اس کی ساس کے بڑے بھائی بہت امیر کبیر تھے ان کے گھر کے حالات ان سے پوشیدہ نہ تھے بھانجے کے لیے کئی دفعہ نوکری کی کوشش کرچکے تھے پڑھا لکھا تو تھا نہیں مگر پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں اچھی تنخواہ کے ساتھ سیٹ کرواچکے تھے مگر اپنی ازلی لاپروا طبعیت کے باعث وہ کم ہی کہیں ٹک پاتا تھا
بنت مسعود احمد کراچی

پہلی قسط
سیمی کو گود میں لیے لیے اس کے ہاتھ تھکنے لگے تھے پر اسے اٹھاۓ ابھی اور چلنا تھا۔۔۔پھولی ہوئی بے قابو ہوتیں سانسوں کو نظر انداز کرکے۔۔۔
سیمی کا بخار کی شدت سے تپتا وجود اس کے دل میں امنڈتے ممتا کے جذبات کو پگھلائے دے رہا تھا۔۔۔انکھوں میں نہ چاہتے ہوۓ بھی دھندلاہٹ اتری ہی جارہی تھی۔۔۔۔اس لمحے وہ اس شخص کو یاد کرنے پر مجبور ہوچکی تھی جو اسے زندگی میں ہر طرح کے سردو گرم سے آشانہ کرنے کاسبب بنا تھا۔
کلینک پر پہنچ کر اس نے خالی کرسی کی تلاش میں نظر دوڑائیں جو نامراد لوٹ آئیں۔۔۔اس نے گہری سانس بھر کر سیمی کو دوسرے بازو پر منتقل کیا اور دیوار سے ٹیک لگاکر ایک طرف کو کھڑی ہوگئی۔اس کا نمبر گیارہواں تھا اور ابھی ڈاکٹر آئی بھی نہیں تھی۔ایک طویل انتظار اس کا منتظر تھا۔اس وقت رات کے آٹھ بجے تھے اور وہ اس طرح اکیلی پہلی بار نکلی تھی بلکہ نکلنے پر مجبور ہوگئی تھی۔۔۔اماں سے اپنے گھٹنوں کے باعث چلنا دشوار تھا۔۔سردیوں کے دن تھے اس لیے ابا تو عشاء کی نماز پڑھ کر اب سونے لیٹ چکے تھے۔چھوٹا بھائی ابھی کام پر سے لوٹا نہ تھا اور بڑے بھائی اسد البتہ گھر آچکے تھے اس نے صحن میں کھڑی ان کی بائیک دیکھ کر جانا۔آج وہ سیدھے اوپر اپنے پورشن میں ہی چلے گئے تھے ورنہ اماں ابا کو سلام کرنے تو آتے ہی تھے۔اس نے سوچا شاید آج زیادہ کام ہوگا اور تھک گئے ہوں گے۔پھر اسد سے چھوٹے قاسم بھیا تو نکلے ہی مغرب کے بعد تھے اپنا رکشہ لےکر۔۔۔
سیمی کو کل رات سے بخار تھا جو صبح ہوتے ہوتے مزید تیز ہوگیا وہ بخار کی دوا دو بار اسے پلاچکی تھی پر بخار کچھ دیر کو اترکر پھر چڑھ جاتا۔اسی کشمکش میں شام ہوگئی۔تھوڑی دور ایک اچھی ڈاکٹر بیٹھتی تو تھی پر وہ جاتی کس کے ساتھ؟
بھائی رسمی سے بات چیت اور حال احوال پوچھ کر اپنے اپنے پورشن میں چلے جاتے رہ گیا ناعمہ سے چھوٹا علی وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والا بندہ تھا۔موڈ ہوا تو گھر کا کام کردیا سودا سلف لادیا ورنہ صاف انکار کرکے گھر سے نکل جاتا۔ وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی اسے فون کیا معلوم ہوا وہ تو آج دیر سے گھر آۓ گا۔اس نے ہمت کی برقع اوڑھا سیمی کو گرم شال میں لپیٹا اور باہر نکل آئی۔
★**★ "دادو بہت بھوک لگ رہی ہے کچھ کھانے کو ہے؟"
اتنی دیر سے وہ اسے اپنے ساتھ کمرا بند کرکے بیٹھی سلائی کر رہی تھی۔جیسے ہی اطلاعی گھنٹی بجی وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی کام چھوڑ کر کھڑی ہوگئی اور دروازہ کھولنے کے لیے اپنے گمرے سے نکلی تو سیمی فورا کمرے سے نکل کر دادو کے پاس جاپہنچی۔
"کہاں سے لاؤں گی بیٹا میں کھانے کو۔۔۔اپنی امی سے کہو کہ روٹی پکادیں وہی کھاکر پیٹ بھرلو میری بچی۔" "مجھے روٹی نہیں کھانی کتنے دن سے دال روٹی کھارہے ہیں اب مجھے پراٹھا چاہیے یا پھر آلو کے چپس۔۔۔"اس نے نروٹھے پن سے ایسے ان سے فرمائش کی جیسے وہ اس کی فرمائش پوری کر ہی دیں گے۔ "تیرا ابا کچھ پیسے لے کر آۓ گا تب ہی تمہارے پسند کی چیزیں آسکیں گی۔وہ آہستگی سے بولیں اور سیمی ان کی بات سن کر روتی ہوئی واپس پلٹی۔
دروازے پر برابر والی سنبل تھی جو اپنی فراک کا ڈیزائن ناعمہ کو سمجھانے آئی تھی۔ ابھی وہ دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ ایک اسکوٹر ان کے گھر کے دروازے پر آرکی۔اس کی چھوٹی نند اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ آئی تھی اس کا میاں اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ ★**★
ناعمہ نے نند کو کمرے میں بٹھایا اور پانی لینے کچن میں جانے کو مڑی کہ کمرے کے سامنے سے گزرتے اسے سیمی کے رونے کی آواز سنائی دی۔
"کیا ہوا بیٹی؟؟"
وہ تڑپ کر اس تک آئی۔
"کچھ نہیں۔۔۔مجھے کسی سے بات نہیں کرنی ۔۔۔آپ جائیں۔"
"دیکھو تو پھوپھو آئی ہیں ایشا اور عیسی بھی ہیں آکر سلام کرو۔سب سے ملو۔"
"مجھے کسی سے نہیں ملنا۔"سیمی نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
وہ بے بسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اسے پانی لے کر جانا تھا۔
★***★ "کیا کریں گے ناعمہ اب؟"ساس فکر مندی سے کچن میں اس کے پاس آکر بولیں۔وہ خود متفکر سی کھڑی تھی۔ "اماں چند روٹیوں کا آٹا بچا تھا وہی گوندھ کر رکھا تھا اور دال ہے وہ بھی بغیر تڑکے کی کہ تیل تو پرسوں کا ختم ہوچکا ہے۔"
"تم چاۓ کا پانی رکھو میں کچھ دیکھتی ہوں جاکر یہ لڑکا تو اس بڑھاپے میں بھی مجھے سکون نہیں لینے دے رہا۔"وہ اپنے بیٹے اور اس کے شوہر کو کہتی کچن سے نکل گئیں۔
اس کی ساس کے بڑے بھائی بہت امیر کبیر تھے ان کے گھر کے حالات ان سے پوشیدہ نہ تھے بھانجے کے لیے کئی دفعہ نوکری کی کوشش کرچکے تھے پڑھا لکھا تو تھا نہیں مگر پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں اچھی تنخواہ کے ساتھ سیٹ کرواچکے تھے مگر اپنی ازلی لاپروا طبعیت کے باعث وہ کم ہی کہیں ٹک پاتا تھا۔۔۔دس پندرہ دن یا بہت ہوا تو مہینا دو مہینے بس اس سے زیادہ وہ کہیں دل جمعی سے کام نہیں کرپاتا تھا اسی لیے ناعمہ اور اس کی لاڈلی بیٹی سیمی بھی رل کر رہ گئی تھیں رہیں اماں تو وہ جب دیکھتیں کہ حالات بالکل ہی مخدوش ہوچکے ہیں تو برقع پہن کبھی کسی بھائی تو کبھی کسی بہن کے یہاں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ رکنے چلی جاتیں پیچھے بہو اور پوتی کیسے گزارہ کریں گے انہیں اس کی کچھ فکر نہ ہوتی۔ بھائی اکثر مالی مدد کردیا کرتے تھے مگر وہ عمار کی نظروں سے بچاکر رکھا کرتیں پر جیسے ہی ان کی لاڈلی فضا رکنے آتی اس کے لیے اور اپنے نواسوں کے لیے ہاتھ کھلا کرلیتیں۔
ناعمہ کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی کہ سیمی بھی تو ایشا اور عیسی کی طرح بچی ہی ہے وہ کبھی فرمائش کرتی ہے تو ہمیشہ اماں ٹال جاتیں ہیں کیا وہ ان کا خون نہیں۔ ★***★
تقریبا آدھے پونے گھنٹے بعد اس کی ساس لدی پھندی واپس آئیں۔دودھ،دہی،چاۓ کی پتی ،چینی،تیل، چاول مرغی اور شام کی چاۓ کے لیے گرماگرم رول سموسے ۔۔۔
ناعمہ نے جلدی سے دودھ جوش کرنے رکھا اور سارا سامان جگہ پر رکھ کر فٹا فٹ چاۓ بنائی دسترخوان بچھاکر رول سموسے رکھے دہی کا رائتہ بنایا۔
اماں جلدی سے اپنی الماری سے بسکٹ کا ڈبہ نکال لائیں اور نواسے نواسی کو دیا۔اماں اور فضا باتوں میں مگن تھیں اور ساتھ ساتھ گرما گرم سموسوں سے بھی لطف لے رہیں تھیں۔سب اپنی پلیٹوں میں چیزیں ڈال چکے تو وہ بھی ایک رول لے کر بیٹھ گئی۔
سیمی کہاں ہے؟اچانک فضا کو بھتیجی کا خیال آیا۔
"وہ سوگئی ہے۔"۔اس نے آئستگی سے کہہ کر رول کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا۔
"اس وقت۔؟؟"مغرب میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔
"ہاں۔۔۔اسکول سے آکر سوئی نہیں بہت چڑچڑی ہورہی تھی تھکن سے تو سو گئی۔"
اس نے چاۓ کا گھونٹ بھر کر وضاحت کی۔ ★**★
سب کھاچکے تو اس نے جلدی جلدی برتن سمیٹ کر دھو کر رکھے پلٹیں ساری خالی ہوچکیں تھیں اب بچے کھیلنے میں لگ گئے تھے اور فضا اور اماں باتوں میں۔۔۔
اسے ابھی رات کے لیے سالن بنانا تھا جو آٹا وہ ناکافی تھا اس لیے اماں نے روٹی بازار سے آجاۓ گی کا عندیہ دے دیا۔ اس نے چولہے کے سائیڈ میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور کمرے میں آگئی۔
سلائی مشین کے پاس پڑے بڑے کشن پر سیمی گٹھڑی بنی سورہی تھی۔جب سے اسکول سے آئی تھی پراٹھا کھانے کی ضد کر رہی تھی گھر میں گھی تیل ہوتا تو وہ بنادیتی اور نہ اس کے پاس پیسے تھے کہ وہ بیٹی کی فرمائش پوری کردیتی۔ "میں دادی سے کہتی ہوں وہ مجھے پراٹھا باہر سے لا دیں گی۔"
"نہیں گڑیا۔۔۔ابو رات کو آئیں تو ان سے کہنا۔"اسے سلائی کے کپڑے کل دینے تھے اور سیمی کی ضد عروج پر تھی بار بار اس کی آواز سے سلائی کرتے اسے مشکل ہورہی تھی مگر وہ تحمل سے اس کی ضد ٹال رہی تھی۔ "اس دن ایشا اور عیسی کو بھی تو دلوایا تھا دادی نے پراٹھا۔۔۔"اسے پچھلے ہفتے کی بات یاد تھی۔ "اب پیسے نہیں ہیں دادی کے پاس بھی میری جان۔۔۔ایسے ضد کرنا اچھی بات نہیں اچھے بچے ضد نہیں کرتے ابھی دال روٹی کھالو میری جان۔۔۔کب سے بھوکی ہو۔"
"نہیں مجھے نہیں کھانی روز ایک ہی چیز پکارہی ہیں۔۔۔کچھ چاول بنالیں یا پھر سالن روٹی۔۔۔" وہ معصومیت بھرے انداز میں احتجاج کرتی اس کی آنکھوں کو نم کرگئی۔ ابھی وہ دونوں یہی باتیں کر رہی تھیں کہ دروازہ بج گیا ناعمہ دروازہ کھولنے باہر صحن میں گئی اور وہ تیزی سے دادی کے پاس فرمائش لے کر جاپہنچی جسے ہر بار کی طرح رد کردیا گیا۔وہ روتے ہوۓ کمرے میں آئی اور کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
ناعمہ نے اسے سیدھا کرکے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔کمزور تھکن زدہ چہرے پر آنسوؤں کے نشان بنے تھے اس نے جھک کر اس کی پیشانی چوم لی۔
"گڑیا اٹھو۔۔۔"اس نے پیار سے اس کا چہرہ تھپتھپایا۔۔۔
وہ کسمسائی اور کروٹ بدل کر پھر سوگئی۔
"اٹھو گڑیا۔۔۔"دیکھو میں آپ کے لیے آپ کی پسند کا رول لائی ہوں۔"
اس نے پلیٹ میں رکھا رول اس کے سامنے کیا جس کے سرے سے تھوڑا سا ٹکڑا غائب تھا۔
"مجھے نہیں کھانا۔"۔۔وہ ناراض تھی۔۔۔پر وہ بھوکی بھی تھی۔۔
"میری جان۔۔۔آپ کے بابا آئیں گے تو آپ کو پراٹھا بھی منگوا دوں گی۔"
"نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا۔"۔۔وہ نروٹھے پن سے بولی۔
*سیمی۔۔۔۔میری اچھی والی گڑیا ہے نہ۔۔۔یہ دیکھو کتنے مزے کا رول ہے۔۔۔اس میں چکن بھی ہے۔"
وہ پیار سے بولی ۔
"آپ نے کھایا۔۔۔۔؟"
"ہاں میں نے کب کا کھا لیا۔"
"اچھا۔۔۔مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔"وہ رغبت سے کھانے لگی۔
★"**★
سالن پک کر تیار ہوا ہی تھا کہ شوہر نامدار بھی گھر چلے آۓ۔وہ دسترخوان لگاکر اور سب کو کھانے کا کہہ کر خود جلدی جلدی کچن سمیٹنے لگی۔۔۔اسے بھوک نہیں تھی اسے تو کل سلائی کے کپڑے سی کر دینے کی فکر کھاۓ جارہی تھی۔ "کیا ہوا تم کھانا نہیں کھارہی ہو؟"وہ کچن کے دروازے پر آکھڑا ہوا۔ "نہیں ابھی بھوک نہیں۔۔۔"وہ بنا مڑے جلدی جلدی پتیلی مانجھتے ہوۓ بولی۔ اس کی بات سن کر وہ چپ چاپ پلٹ گیا۔اس نے نم آنکھوں سے پلٹ کر اسے جاتے دیکھا۔ ★**★

سیمی ابا کی گود سے چمٹی تھی اور باہر جانے کی ضد کررہی تھی۔۔اور وہ فورا بیٹی کی فرمائش پوری کرنے کو باہر لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی من پسند چیزوں سے بھرا تھیلا اٹھاۓ گھر میں داخل ہوئی۔ اور آتے ہی پھوپھو کے بچوں کو پکارا۔۔۔ "دیکھوں میں کتنی ساری چیز لائی ہوں تم دونوں کے لیے بھی ۔۔۔۔"خوشی اس کی آواز سے پھوٹی جارہی تھی۔ اس نے اطمینان سے جھک کر سوئی پرونی شروع کردی۔ ★**★

وہ صبح اٹھ کر ناشتا بنارہی تھی ۔اماں اور ان کا اکلوتا لاڈلا سپوت کچن کے ساتھ والے کمرے میں ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے فضا اور اس کے بچے ابھی سورہے تھے جبکہ سیمی بھی اس وقت اٹھنے کے موڈ میں نہ تھی۔ دونوں کے باتیں کرنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ "کہیں کام لگا تمہارا؟" "نہیں بھئی روز خواری کر کر کے تھک گیا ہوں۔اماں ماموں سے بات کرو نا کہ کچھ رقم دیں میں سوچ رہا ہوں اپنا کاروبار کرلوں۔"

اماں اس کی بات سن کر جھٹ بولیں۔
"رہنے دو تم۔۔میاں۔۔۔نوکری پر تو ٹکتے نہیں اپنا کاروبار خاک کرو گے۔"
"نوکری میں کیا رکھا ہے مٹھی بھر تنخواہ اور دھکے الگ غلامی الگ۔۔۔"
"پہلے ذمےدار تو بنو ابھی تم سے چھوٹی موٹی نوکریاں نہیں ہو پارہیں اپنے آپ کو بدلو. مزاج میں ٹھہراؤ کہاں ہے؟"وہ خوب اچھے سے آئینہ دکھارہی تھیں۔
"بس تم اکلوتے بیٹے کے ساتھ یونہی تو کرتی ہو۔۔۔میرا حوصلہ بڑھانے کے بجاۓ۔۔۔"۔وہ چڑ کر بولا۔ "پتا بھی ہے گھر میں راشن وغیرہ سب ختم ہے۔۔۔یہ تو کچھ رقم فضا سے ہی اددھار لے کر میں دو تین دن کا سودا لے آئی تھی کل۔۔۔"
"کیا کروں میں۔۔۔نہیں ملتا کوئی کام۔۔۔۔"
"ارے لوگ تو مزدوری تک کر لیتے ہیں مگر تمہارے مزاج نہیں ملتے کام دینے والوں سے۔۔۔ایک بچی کے باپ بن چکے ہو۔۔۔اب تو سنجیدہ ہوجاؤ۔"
"بس آپ رہنے دیں۔۔۔اگر میری بچی کی اتنی فکر ہوتی تو اپنے بھائی سے میرے لیے بات کرتیں۔اتنا پیسہ ہے ان کے پاس اگر چند لاکھ دے دیں گے تو ان کی شان نہیں گھٹ جاۓ گی۔"وہ تلخی سے چیخ پڑا۔
"کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا مجھے پسند نہیں وہ خوشی سے زبردستی جو دے دیتے ہیں تو چھوٹی ہونے کے ناتے رکھ لیتی ہوں پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ہاتھ پھیلانا شروع کردوں۔"اس کی بات سن کر انہیں بھی تھوڑا غصہ سا آگیا۔ وہ چاۓ ناشتا لے کر آئی تو دونوں خاموش ہوگئے پھر ناشتے کے بعد وہ حسب معمول آوارہ گردی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ وہ جانتی تھی اسے کمانے اور گھر چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔پانچ سال ہوچکے تھے شادی کو اور وہ اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی۔کبھی کسی سے ادھار لے لیا تو کبھی کسی سے ۔۔۔یونہی گھر کی گاڑی زندگی کے پیچ و خم سے ہچکولے کھاتی چلی جارہی تھی۔ (جاری ہے)