اسے ایک منٹ رکنے کا کہ کر کمرے میں گئیں اور جب لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا۔ " یہ آیان کو دینا۔ تمہارے ابو سب بچوں کےلئے لائے تھے-"
ندا نے دیکھا پیکٹ میں دو کتابیں تھیں جن کا ٹائیٹل تھا "Bedtime stories from the Quran". " "امی آپ کے پاس تو سچ میں جادوئی طاقت ہے"وہ ان سے لپٹ گئی۔ اور واپسی کے لئے تیز تیز قدم بڑھانے لگی۔آج اسے آیان کا قرض چکانا تھا ۔ اس کی ماما اسے پوری کی پوری واپس کرنی تھی تمام تر جادوئی طاقتوں کے ساتھ۔
ام مہد اسلام آباد
آفس سے واپسی پر وہ امی کی طرف، چلی آئی۔ اس وقت دروازہ عموماً کھلا ہوتا تھا۔ وہ لاؤنج سے ہوتی ہوئی سیدھی کچن میں چلی آئی ،جہاں اس کی توقع کے عین مطابق امی شام کی چائے بنانے میں مصروف تھیں۔ "السلام علیکم امی! " اس کی آواز پہ رابعہ بیگم چونک کر مڑیں ۔ وہ عموماً اس وقت نہیں آتی تھی۔یہ اس کی واپسی کا ٹائم ہوتا تھا اور بچے اس کے منتظر ہوتے۔ دل میں آتے وسوسوں اور خدشات کو دل میں دبا کر انھوں نے ندا کو گلے لگایا۔ اس وقت کریدنا مناسب نہ تھا۔ "تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔ جاؤ فریش ہو کر آؤ۔ میں چائے لاتی ہوں۔" انہوں نے اس کی پریشان صورت دیکھتے ہوئے کہا-
چائے کے دوران بھی وہ خاموش سی تھی۔ " بچے ٹھیک ہیں؟" رابعہ بیگم نے خاموشی توڑنے کو پوچھا۔ " بس امی کیا بتاؤں۔ آیان کی وجہ سے بہت پریشان ہوں- بہت بدتمیز اور ضدی ہوتا جا رہا ہے۔ روز ایک نئی ضد ہوتی ہے اس کی-" وہ اپنے سات سالہ بیٹے کی شکایت کرنے لگی۔
" ارے کوئی بات نہیں ندا۔ بچہ ہے۔ آہستہ آہستہ خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا۔" رابعہ بیگم نے اپنی سی تسلی دی۔ " کب ٹھیک ہوگا امی! آپ جانتی ہیں آج اس کی وجہ سے مجھے کتنی پریشانی ہوئی۔ آج صبح اسکول کے لیےتیار کیا تو اچانک ضد شروع کر دی کہ اسکول نہیں جاؤں گا- یونیفارم اتار دیا اور بیگ میں سے کتابیں نکال دیں۔ لنچ باکس میں سے بریڈ جیم نکال کے رکھ دیا۔ ضد تھی کہ برگر بنا کر دیں۔ آپ خود سوچیں امی ! مجھے ہانیہ کو بھی ڈے کئیر ڈراپ کرنا تھا۔ ایسے میں برگر کیسے بناتی جبکہ آج پروین بھی نہیں آئی۔ اس سب میں اسکول کا وقت نکل گیا۔ آیان کو ہمسایوں کے گھر چھوڑ کے ہانیہ کو ڈے کئیر ڈراپ کیا۔ میٹنگ میں لیٹ پہنچنے پر باس کی اتنی باتیں سننی پڑیں۔" ندا واقعی کافی پریشان تھی۔
" ارے بیٹا! تمہارے کون سے زیادہ بچے ہیں۔ دو ہی تو ہیں پھر بھی تم اتنی پریشان ہوتی ہو- ہم نے بھی تو چار بچے پالے ہیں۔ میں تو زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ تھی اور تمھارے ابو کی آمدنی بھی کچھ زیادہ نہ تھی۔پھر بھی تم لوگوں کی تعلیم و تربیت میں کمی نہیں آنے دی-"
"یہی بات تو مجھے حیران کر رہی ہے۔ کیسے پال لیے آپ نے چار بچے یا شاید آج کے بچے بہت hyper ہیں۔ ہم تو ایسے نہیں تھے۔ " ندا کی بات پہ رابعہ بیگم مسکرا دیں۔
" بیٹا! اولاد کی تربیت ہر دور میں والدین کے لئے آزمائش رہی یے۔ ہاں یہ ضرور ہے کی ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے دور میں ہر کام کے لیے مشینیں تھیں نہ ملازم۔ ہاں سلائی مشین تقریباً ہر گھر میں ہوتی۔ بچوں اور بڑوں کے کپڑے گھر پہ ہی بنائےجاتے۔ محلے کے تمام بچے علاقے کے سرکاری اسکول میں جاتے۔گھر کے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ میں تم لوگوں کی پڑھائی پر بھی باقاعدگی سے توجہ دیا کرتی- اور یہ تو ندا کو بھی خوب یاد تھا کہ امی کم تعلیم کے باوجود ان کو خود پڑھاتیں اور اتنے سلیقے سے کہ بچوں پر کبھی ان کی تعلیمی کمی ظاہر ہی نہ ہوتی- " امی ہم نے سب کچھ دیا بچوں کو۔ اچھا کھلاتے ہیں، اچھا پہناتے ہیں, ویک اینڈ پہ باہر لے کے جاتے ہیں۔ ان کی پسند کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلاتے ہیں۔ نت نئے کھلونوں سے الماری بھری ہوئی ہے۔ شہر کے سب سے ہائی ا سٹینڈرڈ اسکول میں پڑھانے کے لیے دونوں کام کر رہے ہیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ پھر بھی آیان کے behavior اور language سے لگتا ہی نہیں کہ اتنے اچھے اسکول میں پڑھتا ہے۔ نہ جانے کیا چاہتا ہے۔ سوچ رہی ہوں سائکاٹرسٹ کو consult کروں-" ندا بس رو دینے کو تھی-
"ہمت سے کام لو ندا ! تنے سے بچے سے ہار گئی تم۔ وہ اولاد ہے تمہاری۔ دیکھو بیٹا دنیا میں جو پہلا رشثہ اولاد کو ملتا ہے نا وہ ماں کا ہےبلکہ وہ تو دنیا میں آنے سے پہلے ہی جڑ جاتا یے۔ اللہ کے لیےکچھ مشکل نہ تھا کہ آدم علیہ السلام کی طرح ہمارے پتلے بنا کرروح پھونک دیتا اور زمین پر بھیج دیتا۔مگر بچے کو ایک خاص حفاظت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کی تخلیق کے لئے ماں کا انتخاب دراصل عورت پر اللہ کا احسان اور اس کی حکمت ہے۔ اور عورت جب ماں بنتی ہے نا!! تو اللہ اس کے وجود کو جادوئی طاقتیں عطا کر دیتا ہے ۔ ماں کا خمیر تو بنا ہی محبت، قربانی، ایثار ، صبر و برداشت سے ہے۔ اور پھر اللہ اسے مزید طاقتیں عطا کرتا ہے ۔ ایک ماں کے وجود میں ایک ڈاکٹر، ایک استاد، ایک ماہر نفسیات اور ایک شیف سب اکٹھا کرکے اسے ایک مضبوط ہستی بنا دیتا ہے کیونکہ اس کے کندھوں پر ایک انسان کی تربیت جیسی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے-
تم خود سوچو ایک نومولود کو ماں کی گود کی پہچان ہوتی ہے اور کیسا پرسکون ہو جاتا ہے جب ماں گود میں لیتی ہے۔ یاد ہے جب آیان بولنا بھی نہیں جانتا تھا تو تم اس کے رونے سے جان جاتی تھی کہ یہ رونا بھوک کا ہے، نیند کا یا پھر پیٹ درد کا۔ مگر آج جب وہ چیخ چلا کر اپنا مدعا بیان کر رہا ہے تو تم کیوں سمجھ نہیں پا رہی؟ " اس سوال پہ ندا نے چونک کے رابعہ بیگم کو دیکھا۔ ایسا تو اس نے سوچا ہی نہ تھا " اور ماں کے اندر ایک دانشور بھی ہوتا ہے۔" اس نے امی کو دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔
" ماں کا ساتھ بچے کا فطری تقاضا ہے۔ اور مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ تقاضا پورا نہ ہو، چاہے ماں کہیں کام کرتی ہو، گھر داری میں مصروف ہو یا فون پہ مگن ہو۔"
" تو امی! پڑھ لکھ کر گھر بیٹھ جاؤں؟اور بچوں کے مستقبل کے لئے ہی تو کر رہی ہوں سب کچھ۔" ندا نے تھوڑا سا احتجاج کیا۔
" ان کے حال پہ توجہ دو۔ ان کی شخصیت کو نکھارو۔ مستقبل خود اچھا ہوجائے گا ان شاء اللہ۔ نوکری کرو مگر یہ فرض پورا کرنے کے بعد ۔ یہ ذمے داری تمہیں اللہ نے تفویض کی ہے اور تم جواب دہ ہو اس کے لئے۔ یہ بڑے ہو جائیں تو کر لینا نوکری یا کوئی ایسا کام کرلو جس کے اوقات کار کم ہو. مانتی ہوں بعض اوقات ضروری ہوتا ہے نوکری کرنا مگر کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بچے کا وقت اسے پورا ملے۔ اسی طرح جو مائیں مشترکہ خاندانی نظام میں رہتی ہیں، سارا دن گھر داری میں لگی رہتی ہیں اور بچے ادھر ادھر گھوم کے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ کہ اپنی ہر چھوٹی، بڑی، اچھی، بری، ضروری ،غیر ضروری بات ان کو سناسکیں۔ آج کل تو مائیں اپنی جگہ اپنا موبائل یا tab پکڑا دیتی ہیں گویا خود اپنا متبادل دے دیتی ہیں مگر ماں کا متبادل کوئی ہو ہی نہیں سکتا چاہے وہ tab ہو، ڈے کئیر ہو یا مہنگی ترین درسگاہ کیونکہ تربیت ماں ہی کو کرنی ہے۔ تب ہی تو اللہ نےاس پر کمانے کی ذمےداری نہیں ڈالی۔ تربیت کی ذمے داری اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور بہت مشکل بھی۔ مگر اس محنت کا اجر دیکھو ۔ جنت جیسا مہنگا ترین باغ اس کے قدموں تلے ڈال دیا گیا حالانکہ باپ بھی کسی قدر محنت مشقت کرتا ہے بچوں کے لئے مگر درجہ میں ماں کو بلند کیا گیا۔ رابعہ بیگم کی آواز میں تشکر تھا اور آنکھوں میں اللہ کی محبت۔
بچے کا اولین حق ماں پر ہے اور اسے اس کی ادائیگی کے لئے سازگار ماحول ملنا چاہیے۔اور یہ بات تو ندا خوب جانتی تھی ۔ اس عمر میں بھی امی نے شام کی چائے اور رات کے کھانے کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی۔ملازمہ ان کی مدد کرتی مگر ارم بھابھی کو وہ بالکل فارغ کر دیتیں کہ وہ اپنے بچوں کو بھرپور توجہ دے سکیں۔ اور احمد ،اسں کا بھتیجپا کیسا پیارا اور پراعتماد بچہ تھا۔ چھوٹے سے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا تھا جس پہ ندا کو بہت اعتراض تھا۔ "دو ہی تو بچے ہیں تمہارے- کسی ہائی اسٹینڈرڈ اسکول میں پڑھاؤ" وہ اکثر بھائی سے کہتی۔
" ارے آپی جن بچوں پہ گھر میں محنت ہوتی ہے وہ جہاں بھی پڑھیں نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں۔" بھائی مسکرا کے کہتا-ا ور سچ ہی تو تھا۔ اس کا بھتیجا احمد بہت پراعتماد اور تمیزدار بچہ تھا۔ پڑھائی ہو یا کھیل کا میدان، تلاولت کا مقابلہ ہو تقریر ہو، کوئز ہو یا ایکٹنگ، ہر میدان میں احمد پوزیشن ہولڈر تھا۔ جب ٹرافی جیت کے گھر لاتا تو ماں کے ساتھ ساتھ دادی کا بھی سیروں خون بڑھ جاتا۔ اس کی شخصیت میں ایسا نکھار تھا کہ معمولی کپڑوں میں بھی توجہ کا مرکز رہتا۔شاید اس کا اندر اتنا مکمل تھا کہ اسے بیرونی سہاروں کی ضرورت نہ تھی۔ اور آیان تھا کہ کبھی کسی چیز میں دلچسپی نہ لیتا۔ پڑھائی میں اسکول سے all is well کی رپورٹ آجاتی اور ایسی ہی ایک رپورٹ ٹیوٹر دے دیتا اور وہ دونوں کو بھاری فیس ادا کر کے مطمئن ہو جاتی ۔آیان کی ڈائری سائن کیے اسے کافی دن ہو گئےتھے نہ ہی اس کی کاپیاں دیکھ پائی۔ پتا نہیں اس نے لکھائی بہتر کی یا نہیں۔ پچھلے ہفتے آیان نے اسے بتایا تھا کہ اس کی دو نوٹ بکس پہ کور نہیں ہے اور اس نے کہا تھا ویک اینڈ پہ کر دوں گی۔ پھر ویک اینڈ پہ مصروفیات میں بھول ہی گئی۔ وہ خود احتسابی کرنے لگی -اور آج صبح کیا ہوا تھا ۔ وہ جانتی تو تھی کہ آیان کو بریڈ جیم بہت پسند نہیں تھا۔ وہ برگر، رول پراٹھا کھانا پسند کرتا۔ اسے یاد آیا ۔ آیان جب اس کا بنایا ہوا لنچ لے کے جاتا تھا تو کہتا" لنچ کرتا ہوں تو آپ یاد آتی ہیں اسکول میں-" آج سوچنے بیٹھی تو آیان کا کوئی قصور نظر ہی نہیں ایا۔ ندا کے ذہن میں فلیش بیک ہونے لگے اور آنکھوں میں آنسو آگئے-
" جب ماں اپنی جادوئی طاقتیں استعمال نہیں کرتی تو بچے بگڑ جاتے ہیں۔" امی نے خاموشی کو توڑا اور سے گلے لگالیا۔ ندا پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔ " اس کی کم تعلیم یافتہ ماں نے کیسا سبق سکھایا تھا آج اور کیسے اپنی جادو کی چھڑی سے اس کی الجھن سلجھا دی تھی۔ واقعی اولاد کے لیے ماں کا ا سٹیٹس available always ہونا چاہیے کیوں کہ بچہ اپنی ہر خوشی، ہر غم، ہر کامیابی، ہر ناکامی ،ہر الجھن سب سے پہلے ماں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے اور کرنا چاہیے۔ " ماما میری bedtime storybook نہیں مل رہی۔ " پھر فلیش بیک۔ " اوہو آیان! سنبھال کے رکھا کرو نا۔ میں ابھی یہ فائلز دیکھ رہی ہوں۔ کل ڈھونڈ دوں گی۔" اسے اپنی آواز سنائی دی- وہ ایک دم اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دو دن پہلے آیان سے کیا وعدہ اسے آج یاد آیا تھا۔
" ارے ایک دم کہاں چل دیں؟" رابعہ بیگم نے پوچھا۔
" پس امی چلتی ہوں۔ اب بچوں کو مزید انتظار نہیں کروانا۔ " رابعہ بیگم جانتی تھیں اب وہ مزید دیر نہیں کرے گی۔ اسے ایک منٹ رکنے کا کہ کر کمرے میں گئیں اور جب لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا۔ " یہ آیان کو دینا۔ تمہارے ابو سب بچوں کےلئے لائے تھے-"
ندا نے دیکھا پیکٹ میں دو کتابیں تھیں جن کا ٹائیٹل تھا "Bedtime stories from the Quran". " "امی آپ کے پاس تو سچ میں جادوئی طاقت ہے"وہ ان سے لپٹ گئی۔ اور واپسی کے لئے تیز تیز قدم بڑھانے لگی۔آج اسے آیان کا قرض چکانا تھا ۔ اس کی ماما اسے پوری کی پوری واپس کرنی تھی تمام تر جادوئی طاقتوں کے ساتھ۔