کوئی بھی انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ۔ وہ دوسرے لوگوں سے تعلقات بناتا ہے ۔ اپنا الگ گھر بناتا ہے ، اس کا نظام سنبھالتا ہے اور اپنی سربراہی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتا ہے۔ اس نظام کو "خاندان" کہتے ہیں ۔ عموماً خاندان کا سربراہ کوئی بزرگ یا پھر سب سے بڑا آدمی ہوتا ہے۔
منیبہ ادریس
اردو میں خاندان کے معنی کنبہ ، قبیلہ ، یعنی کسی گھر میں چند اصحاب جو مل کر رہتے ہوں کے ہیں ۔ فارسی میں خاندان کو "خانوادہ" کہا جاتا ہے ۔ اس کے معنی بھی قبیلہ یا برادری کے ہیں۔
خاندان کا ارتقا:
کوئی بھی انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ۔ وہ دوسرے لوگوں سے تعلقات بناتا ہے ۔ اپنا الگ گھر بناتا ہے ، اس کا نظام سنبھالتا ہے اور اپنی سربراہی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتا ہے۔ اس نظام کو "خاندان" کہتے ہیں ۔ عموماً خاندان کا سربراہ کوئی بزرگ یا پھر سب سے بڑا آدمی ہوتا ہے ۔ پاکستان کے خاندانی نظام میں بیٹیوں کی شادی ہو جانے کے بعد وہ اپنے سسرال میں رہتی ہیں اور گھر کے بیٹوں کی شادی کے بعد وہ سب اپنے اپنے بیوی بچوں سمیت اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اس طرح بچوں کو دادا ،دادی، چچا ،چچی، تایا ،تائی اور والدین سب کا پیار ملتا ہے ۔ وہ خلوص، اپنائیت اور محبت بھرے ماحول میں پرورش پاتے ہیں ۔ گھر کی ساری بہوئیں بھی بہنوں کی طرح رہتی ہیں ، ساس سسر کی خدمت کرتی ہیں اور مل جل کر گھر کے سارے کام کرتی ہیں ۔
بعد ازاں جب بیٹوں کا کنبہ بڑھ جائے اور چھوٹے گھر میں نہ رہا جائے تو ان کو بیوی بچوں کے ساتھ الگ گھر میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ مگر دلوں میں پیار قائم رہتا ہے ۔ بقول شاعر:
میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
میرے بھائی! میرے حصے کی زمین تو رکھ لے
اس نظام میں خلل تب آتا ہے جب گھر کا کوئی بھی فرد چھوٹی سی بات کو سر پہ سوار کر کے اسے جھگڑے کی وجہ بنا لے۔ یہ چھوٹی سی بات کسی دوسرے فرد کا بولا گیا جملہ بھی ہو سکتا ہے یا بچوں کی آپس کی لڑائی یا پھر بڑوں کا کسی بات پر اختلاف ۔ اس کے بعد حالات بدل جاتے ہیں ۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں مل کر دلوں میں نفرت اور بدگمانی پیدا کرتی ہیں ۔ اور حالات اس موڑ پہ آ جاتے ہیں کہ بچوں کو ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا جاتا ہے ،چچا،چچی یا تایا ،تائی سے ملنے سے روک دیا جاتا ہے اور بچوں کے معصوم ذہنوں میں نفرت کی ابتدا کی جاتی ہے ۔ یہ دوریاں صرف بچوں میں ہی نہیں ، گھر کے مردوں میں بھی سرایت کر جاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ملنا بند کر دیتے ہیں ، مشکل وقت میں کام آنا چھوڑ دیتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ آپس میں بیٹھ کر اختلاف کی وجہ بھی نہیں ڈھونڈتے۔ چاہے وہ ایک گھر میں ہوں یا اپنے اپنے الگ گھر میں، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دل میں جگہ نہیں رہتی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اس خوبصورت نظام کو اسی طرح تباہ ہوتا دیکھیں گے یا کچھ حل نکالیں گے ؟
میرے نزدیک ان تمام مسائل کا حل صلہ رحمی ، برداشت اور فراخ دلی ہے۔ اگر ہم سب ایک دوسرے کی بات کا برا منائے بغیر اس کو مثبت انداز میں سوچیں تو کافی حدتک معاملات سلجھ سکتے ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے بلکہ وہ ہے کہ جب اس سے قطع تعلقی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔" ( صحیح بخاری)
گھر کی عورتوں کو بھی صلہ رحمی کی روش اپنانی چاہیے تاکہ وہ بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ شامل کر سکیں ۔ رشتوں کو جوڑنے والے بنیں تاکہ ہمارا خاندانی نظام دوبارہ سے ترقی کی طرف گامزن ہو سکے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور اللّٰہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا کھٹکا رکھتے ہیں ۔