبھی ایسے کہر بار دن ہوتے کہ سورج کے درشن کو ترس جاتے۔۔۔ اور ایسے موسم میں چار چاند لگانے کو ہمارے ابا جی ہوتے۔۔!
ابا میاں کو شکار کا بہت شوق تھا۔ گرمیوں میں تو یہ شوق ذرا دھیما ہوتا مگر سردیوں میں اپنے عروج پہ پہنچ جاتا۔ سہ پہر کے وقت آئے دن دکان بند کر کے مچھلی کا شکار کرنے نکل پڑتے۔ پہلے پہل تو سائیکل پر جایا کرتے تھے پھر موٹر سائیکل خرید لی۔ مفلر کانوں کے گرد لپیٹا، کوٹ پہنا، مچھلی کی ڈور والا تھیلا اٹھایا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔! ابا میاں جتنا مچھلی کا شکار کرنے کے شوقین تھے اتنا ہی مچھلی کھانے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ کون سا شوق حاوی ہے۔ اکثر تو ”کالو مچھیرا“ ابا میاں کی دکان پہ ہی مچھلی دے جاتا مگر اس کے بعد بھی وہ اگلے دن پھر شکار کی تیاریوں میں مصروف ہوتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ رات سات آٹھ بجے تک ان کی واپسی ہوتی۔ ہم اس وقت ٹی وی پر آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھنے میں مشغول ہوتے اور میں تو بآواز بلند شکار نہ ملنے کی دعائیں کر رہی ہوتی تھی۔۔
”اللّٰہ میاں! اللہ کرے ابا جی کا شکار نہ لگے۔ کوئی مچھلی نہ ملے ورنہ گھر میں اتنا کام پھیل جائے گا۔۔ ڈراما بھی چھوٹ جائے گا۔" (اس وقت ڈرامہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ تو ہوتا نہیں تھا کہ چلو پھر دیکھ لیں گے) اور اماں میری اس حالت پہ ہنستی تھیں اور کہتیں:
”اس لڑکی کو دیکھو ذرا ۔۔ مچھلی کھانے کا شوق بھی اسی کو ہے اور نہ ملنے کی دعائیں بھی سب سے زیادہ یہی کرتی ہے۔“
مگر ابا میاں بھی ناں۔۔۔ بس ہمیشہ میری دعاؤں کے الٹ چلتے تھے۔ گھر میں داخل ہو کے زور دار سلام کرتے ہی شور مچا دیتے۔۔ تھیلا بیچ صحن میں الٹ دیتے اور کہتے دیکھو بھئی دیکھو! آج ماشاءاللہ کیا مچھلی شکار کی ہے بھئی واہ۔۔۔ کیا دانہ پکڑا ہے۔۔۔ بیٹا ذرا ترازو لانا وزن تو کروں۔۔۔ اور وزن مشکل سے تین پاؤ نکلتا۔۔ کسی دوسری کا آدھا کلو۔۔ کسی کا کلو ڈیڑھ کلو بھی نکل آتا۔ گلے (لکڑی کا چھوٹا باکس) میں سارے باٹ پڑے رہتے تھے۔ ابا ترازو ہاتھ میں اٹھائے ساتھ ساتھ ہمیں بھی وزن تولنا سکھاتے رہتے۔
”یہ دیکھو بیٹا یہ پاؤ ہو گیا ، یہ باٹ ملا کے ڈیڑھ پاؤ، یہ سیر یہ سوا سیر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔“
چلو بھئی وزن تل گیا تو اب بٹیا کی شامت آئی۔۔۔ بیٹی ذرا چھری لاؤ۔۔۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے چار پانچ طرح کی تو چھریاں ہوتی تھیں اور بگدا الگ۔
پرات لاؤ، چھننا لاؤ ۔۔۔ ذرا چھری تیز کر کے لاؤ۔
مڈھی پہ مچھلی رکھ کے سر کاٹا جاتا، چھلکے اتارے جاتے پھر اندر سے پیٹ چاک کر کے صاف کرتے اور دھو دھلا کے میرے حوالے کر دیتے۔ اور اس مختصر سے عرصے میں نجانے کتنی دفعہ مجھے اٹھک بیٹھک کروا دیتے۔ ابھی ایک چیز لا کے پکڑاتی نہیں تھی کہ دوسری کا تقاضا کر دیتے۔ ایسے میں چھوٹا بھائی عمران بھی میرے ساتھ ساتھ چکر کاٹ رہا ہوتا تھا۔ پھر ابا کہتے۔۔۔
”چلو جلدی سے چولہے میں آگ جلاؤ۔۔۔ اچھا چلو سلنڈر پہ پکا لو۔۔۔ ہاں بیٹے پیاز کا خیال رکھنا جلنے نہ پائے ورنہ سارے سالن کا ذائقہ بگڑ جائے گا۔“ (اتنی سردی میں سل بچھا کے پہلے تو لہسن، ہلدی اور خشک دھنیے کا مسالا پیسنا پڑتا)
"بیٹا جلدی سے پکا کے لے آ۔ آج روٹی میں نے اسی سے کھانی ہے۔" اور یہ ”آج“ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ہوتی تھی۔ ابا میاں کو یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ چار دن پہلے بھی رات کو ہی شکار بھون کے کھایا تھا اور آج پھر وہی تقاضا۔۔۔
ویسے ابا میاں کی ہی کیا بات! میں تو خود بڑے شوق سے مچھلی کھاتی تھی۔ کبھی کبھی تو وہ چھوٹی والی مچھلیاں بھی لاتے تھے جنھیں کوئلوں کی دھیمی آنچ پہ بھون کے کھانے میں بڑا ہی مزہ آتا تھا۔ کبھی مچھلی کو مسالا لگا کے چھینکے میں رکھ دیتے اور دوسرے دن اماں دوپہر کے کھانے میں تل لیتیں۔ سردی کے موسم میں بغیر ریفریجریٹر کے بھی مچھلی خراب نہیں ہوتی تھی۔ ارے بھئی ٹھنڈ ہی اتنی پڑتی تھی۔ اور ویسے بھی اس زمانے میں جس کے گھر میں فریج ہوتا اسے تو سب خلائی مخلوق سمجھتے تھے۔ مجھے تو کافی ساری مچھلیوں کے نام بھی یاد ہو گئے تھے۔ سنگاڑا، سول، کھگا، ملی، بام، رہو، ٹراؤٹ اور پامفلیٹ ۔۔۔ اور جانے کون کون سی۔۔۔۔!
ابا میاں کام کے ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کرتے جاتے تھے.... آج ہم کتنے دوست تھے، کیسے پہنچے، وہاں کیا کیا ہوا؟ کتنے شکار ہاتھ سے نکلے، کون کون سی مچھلی جل دے گئی... وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت ان کا جوش دیکھنے والا ہوتا تھا اور مجھے ہر بات پہ ”جی ابا جی، اچھا ابا جی، نہیں ابا جی، ہاں ابا جی۔۔۔۔“ کہنا لازم ہوتا ورنہ اس بات پہ ڈانٹ پڑتی کہ میرا دھیان کدھر ہے۔۔۔ ؟ (جو کہ اکثر ڈرامے کی طرف ہوتا تھا)۔
اس کے ساتھ مچھلی کے فائدے بھی گنواتے رہتے۔ ”بیٹا سردی میں جسم کو گرم رکھتی ہے مچھلی اور جلد بھی سلامت رہتی ہے پھٹتی نہیں۔ قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے، بندہ بیمار نہیں ہوتا۔ ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے اور خون کی روانی بھی اچھی رہتی ہے جسم میں۔“
اور ہماری بالی عمریا کہتی ۔۔۔ ابا میاں اتنے فائدے نہ ہوں تو بھی ہم نے مچھلی کھانی ہی کھانی ہے۔۔ کیا کریں کہ یہ شوق ورثے میں ملا تھا۔
اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بھی ابا مچھلی کھانے کے شوقین رہے۔ اور یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ اتنی عمر ہو جانے کے باوجود بھی ان کے چہرے سے کہیں بڑھاپے کے آثار ظاہر نہیں ہوتے تھے۔
اب بھی سردیاں آتی ہیں۔ بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ دھند بھی چاروں طرف پھیل جاتی ہے مگر وہ یادیں ماضی کا قصہ بن گئیں۔ اُس سنہری دور کا بانکپن آج بھی بصارتوں میں گردش کرتا ہے، سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔ یوں لگتا ہے ابھی بھی کسی وقت ابا جی کا فون آئے گا اور کہیں گے:
”بیٹا تمہارے لیے مچھلی خرید کے رکھ لی ہے، سلمان کو بھیج دینا وہ لے جائے گا“۔ مگر اب وہ کہاں رہے۔۔۔ وہ تو دور بہت دور اپنے رب کے پاس چلے گئے۔
ماں باپ زندگی کا وہ عظیم سرمایہ ہوتے ہیں جو ساتھ نہ ہو کر بھی ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ یادوں میں رہتے ہیں، خوابوں میں بستے ہیں اور دل کو گرماتے ہیں۔ کبھی آنسوؤں کے راستے بہتے ہیں تو کبھی خوشیوں کے پھول بن کر کھلتے ہیں۔ دل ہمیشہ ان کے لیے دعا گو رہتا ہے ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ.......!