کبھی رات میں بارش کی آواز سے آنکھ کھل جاتی تو عجیب سا ہی سحر طاری ہوتا... وہ جاڑوں کی بارش اور گہرا سناٹا... بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کا کڑکنا، کچی چھت پر ٹپ ٹپ کرتی بارش کی بوندیں اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو... دیوٹ پہ رکھے دیے کی ڈولتی ہوئی لَو.... کھڑکی پہ پڑا سفید رنگ کا پردہ، چھت کی بوسیدہ کڑیوں میں بنے چڑیوں کے گھونسلے، چڑیوں کے بچوں کی "چوں چوں" اور چڑے کا پُھر پُھر کر کے ادھر ادھر اڑنا... سب کچھ کتنا سحر انگیز تھا ۔
ام محمد سلمان
بات سردی کی ہو اور سردیوں کی بارش کا تذکرہ نہ ہو.. یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے علاقے میں جب ایک بار بارش شروع ہوتی تھی تو آٹھ آٹھ دن تک سورج کا منہ دیکھنے کو ترس جاتے تھے۔ بارش رک بھی جاتی تو گھنگھور گھٹائیں پھر بھی تلی کھڑی رہتیں... ابھی ہم ناشتا کر کے انگیٹھی کے پاس ہی بیٹھے ہوتے تھے کہ مومنہ بوا آجاتیں اور موسم سے متعلق ان کی خوف ناک پیشین گوئیاں شروع ہو جاتیں۔ اللہ اکبر! اُدھر بادلوں کی گڑگڑاہٹ، اِدھر ان کے منہ کے زاویے۔ ریڑھ کی ہڈی تک میں خوف سرایت کر جاتا اور ہم اپنی رضائی سے چھلانگ مار کر اماں بی کے بستر میں جا گھستے۔ پھر ایسی ٹھنڈ میں بھی اماں ہمارے کپڑے دھونے کے لیے اٹھ جاتیں۔ ایک بار اماں بتانے لگیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تھی تو گھر میں پانی کا نلکا نہیں تھا، ابا میاں دور کسی کے کنویں یا ہینڈ پمپ سے پانی بھر کر لاتے اور صحن میں رکھے بڑے بڑے مٹکوں کو بھر دیا کرتے ۔ "سخت جاڑوں میں اس برف جیسے پانی سے کپڑے دھونا عذاب ہو جایا کرتا تھا." اماں بی ایک جھرجھری لے کر بولیں اور پھر کہنے لگیں اللہ کا شکر ہے اب تو اپنے گھر میں نلکا ہے جس میں سردیوں میں زمین سے گرم پانی نکلتا ہے اور پھر اماں جا کے کپڑے دھو لیا کرتیں اور برآمدے میں بندھے تار پہ پھیلا دیتیں. پھر جب فارغ ہوتیں تو انگیٹھی پر ہی ایک ایک کر کے سکھاتی رہتیں۔
کتنی اچھی تھیں ناں اماں.. ہر بات میں انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا یاد رہتا تھا۔ غسل خانے کے فرش پر کپڑے پھیلائے، صابن سے رگڑتے ہوئے، تھپیا سے کوٹتے ہوئے پھر خود ہی ایک ہاتھ سے نلکا چلا کر کپڑوں کو پانی سے کھنگالتے ہوئے... انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی بلکہ شکر ادا کرتی تھیں اللہ تعالٰی کا کہ اب پانی اپنے گھر کا ہے اور آج ہم اتنی آسائشوں میں ہو کر بھی نہ اپنے قوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور نہ رب تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا... ہر چیز کو اپنا حق سمجھ کے وصول کرتے ہیں اور بدلے میں کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے... اس ربِّ کریم کی اطاعت بھی نہیں۔
٭٭٭٭ کتنے حسین زمانے تھے وہ. ماں باپ ہی ہماری ضرورت تھے اور وہی ہماری انٹرٹینمنٹ....!! بس ہر کوئی اسی کوشش میں رہتا کہ وہ اماں کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو جائے (اور آج تو بچوں کو پروا ہی نہیں ہوتی... بس ہر کوئی موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں گھسا رہتا ہے۔ ماں کیا ہے، اس کا لمس، اس کا قرب کیا ہے، شاید آج کے بچے نا آشنا ہیں اس سے ۔)
کبھی رات میں بارش کی آواز سے آنکھ کھل جاتی تو عجیب سا ہی سحر طاری ہوتا... وہ جاڑوں کی بارش اور گہرا سناٹا... بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کا کڑکنا، کچی چھت پر ٹپ ٹپ کرتی بارش کی بوندیں اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو... دیوٹ پہ رکھے دیے کی ڈولتی ہوئی لَو.... کھڑکی پہ پڑا سفید رنگ کا پردہ، چھت کی بوسیدہ کڑیوں میں بنے چڑیوں کے گھونسلے، چڑیوں کے بچوں کی "چوں چوں" اور چڑے کا پُھر پُھر کر کے ادھر ادھر اڑنا... سب کچھ کتنا سحر انگیز تھا ۔ شاید چڑیا کے بچوں کو بارش کی آواز سے ڈر لگتا ہوگا تب ہی انہیں کسی پل چین نہیں آتا تھا اور چڑا چڑیا دونوں بے قرار ہو کر اڑتے اور پھر واپس گھونسلے میں جا بیٹھتے۔ ٭٭٭٭
اوہو،،، یہ ہم بھی نا!... ہر بار بات کرتے کرتے چڑیوں تک جا پہنچتے ہیں جانے چڑیوں سے اتنا پیار کیوں ہے ہمیں ۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی سردیوں کی بارش کی... ویسے لوگ کئی طرح کے پکوان بناتے ہیں بارش میں، لیکن میرے ابا ہمیشہ اماں سے آلو اور چنے کی دال کے پراٹھے بنوایا کرتے تھے۔ واہ وا،،، کیا ذائقہ تھا امی کے ہاتھوں میں اور واہ وا...!! کیا بادلوں کے ساتھ ساتھ گرجتے تھے میرے ابا... ایمان سے مزا ہی آجاتا تھا۔ ایک بار بارش برس رہی.. عصر کا وقت اور سخت سردی... اماں چولہے پر کڑھائی رکھے گلگلے بنانے میں مصروف اور باورچی خانے کی چھت ٹپکنے لگی... اماں نے شور مچایا اور ابا نے مجھے دوڑایا... "جاؤ جا کر جلدی سے ایک اینٹ اٹھا کر اس جگہ پر رکھ کر آؤ جہاں سے چھت ٹپک رہی ہے" اور میں نے ایسے ہونّقوں کی طرح ابا کی طرف دیکھا.. "ابا جی!! میں رکھ کر آؤں..؟"
ہاں ہاں تم جاؤ... ابا نے حکم صادر کیا اور میں اپنے دل میں صدمے کی لہر دبائے، بغیر چھتری اٹھائے ہی چھت پہ بھاگ گئی... پہلے تو ایک اینٹ اٹھائی پھر اس جگہ کا تعین کرنے لگی جہاں سے پانی رس رہا تھا... ایک بارش آسمان سے برس رہی تھی اور ایک میری آنکھوں سے... لیکن یہ کیا..؟ بارش تو اچانک ہی بند ہو گئی... میں نے گھبرا کے سر اٹھایا تو آسمان بھورے رنگ کی بجائے ایک دم سیاہ کالے رنگ کا ہو چکا تھا... الٰہی خیر یہ کیا ماجرا ہے؟ قیامت اتنی جلدی آ گئی؟ ابھی تو سورج بھی مغرب سے نہیں نکلا.. ابھی تو نہ جانے کتنی نشانیاں باقی ہیں.. آنسو صاف کر کے دوبارہ دیکھا تو وہ آسمان نہیں بلکہ چھتری تھی جسے میرا چھوٹا بھائی میرے اوپر پھیلائے کھڑا تھا... کیا بتاؤں کتنا پیار آیا اس وقت اپنے بھائی پر ۔
ذرا دل کو تسلی ہوئی تو میں نے کسی ماہر راج کی طرح اینٹ اس جگہ پر جمائی اور بھائی کے ساتھ نیچے آ گئی...!! بعض اوقات کسی کی چھوٹی سی محبت تھوڑا سا خیال بھی انسان کو کتنا خوش اور مطمئن کر دیتا ہے۔ بعد میں پتا چلا... بھائی کو چھتری لے کر ابا نے بھیجا تھا۔ یہ ابا بھی نا! بس کیا بتاؤں کتنے پیارے تھے...!! بہت جان مارتے تھے ہماری تربیت میں کہ ہم مشکلات کے عادی ہوں، ان کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔ کھلاتے سونے کا نوالہ اور دیکھتے شیر کی نگاہ سے تھے۔ ٭٭٭٭
اور آپ کو تو پتا ہی ہوگا... بارش میں کیڑے مکوڑے بہت نکلتے ہیں ادھر ادھر سے۔ ایک بار بچھو نکل آیا، خوف ناک طریقے سے ڈنک اوپر اٹھائے... دیکھتے ہی ہماری تو گھگھی بندھ گئی ۔ ایک دردناک چیخ منہ سے نکلی۔ ابا میاں دوڑ کر آئے "کیا ہوا؟"
"ابا جی... بچھووووو!!" ابا نے ایک نظر بچھو کو دیکھا پھر خوف سے نیلے پیلے پڑتے ہمارے چہرے کو... اور ذرا ڈانٹ کر بولے "تو اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے؟ مار دو اسے۔"
"میں کیسے ماروں ابا جی؟ یہ مجھے کھا جائے گا." میں نے منحنی سی آواز میں احتجاج کیا اور ابا میاں ایک دم دہاڑے... "کیسے کھا جائے گا؟ وہ اتنا چھوٹا سا اور تم اتنی بڑی.. کیسے کھائے گا تمہیں؟" جاؤ جا کر چمٹا لے کر آؤ.. اور ابا میاں نے ایک جھٹکے سے بچھو کو چمٹے سے اٹھا لیا... یہ دیکھو کچھ ہوا کیا؟ پھر ابا جی نے بچھو کو نیچے چھوڑ دیا وہ دوڑ کے دیوار کے پاس چھپ گیا۔ "دیکھو بیٹا یہ تو خود انسانوں سے ڈرتے ہیں۔" چلو اب تم اٹھاؤ اسے چمٹے سے ۔ ہاں تو ابا میاں اٹھا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟؟؟ ڈرتے ڈرتے ہم نے بھی اٹھا لیا... "دیکھو تو کچھ بھی نہیں ہوا" ابا میاں بولے ۔ اور خود ہمارے دل میں خوشی کے مارے دیسی گھی کے ایسے لڈو پھوٹے کہ ہم بہادری کے کوہ ہمالیہ پر چڑھ بیٹھے۔ اس کے بعد تو ہم دھڑا دھڑ بچھو مارنے میں ایکسپرٹ ہو گئے تھے۔
جناب!! اسی لیے ہم میں وہ خاص لڑکیوں والی صفت ہی نہیں پائی جاتی تھی... کبھی چوہیا اور چھپکلی کو دیکھ کر چیخیں مارنا اور کبھی لال بیگ سے بھاگنا... ہائے افسوس!! ہماری زندگی اس ایڈونچر سے خالی ہی رہی ۔ نہ کبھی کیڑے مکوڑوں سے ڈر لگا اور نہ آندھی طوفانوں سے... نہ کبھی اندھیرے سے خوف کھایا اور نہ بیابانوں سے۔ ایک بار برآمدے کا فرش ٹوٹ گیا ابا میاں لال اینٹوں کو سیمنٹ کے ساتھ جوڑ جوڑ کر رکھ رہے تھے، مدد کے لیے ساتھ مجھے بھی لگا رکھا تھا.. تھوڑی دیر بعد میں خود ہی یہ کام کرنے لگی، ابا ایک طرف بیٹھ کر فخر سے مجھے دیکھتے رہے۔ اور نہیں تو کیا...!! بچپن سے بہت با صلاحیت ہوں بس کبھی غرور نہیں کیا۔۔۔ الحمد للہ۔
جب بڑے ہوئے تو ایک بار مولانا صاحب کے بیان میں سنا "اللہ تعالٰی کو قوی اور بہادر مومن پسند ہے" ۔ پھر کیا بتائیں کہ کتنی خوشی ہوئی کہ ہم تو اپنے پیارے اللہ میاں کی اطاعت بھی کرتے ہیں اور بہادر بھی ہیں تو ضرور پسندیدہ بندوں میں شامل ہوں گے ان شاء اللہ....!!
اچھی بات تو نہیں ہے کہ لڑکیاں لال بیگ کو دیکھتے ہی چلانے لگیں۔۔۔ چھپکلی اور چوہیا سے ڈریں۔۔۔ زندگی میں ہر طرح کے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے اس لیے تربیت بھی ایسی ہی ہونی چاہیے. بچوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہیے کہ زندگی میں سب کچھ ہمیشہ اپنی مرضی کا نہیں ہوتا، حالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں اس چیز کا خیال رکھیے "کھلائیں سونے کا نوالہ اور دیکھیں شیر کی نگاہ سے بالکل ہمارے ابا میاں کی طرح....!! اور اپنے بچوں کو شکر گزاری کی عادت ڈالیں بالکل ہماری اماں بی کی طرح....!!"