لو بھئی یہ بھی خوب کہی! ساری دنیا اسی گرمی میں عید منا رہی ہے بس ایک ہم بیٹھے رہیں ،موسم اچھا ہونے کے انتظار میں!! یہ کیا بات ہوئی بھلا! ہماری اماں دنیا سے انوکھی ہیں! انھیں بیٹیوں سے زیادہ بہوویں پیاری ہیں۔ بھلا بتاؤ.. لوگ راہ دیکھتے کہ بہن بیٹیاں گھر آئیں تو عید کی رونقیں اور خوشیاں دوبالا ہوں... لیکن ایک یہ ہماری اماں ہیں.... خدا جانے کہاں سے آرڈر پر بنوا کر لائے تھے ابا مرحوم!! ایسی اماں ہم نے تو نہ دیکھی نہ سنی۔
ام محمد سلمان

”اے چھوٹی! ذرا اماں سے پوچھو تو سہی کب بلا رہی ہیں ہمیں عید کی دعوت پہ؟ پورے دو ہفتے گزر گئے، سب اپنے میکے کی دعوتیں کھا کر آ گئے، ایک ہم ہی بیٹھے ہیں انتظار میں کہ کب ہماری اماں کی طرف سے سگنل جاری ہوں اور ہم بھی میکے کی تکے بوٹیوں کا سواد چکھیں۔“

”رہنے دیں بڑی آپا!! اب کی دفعہ یہ خواب، خواب ہی رہ جائے گا. اماں کا کوئی ارادہ نہیں ہم لوگوں کو گھر بلانے کا۔“ چھوٹی کچھ دکھی سے لہجے میں بولی۔

”لیکن کیوں بھئی...؟“ نادیہ کو سخت جھٹکا لگا۔

”بھئی مجھے نہیں پتا لیکن اماں کہہ رہی تھیں فون پر کہ ابھی مت آؤ، گرمی بہت ہے ذرا موسم اچھا ہو جانے دو!“ ”لو بھئی یہ بھی خوب کہی! ساری دنیا اسی گرمی میں عید منا رہی ہے بس ایک ہم بیٹھے رہیں ،موسم اچھا ہونے کے انتظار میں!! یہ کیا بات ہوئی بھلا! ہماری اماں دنیا سے انوکھی ہیں! انھیں بیٹیوں سے زیادہ بہوویں پیاری ہیں۔ بھلا بتاؤ.. لوگ راہ دیکھتے کہ بہن بیٹیاں گھر آئیں تو عید کی رونقیں اور خوشیاں دوبالا ہوں... لیکن ایک یہ ہماری اماں ہیں.... خدا جانے کہاں سے آرڈر پر بنوا کر لائے تھے ابا مرحوم!! ایسی اماں ہم نے تو نہ دیکھی نہ سنی۔ دل خراب کر کے رکھ دیا سچی۔ بچے کب سے دہائی دے رہے ہیں نانی اماں کے گھر کب چلیں گے؟ اب ہم انھیں کیا بتائیں کہ ہماری اماں جان کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے۔“

”اللہ بس کریں نا بڑی آپا! پتا تو ہے آپ کو بھابھی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی لیے کہہ رہی ہوں گی اماں!! اچھا باجی میں آٹا گوندھ لوں، نوید آتے ہی ہوں گے. آتے ہی کھانا مانگیں گے۔“ ”ارے ہاں... نوید بھی بھوک کا کچا ہی ہے۔ بچوں کی طرح شور مچا دیتا ہے۔ کیا پکا رہی ہو ویسے؟“ ”بھنڈی گوشت بنایا ہے باجی! بچے اور نوید سب شوق سے کھا لیتے ہیں اور اماں ابا (ساس، سسر) بھی۔“ ”اے لو تمہارے سسر کو تو ہائی بلڈ پریشر نہیں ہے!! اس کے باوجود بھی گوشت کھا لیتے ہیں وہ؟ بی پی ہائی نہیں ہوتا ان کا؟“

”اللہ نہ کرے باجی! کاہے کو ہائی ہو بھلا... اتنا تھوڑی کھاتے ہیں وہ بے چارے۔ پھر ساتھ میں دہی، سلاد وغیرہ ہوتی ہے۔“ اچھا چلو ٹھیک ہے تم اپنے کام کرو میں بھی ذرا منی کو دیکھ لوں...!! پھر اماں سے بات کروں گی دعوت کی۔ بڑی آپا نے یہ کہہ کر لائن کاٹی اور جھٹ اماں کا نمبر ملا لیا۔ ***

سلام دعا کے بعد فوراً ہی نادیہ نے گلے شکوے شروع کر دیے۔ اماں پہلے تو ہنستی رہیں پھر بولیں: ”ارے میری چندا! تھوڑا صبر کر لو... دیکھ تو رہی ہو چھوٹی بہو دوسرے جی سے ہے اور آئے دن اس کی طبیعت خراب رہتی ہے۔ اب گھر کا سارا کام بڑی بہو کے کندھوں پر ہے۔ بیٹی میں نے خود ہی نہیں چاہا کہ ایسی شدید گرمی میں تم تینوں بہنیں آؤ اور وہ پریشانی میں پڑ جائیں.“

”اماں! یہ بھی خوب کہی!! کیا ہے اگر ایک دن کی پریشانی اٹھا لیں گی تو... ؟؟ عید کون سا روز روز آتی ہے جو آپ کی بہووں کے اتنے نخرے ہو رہے ہیں! کیا ہماری نندیں نہیں آئیں؟ ہم نے بھی تو تین دن تک دعوتیں بھگتائی ہیں۔ ایک دن اپنی نندیں آئیں، ایک دن ساس کی نندیں آئیں اور تیسرے دن تایا سسر کا پورا خاندان چلا آیا۔ ہم نے تو کوئی ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ خوشی خوشی سب نمٹاتے رہے۔“

”وہ تو اچھی بات ہے بیٹی! اللّٰہ تعالیٰ تمہیں صحت تندرستی عطا فرمائے، ماشاءاللہ تم کام کاج کرنے میں شروع سے ہی پھرتیلی رہی ہو۔ اس پر اللّٰہ کا شکر ادا کرو۔ لیکن یہ بات بھی ہے کہ اب تم بہنوں کا سارا سلیقہ بس سسرال تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ نہیں کہ میکے آؤ تو ذرا بھاوجوں کے ساتھ بھی کام کاج میں ہاتھ بٹا دو...!“ ”واہ اماں!! یہ بھی خوب کہی! بھلا ہم کیوں مدد کروائیں؟ عید کی دعوت میں بھی ہم ان کے ساتھ کام کروائیں...! کیوں بھئی؟ اماں ہم بھی تو اپنی سسرال میں اکیلے ہی لگے رہتے ہیں۔ مجال ہے ہماری نندوں میں سے کوئی پانی کا گلاس بھی اٹھا کر ادھر سے ادھر رکھ دے۔ مہارانیوں کے لیے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور وہ کھا پی کے تعریف اور شکریے کا ایک لفظ کہے بغیر چل دیتی ہیں۔ سب کچھ یوں ہی چھوڑ چھاڑ پھر سے مہمانوں کی طرح ڈرائنگ روم اور ساس اماں کے کمرے میں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں۔ ہم دونوں دیورانی جیٹھانی ہی لگے رہتے ہیں سب کچھ سمیٹنے میں۔ کھانے کے بعد کسی کے لیے الائچی والی چائے کسی کے لیے لیموں والا قہوہ... پھر برتنوں کا ڈھیر.. گھر کی صفائی.... اللہ کی قسم اماں! ہم ہلکان ہو جاتے ہیں۔“

”تو بیٹا! ان کے غلط طرزِ عمل کا بدلہ تم اپنی بھابھیوں سے تو مت لو نا...!! برائی کو ہمیشہ اچھائی سے ختم کیا جاتا ہے میری چندا!!“ اماں نے دلار سے کہا۔

”لیکن اماں قسم سے بہت دل برا ہوتا ہے اپنے نندوں کے رویے کی وجہ سے۔ پھر ہمارا بھی جی نہیں چاہتا کہ میکے جا کر بھاوجوں کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹائیں۔“

”دیکھو نادیہ! تم بڑی ہو بات کو سمجھو۔ تمہاری وہ عمر نہیں ہے کہ ایسی باتیں کرو۔ بس اس اتوار کو تم تینوں بہنیں آجانا، شام کی تم سب کی دعوت ہے۔ اور ذرا وقت سے آجانا تاکہ اپنی بھابھی کی کچھ مدد بھی کروا دو۔“ ”اماں بھئی پھر وہی بات....! اچھا چلیں ٹھیک ہے. ہم کروا دیں گے مدد آپ کی بہووں کی۔“ نادیہ نے بے دلی سے فون بند کیا اور منجھلی بہن کو ملا دیا۔

”ارے ہاں دردانہ! اس اتوار کو اماں نے ہماری دعوت رکھی ہے اور کہہ رہی ہیں ذرا جلدی آجانا، بھابھی کے ساتھ کچھ کام کاج کروا لینا۔“

یہ سنتے ہی دردانہ کا بھی پارا ہائی ہو گیا۔
”یہ کیا بات ہوئی آپا!! عید کی دعوت میں بھی ہم خود پکا کر کھائیں گے کیا؟ تو پھر جانے کی ضرورت ہی کیا ہے! ہم اپنے گھر بھلے۔ بندہ میکے جاتا ہے کہ چلو بھئی پکی پکائی کھانے کو ملے گی. کوئی دن تو سکون کا ہوتا ہے کہ بیٹیاں ماں کے گھر جا کر سکون سے بیٹھ کر کھانا کھا لیتی ہیں۔ لیکن ہماری اماں کو ہماری یہ ذرا سی عیاشی بھی گوارا نہیں!!“ دردانہ اچھی بھلی روہانسی ہو گئی۔

نادیہ نے اسے سمجھا بجھا کے ٹھنڈا کیا اور دعوت میں جانے کے لیے یہ کہہ کر راضی کیا کہ اچھا چلو ہم تم سے کھانا پکانے کا کوئی کام نہیں کہیں گے. تم اماں کے پاس آرام سے بیٹھ جانا۔ ***

اماں نے دونوں بہووں کو اتوار کی دعوت کا بتا دیا. چھوٹی بہو شمائلہ کو کچھ ناگوار گزرا تھا لیکن بڑی بہو شازیہ نے بات سنبھال لی۔ ”ٹھیک ہے اماں جان! آپ فکر نہ کریں. ابھی اتوار میں دو دن باقی ہیں سب انتظام ہو جائے گا ان شاء اللہ!“ اماں نے خوش ہو کر شازیہ کو دعا دی۔

ہفتے کی صبح ہی شازیہ نے گوشت فریزر سے نکال کر تکہ بوٹی کا مسالا لگا کر رکھ دیا اور شام کو ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا. گوشت اچھی طرح گل گیا تو ذرا سا مکھن ڈال کر بھون کر خشک کر لیا۔ اور دہکتے کوئلے کا دم لگا دیا ۔ مزے دار تکہ بوٹی بغیر انگیٹھی کے تیار ہو گئیں۔ ڈبے میں بند کر کے فریج میں رکھ دیں۔ بس اب دعوت کے وقت اوون میں گرم کر لیں گے۔ شازیہ نے خوش ہو کر سوچا۔

شمائلہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی میٹھا بنانے کی ذمہ داری لے لی۔ وہ کوئی ایسی کام چور تھی نہیں لیکن بس اب مستقل الٹی متلی نے اسے نڈھال کر رکھا تھا۔

اتوار کی صبح وہ لوگ جلدی ہی اٹھ گئے۔ شازیہ نے ناشتے کے بعد فوراً ہی قورمہ بنانا شروع کر دیا۔ شازیہ اور شمائلہ کے شوہر بھی صفائی ستھرائی اور سیٹنگ میں لگ گئے تاکہ مہمان شام کو آرام سے بیٹھ سکیں۔ بڑے ماموں نے اپنے بھانجا بھانجیوں کے لیے آئسکریم بھی لا کر فریزر میں رکھ دی۔ اماں نے دوپہر کے کھانے کے بعد پلاؤ کی یخنی چڑھا دی۔ شمائلہ سلاد کے لیے پیاز کھیرا وغیرہ کاٹنے بیٹھ گئی۔ پانچ بجے تو یکے بعد دیگرے سب مہمان آنا شروع ہو گئے۔ تینوں بیٹیاں ماں اور بھابھی سے گلے ملنے لگیں اور بھائی اپنے بہنوئیوں سے۔ بچے آپس میں مل کر خوش ہو گئے اور باری باری نانی اور ماموں کی گود میں چڑھنے لگے۔ تینوں بہنوئی ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ اماں کچھ دیر کے لیے ان کے پاس جا بیٹھیں۔ خوش مزاجی اور محبت سے سب کا حال احوال پوچھنے لگیں۔ کچھ دیر یہیں محفل جمی رہی پھر وہ اٹھ کر اندر بیٹیوں کے پاس چلی گئیں۔ تینوں بہنوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ بھابھیوں کے ساتھ خوب گپ شپ ہو رہی تھی۔ کچھ دیر میں شازیہ چائے اور دیگر ہلکے پھلکے لوازمات لے آئی۔ *''

رات دس ساڑھے دس بجے تک سب کھانے سے فارغ ہو چکے تھے۔ تینوں بہنوں نے دل کھول کر کھانے کی تعریف کی۔ اگرچہ پہلے پہل نادیہ کا دل چاہ رہا تھا اپنی نندوں کی طرح وہ بھی بغیر تعریف اور شکریے کے سب کچھ ہضم کر جائے لیکن ماں کی تربیت کا اثر غالب آ گیا۔ دونوں چھوٹی بہنیں بھی بھائی، بھابھیوں کی شکر گزار تھیں، جنھوں نے اتنی اچھی اور مزے داردعوت کا اہتمام کیا۔ اور چھوٹی تو اماں کے گلے لگ کر باقاعدہ رونے ہی لگی...
”ارے بھئی کیا یو گیا چندا! رو کیوں رہی ہو... ؟“ انھوں نے بیٹی کو پچکارتے ہوئے پوچھا۔
”اماں آپ کو پتا ہے عید بقرعید پر بھی میکے نہ جائیں تو بیٹیوں کی عید کیسی ہوتی ہے؟؟ بہت روکھی پھیکی ہوتی ہے اماں!! قسم سے بالکل دل نہیں لگتا۔ بیٹیوں کو عید کے ایک ہفتے بعد بھی میکے جانا ہو تو وہ عید کا ہفتہ خوشی خوشی گزار دیتی ہیں کہ چلو آخر میں ہی سہی! میکے تو جائیں گے نا...!!! لیکن جب آپ نے بھابھی کی طبیعت اور گرمی کی وجہ سے دعوت کا منع کر دیا تھا تو ہمیں کتنا دکھ ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا ہمارا کوئی نہیں دنیا میں!!“ موٹے موٹے آنسو ایک بار پھر آنکھوں سے پھسل گئے۔ اور اماں نے بھی آب دیدہ ہو کر اسے گلے سے لگا لیا۔

نادیہ کسی کام سے باورچی خانے میں گئی تو یہاں سے وہاں تک پھیلے برتنوں کو دیکھ کر کچھ سوچا اور چھوٹی کو اپنے ساتھ بلا کر لے گئی۔ چلو چھوٹی! آنسو صاف کرو اور کمر کس لو شاباش! یہ باورچی خانہ اب ہم نے صاف کرنا ہے۔ شازیہ بھابھی لاکھ نہ نہ کرتی رہ گئیں لیکن ان دونوں نے انھیں بڑے پیار سے باہر کی طرف دھکیل دیا... اور فٹافٹ برتن دھونے شروع کر دیے۔ کچھ ہی دیر میں باورچی خانہ لشکارے مارنے لگا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جا چکی تھی۔ شازیہ بھابھی بہت شکر گزار ہوئیں اپنی نندوں کی۔ سچ تو یہ ہے دن بھر کی مشقت کے بعد اب ان میں باورچی خانہ سمیٹنے کی ہمت نہیں تھی۔

گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک وہ سب ہنسی خوشی اپنے گھروں کو رخصت ہو گئیں۔ سب نے مل جل کر کام بانٹ لیے، کسی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور نندوں نے جاتے جاتے باورچی خانہ کیا چمکایا کہ سب کے دل بھی صاف ستھرے چمک دار ہو گئے۔ نیکی کا اثر ہمیشہ دل میں طمانیت بن کر اترتا ہے۔ اماں نے اچھا کیا کہ بیٹیوں کی خواہش کو اہمیت دی اور انھیں دعوت پر گھر بلا لیا۔ ورنہ وہ تینوں نہ جانے اس بات پر کب تک دکھی رہتیں۔ لیکن ماں کے سمجھانے بجھانے اور نصیحت کرنے پر بھابھیوں کا کام میں ہاتھ بٹایا اور کھانے کی تعریف کی تو بھابھیاں بھی کتنی خوش ہو گئیں اور بھابھیوں کو خوش دیکھ کر بھائی اور زیادہ خوش!!