تنزیلہ احمد
ہمیشہ کی طرح اس کے قدم بس اسٹاپ کی طرف تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ دور سے ہی کافی رش نظر آ رہا تھا۔
"صبح کے وقت تو یوں لگتا ہے، جیسے سارا شہر ہی سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے روٹ کی وین مس ہو جائے تو بعد میں کتنی کوفت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ صرف وہ ہی جان سکتا ہے جو اس ناخوشگوار تجربے سے دوچار ہوا ہو۔" وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی، جب سامنے سے اسے اپنی مطلوبہ وین آتی نظر آئی۔ اسٹاپ سے اتر کر وہ سڑک پر تھوڑا آگے بڑھ آئی کہ رش بہت تھا اور اسے ہر حال میں دھکم پیل کر کے وین میں سوار ہونا تھا۔ ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں سیلز گرل کی نوکری اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وین نے اسے مطلوبہ اسٹاپ پر اتار دیا۔ وہاں سے دو سڑکیں پار کر کے تقریبا پانچ سات منٹ کی مسافت کے بعد وہ اس بڑے سے مشہور ڈیپارٹمنٹ اسٹور تک پہنچ گئی تھی۔ حاضری لگانے کے بعد اس نے سپروائزر کو سلام کیا جو اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا۔
"کیسی ہو شگفتہ؟" درمیانی عمر، بھدا جسم اور آدھے سر سے گنجے سپروائزر نعیم نے مسکراتے ہوئے پوچھا جب کہ اس کی نظریں سر تا پا شگفتہ کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔
"اچھی ہوں!" ہمیشہ کی طرح غصہ دباتے ہوئے اس نے سرسری انداز میں کہا۔
"ہاں یہ تو ہے اچھی شکل کی وجہ سے تو یہاں ٹکی ہوئی ہو ورنہ زبان تو کب کا تمھیں یہاں سے نکلوا چکی ہوتی۔" طنزیہ لہجہ اور آنکھیں بہت کچھ جتا گئی تھیں۔
"منحوس کی جیسی شکل باتیں بھی ویسی ہی ہیں۔ کسٹمرز سے کیسی معصومیت اور شرافت سے پیش آتا ہے۔ فطرت کی ساری خباثت اور کمینگی تو بس سیلز گرلز کے لیے سنبھال رکھی ہے۔" زبر لب بڑبڑاتے ہوئے سپروائزر کو نظر انداز کر کے وہ اپنے کام کی طرف بڑھ آئی۔ شگفتہ کا کام گاہکوں پر نگاہ رکھنا اور ان کی مدد کے لیے خوش اخلاقی سے پیش آنا تھا۔ کون سی چیز کدھر ملے گی، اشیاء کا حساب کتاب رکھنا، موقع ملتے ہی یا گاہک کے استفسار پر کچھ خاص برانڈز جن کے متعلق اسٹاف کو ہدایات تھیں ،ان کے بارے میں قائل کرنا بھی اس کی ذمے داری میں شامل تھا۔ جو برانڈز زیادہ کمیشن ادا کرنے کی ڈیل کرتے وہ سیلز اسٹاف کو رٹا دیے جاتے، پھر وہی برانڈ ان کے منظور نظر بن جاتے جن کے لیے گاہکوں کو قائل کرنے کا کوئی موقع اسٹاف ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔
٭٭٭٭
"بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے" موبائل نیٹ ورک کمپنی کی طرف سے آنے والے ٹیکسٹ میں آگے اور تفصیلات بھی تھیں۔
"ایک تو آج کل جسے دیکھو تبلیغ کا شوق چڑھا ہوا ہے۔" عظیم نے پڑھتے ہی بُرا سا منہ بنا کر تبصرہ کیا۔ انتظار اسے کسی اور کے ٹیکسٹ کا تھا مگر موصول کچھ اور ہو گیا تھا۔
"چھوڑو یار۔ سب پیسے کمانے کے طریقے ہیں، بزنس میں کیا اسلامی اور کیا غیر اسلامی؟ سچ پوچھو تو یہ سب کیا دھرا ان کمپنیوں کا ہی ہے، ایسے ایسے ایس ایم ایس، کال اور انٹرنیٹ پیکیچز متعارف کرا دیے ہیں کہ اپنے جیسوں کے تو عیش ہی ہو گئے ہیں۔" آنکھ میچ کر مسکراتے ہوئے گیان بھگارنے والا الیاس تھا۔
"ویسے یار عظیم غلط وقت پر ٹیکسٹ بہت صحیح آیا ہے تجھے۔ لگتا ہے تیری بے حیائی اور بری باتوں کی خبر کمپنی والوں کو بھی ہو گئی ہے۔ تو ٹھہرا سدا کا رنگین مزاج، نماز روزے سے بھلا تجھے کیا سروکار۔" بروقت طنز کرنے کا موقع حسن نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا۔ وہ بھلا کیوں پیچھے رہتا۔
"اچھا واقعی۔۔۔! اگر میری سب خبر ہے تو لگتا ہے تیرے بارے میں بھی بہت کچھ پتا ہے انھیں۔ ایویں تو نہیں آئے دن بیوٹی ٹپس والے میسج تمھیں بھیجتے۔" ٹھنڈے طنزیہ لہجے میں عظیم نے حسن کے سانولے رنگ اور معمولی شکل و صورت پر چوٹ کی جو سیدھا اس کے دل پر جا کے لگی تھی۔ اوپر سے عظیم اور الیاس کا قہقہہ حسن کی صورت کے زاویے مزید بگاڑنے کے لیے کافی تھا۔
"میرے گھر میں بیٹھ کر میرا ہی مذاق اڑاتے ہو بے شرمو! میرے دوست ہو یا دشمن؟ شکر کرو میرے گھر کی بیٹھک نصیب ہے تم لوگوں کو، ورنہ تم لوگوں کے ڈربا نما گھروں میں تو اتنی جگہ بھی نہیں کہ یار بیلیوں کے ساتھ بیٹھ کے وقت گزارا جا سکے۔۔"
"جانے دے یار تو تو سیریس ہی ہو گیا ہے میں تو مذاق کر رہا تھا۔" حسن کے بگڑے تیور دیکھ کر عظیم نے پلٹا کھایا۔ اپنے مفاد کی خاطر تو وہ گدھے کو بھی باپ بنا لیتا یہ تو پھر اس کا دوست تھا۔
ان تینوں کی دوستی اسکول کے زمانے سے تھی اور اونچ نیچ کے ساتھ ابھی تک چلتی آرہی تھی۔ حسن کے والد کلرک ہیں اور وہ اپنے والدین کی الکوتی اولاد، اس لیے اس کے گھر میں خوش حالی ہے ،بنسبت اپنے دوستوں کے۔ عظیم کے والد کا چھوٹا سا کریانہ اسٹور ہے اور اس سے صرف اتنی آمدن ہوتی ہے کہ چار بچوں اور گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ جب کہ الیاس کے والد سرکاری اسکول میں استاد ہیں اور کھینچ تان کر ہی گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے سرسری سا جائزہ لیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
سلائی مشین پہ جھکی ماں، باورچی خانے میں مصروف آپا اور برآمدے میں کتابیں کھولے بیٹھی دونوں چھوٹی بہنیں۔
"سلام اماں۔"
"کتنی بار کہا ہے السلام علیکم کہا کر۔ آج پھر تو نے اتنی دیر لگا دی۔ کالج کی چھٹی ہوئے دو گھنٹے ہو گئے ہیں اور تو اب گھر میں گھس رہا ہے؟" اماں نے اسے گھرکا۔
"وہ اماں، میں اور الیاس حسن کے گھر پر تھے۔ کالج میں پڑھائی بس برائے نام ہی ہوتی ہے، اس لیے سب دوست اکٹھے ہو کر تھوڑا پڑھ لیتے ہیں۔" ماں کے تخت پر دھم سے بیٹھتے ہوئے عظیم نے جواب دیا۔
اور یہ تو اماں کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کی مل کر وہ لوگ جو کرتے ہیں وہ پڑھائی تو بالکل بھی نہیں ہوتی۔ "چل اٹھ منہ ہاتھ دھو اور کھانا کھا لے۔ آسیہ جلدی سے بھائی کے لیے کھانا لے کر آ۔" اماں نے وہیں سے آواز لگائی۔
"اتنے تم پڑھاکو ہوتے تو ہر بار مر مر کے پاس نہ ہوتے۔ جیسا خود ہے ویسے ہی اس کے دوست۔" آپا نے تازہ روٹی سالن اس کے سامنے دھرتے ہوئے کہا۔ اماں اور اس کی گفت و شنید وہ کچن میں بخوبی سن چکی تھیں۔
"ابھی بھی وقت ہے سدھر جاؤ۔ اچھے سے تیاری کرو پیپرز کی۔ اچھی ڈویژن آگئی، پڑھ لکھ گئے تو چانس ہو گا کوئی ڈھنگ کی نوکری ملنے کا۔ تب ہی تو حالات بدلیں گے ہمارے گھر کے۔"
"اچھا آپا دیکھتے ہیں، میں نے آگے کیا کرنا ہے کیا نہیں۔" کھانا کھاتے ہوئے اس نے بات ہوا میں اڑائی تو آپا نے اسے تاسف سے دیکھا-
"اور ویسے بھی پڑھائی کرنے کے لیے تم تینوں کم ہو کیا؟ میں تو اپنی زندگی کو ابھی انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔" عظیم نے لاپروائی سے کہا تو اماں نے غور سے اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔ شکل و صورت اور قد کاٹھ میں وہ جتنا اچھا تھا ذمہ داریاں اٹھانے اور پڑھائی میں اتنا ہی بے نیاز۔ وہ کالج میں دوسرے سال کا طالب علم تھا۔ آسیہ عظیم سے دو سال بڑی اور پڑھائی میں اچھی خاصی تھی مگر گھریلو حالات نامناسب ہونے کے باعث اس کا ایک سال ضائع ہوا اور اب وہ پرائیویٹ بی اے کر رہی تھی۔ صورت میں ان کے چاروں بچے ہی خوب تر تھے مگر عادات میں مختلف۔ کھانا ختم کرتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اماں دوبارہ سلائی مشین پر جھک گئیں، صرف آسیہ ہی تھی جو اس کے لاپروا رویے سے خائف ہوئی تھی۔
دو کمرے، باورچی خانہ، چھوٹی سی بیٹھک اور واش روم، یہ تھا ان کا کل گھر۔ چھت پر بنا اسٹور نما کمرہ جو کبھی کاٹھ کباڑ رکھنے کی جگہ تھی اب عظیم کے استعمال میں تھا۔ اس اسٹور کو اس نے خود شوق سے صاف ستھرا کر کے رہنے کے قابل بنایا تھا۔ اول تو اسے وہاں اپنی مرضی کرنے کی آزادی رہتی دوسرا وہ گھر والوں کی نظروں سے بھی بچا رہتا۔
رات کے کھانے پر ابا نے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا:
"ہاں بھئی برخوردار تمھارے پیپرز تو شاید ہونے والے ہیں۔ دھیان رکھنا اگر اس بار بھی تھرڈ ڈویژن آئی تو پھر میرے کریانہ اسٹور کا رخ کر لینا۔ جب پڑھائی میں توجہ ہی نہیں تو بہتر ہے کہ باپ کا ہاتھ ہی بٹا دو۔۔۔" سرسری الفاظ کسی وارنگ سے کم نہ تھے۔
"جی ابا!" نوالہ بمشکل نگل کر وہ بس یہ ہی کہہ پایا تھا۔
٭٭٭٭
"ایک تو اس وارڈن نے جان عذاب کر رکھی ہے۔ صبح صبح موڈ کا ستیاناس کر دیا۔ اتنی خرانٹ شکل اور زبان تو دو دھاری تلوار ہے۔" مسلسل بڑبڑاتے ہوئے اس نے الماری سے اپنے کپڑے نکالے۔
"بتاؤ تو سہی کہ ہوا کیا ہے؟" روم میٹ نے کریدا۔
"ہونا کیا ہے؟ موقع چاہیے بس اس سڑی ہوئی عورت کو بد زبانی کرنے کا۔ ناشتا لینے گئی تو میری شکل دیکھتے ہی شروع ہو گئی کہ آج کل دیر سے کیوں آتی ہوں ہاسٹل واپس؟ تمھارا کھانا روم میٹ لے کر جاتی ہے جب کہ خود لے کر جانا چاہیے۔ ابھی تک طور طریقے ہی نہیں سیکھے وغیرہ وغیرہ۔" روم میٹ کی بات کا جواب شگفتہ نے انتہائی غیر شگفتہ انداز میں دیا تھا۔ حت الا مکان اس نے سڑا ہوا منہ بنا کر وارڈن کے لہجے کی نقل کی تھی۔
"ہاں یار کل میڈم نے مجھے بھی بہت سنائی ہیں۔ کہہ رہی تھی کہ خود تو محترمہ ہاسٹل میں موجود نہیں ہوتی اور تم اس کے لیے کھانا لے جاتی ہو۔ کون جانے باہر سے کسی کے ساتھ کھانا کھا کر ہی آتی ہو۔" شگفتہ کی روم میٹ صائمہ نے جواب دیا۔
"بکواس تو ایسے کرتی ہے جیسے اس کے باپ کا کھاتی ہوں۔ میس دیا ہوتا ہے مہینے بھر کا۔ یہ کون ہوتی ہے ہمارے پیسے سے ہی بنے کھانے پر باتیں سنانے والی۔" شگفتہ کا موڈ مزید بگڑا تھا۔
شگفتہ کا صرف نام ہی شگفتہ تھا۔ باقی اس کے رویے، طور طریقے اور گفت و شنید میں شگفتگی دور دور تک ناپید تھی۔ وہ نوجوان، خوب صورت مگر انتہائی بدتمیز تھی۔ ماڈل ٹاؤن میں بنے اس ورکنگ ویمن ہاسٹل میں وہ گزشتہ چار برس سے مقیم تھی۔ ہاسٹل میں قیام پزیر تمام لڑکیاں ہی کہیں نہ کہیں نوکری کرتی اور لاہور سے باہر کی تھیں۔ ہاسٹل میں بہت زیادہ سختی تو نہ تھی مگر قواعد و ضوابط کا وارڈن ہر ممکن خیال کرتی تھیں۔ ہوسٹل میں آنے والی ہر نئی لڑکی کو شگفتہ اپنا تعارف "سرٹیفائیڈ بدتمیز" کہہ کر کرواتی اور لڑکیاں نامحسوس طور پر اس سے دبنا شروع ہو جاتیں۔ ہاسٹل میں اس کی سلام دعا تو سب سے تھی مگر دوستی صرف صائمہ سے تھی۔ پچھلے تین سال سے وہ دونوں اکٹھی تھیں مگر صائمہ بھی شگفتہ کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتی تھی، جتنا اس نے اسے بتایا تھا۔ ورنہ اپنی زندگی اور معاملات میں اس نے بلا ضرورت کسی کو جھانکنے تک نہیں دیا تھا۔
شگفتہ کا تعلق زندہ دلوں کے شہر لاہور کے ایک نواحی قصبے سے تھا۔ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی شگفتہ کا باپ ایک کسان تھا۔ ایک ہی گھر میں وہ اپنے والدین، دادا دادی اور چاچا کے اہل خانہ کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ چند برس کی تھی جب اس کا باپ اچانک کھیتوں سے واپس آیا تو اس کا نیلا پڑتا جسم دیکھ کر وہ سہم گئی۔ انھیں کسی زہریلے سانپ نے ڈسا تھا۔ کچھ ہی دیر میں طبی مدد ملنے سے قبل ہی وہ اپنے گھر والوں کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ گئے تھے۔
یکے بعد دیگرے اگلے چند سالوں میں اس کے دادا دادی بھی اگلے جہاں سدھار گئے۔ اب وہ اور اس کی ماں چاچا چاچی کے رحم و کرم پر تھے۔ سارا دن گدھے کی طرح اس کی ماں گھر کے اندر اور باہر کے کام کرتی۔ چاچا تو زمینوں پر چلا جاتا اور پیچھے سے چاچی اپنی اور اپنے تین بچوں کی خدمت ان ماں بیٹی سے کرواتی۔ میٹرک تک جیسے تیسے اس نے قصبے کے سرکاری اسکول سے پڑھا اور پھر ایک دن دنیا میں اس کا واحد سہارا بھی گزر گیا۔ یہ کیسی ستم ظریفی تھی کی کہ شگفتہ کی ماں نے بھی اس کی نظروں کے سامنے دم توڑا تھا۔ ان کا فشار خون بلند ہوا تھا اور وہ دوا جو ہمیشہ کھایا کرتیں اس دن کام نہیں کر سکی تھی۔ پتا نہیں کون سا روگ تھا جو دیمک کی طرح انھیں اندر ہی اندر چاٹ گیا تھا۔
٭٭٭٭
پہلی دفعہ شوقیہ سگریٹ عظیم نے تب ہونٹوں سے لگایا تھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھا۔ ایک دن ابا نے اسے اس کے دوستوں کے ساتھ سگریٹ سے لطف اندوز ہوتے دیکھ لیا تھا۔ ابا ٹھہرے شریف آدمی اور سگریٹ پان جیسے کسی بھی نشے کے عادی نہ تھے۔ زبانی لعن طعن کے ساتھ انھوں نے اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ دوسری بہت سی پابندیوں کے ساتھ جو تھوڑا بہت جیپ خرچ اسے ملتا ابا نے سزا کے طور پر وہ بند کر دیا تھا۔ لہذا آئندہ سگریٹ نہ پھونکنے کی قسم کھاتے ہوئے اس نے ابا سے معافی تلافی کر لی تھی۔
سگریٹ سے تو جیسے تیسے اس نے چھٹکارا پا لیا مگر دوسری بہت سی گندی عادتوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، ان کا پیچھا کرنا، فون پر دوستیاں اور اب فیس بک یاریاں۔
عظیم کی سب س قیمتی چیز اس کا چائنہ ساخت کا اسمارٹ فون تھا، جو اس نے پچھلے سال ہی چار ہزار کا خریدا تھا۔ دو ہزار کا بندوبست تو کسی نہ کسی طرح گھر سے ہی ہو گیا تھا جبکہ دو ہزار اس نے حسن سے ادھار لیے تھے۔ منتوں ترلوں سے لیا گیا ادھار اس نے ابھی تک نہیں چکایا تھا۔
سب سے زیادہ چسکا اسے فیس بک کا تھا۔ چند دن پہلے ہی اس کی نئی فیس بک فرینڈ بنی تھی ،جو خوب بھڑکیلی تصویریں پوسٹ کرتی تھی۔ خدا جانے اس کی پوسٹ کی گئی تصویریں ذاتی تھیں یا نہیں مگر اسے کیا غرض تھی اس سب سے۔۔۔ پہلی بار چیٹنگ کے بعد ہی عظیم نے اس سے اس کا فون نمبر مانگا تھا جو کہ اس لڑکی نے تھوڑی سی حیل و حجت کے بعد دے دیا۔ وہ دونوں ہی ٹائم پاس تھے۔ بھلا ہو موبائل پیکیجز کا جس نے رابطے آسان اور سستے بنا دیے تھے۔
"برائی برائی ہی ہوتی ہے چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ سب لوگ مل کر بھی اس چیز کو فالو کر رہے ہیں جس کے نتائج درست نہیں تو وہ چیز غلط ہی کہلائے گی۔۔ ساری دنیا مل کر بھی اس غلط کو جسٹی فائی نہیں کر سکتی۔۔" بڑے دھڑلے سے اس نے اسٹیٹس ٹائپ کرتے ہی پوسٹ کر دیا۔ پرنس عظیم کے نام سے یہ اس کا اصل اکاؤنٹ تھا۔ کچھ لمحوں کے انتظار کے بعد اس نے خود ہی اپنے پوسٹ کیے اسٹیٹس کو دل والا ری ایکٹ بھی دے ڈالا تھا۔ اس کے علاوہ پریٹی گرل کے نام سے اس نے ایک فیک اکاؤنٹ بھی بنا رکھا تھا۔ یہ ایک نشہ تھا اور وہ اس نشے کا کب عادی ہوا دوسروں کی طرح یہ بات اسے خود بھی معلوم نہیں تھی۔ اور نہ ہی اسے احساس تھا۔
٭٭٭٭
کاروبار میں اخلاقیات نام کی چیز کم کم ہی پائی جاتی ہے، شگفتہ نے ایسا سنا تھا اور اس بات پر تصدیق کی مہر تب لگی جب وہ نوکریوں کے لیے خوار ہونے لگی۔ گاہک کو خوش رکھنے، انھیں اشیاء خریدنے پر مجبور کرنے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس نے بنیادی اخلاقی اقدار کو انتہائی غیر اہم گردان کر ترک کر دیا تھا۔ تقریبا چار سال کے تجربے میں اس نے بہت سی چیزیں سیکھی تھیں۔
پہلے پہل اس کو لگا تھا کہ نوکری اس کی ضرورت ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اسے ادراک ہواکہ وہ نوکری کی ضرورت ہے۔ خوب صورت لڑکیاں درحقیقت بہت سی نوکریوں کی ضرورت تھیں۔ اپنا کاروبار چمکانے اور گاہک گھیرنے کے لیے لوگ غیر محسوس طریقے سے خوب صوت لڑکیوں کا استعمال کرتے تھے۔ شگفتہ کی ڈیوٹی زیادہ تر ایسے سیکشن پر ہوتی جہاں مردوں کا خریداری کے لیے زیادہ آنا جانا ہوتا۔ انھیں مسکرا مسکرا کر دیھکنے، چیزوں کی مارکیٹنگ کرنے سے لے کر ان کی تمام غیر اخلاقی حرکتوں جنیھں آج کل غیر اخلاقی سمجھا ہی نہیں جاتا برداشت کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔ مردوں کے اس باعزت معاشرے میں شگفتہ اور اس جیسی ہزاروں چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے والی لڑکیاں باعزت کہاں گردانی جاتی تھیں۔ پر اسے اب ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ بیشتر مردوں کے لیے صرف ان کے گھر کی عورتیں ہی عزت اور غیرت ہوتی ہیں۔
٭٭٭٭
آج پھر وہ تینوں حسن کے گھر اکٹھے ہوئے تھے۔ امتحان سر پر ہونے کے باعث اپنی سرگرمیاں انھوں نے کافی حد تک محدود کر لی تھیں۔
"ابا بڑی سختی کرنے لگے ہیں یار! کچھ تو پڑھنا وڑھنا پڑے گا ورنہ وہ اپنے ساتھ دکان پر بٹھا لیں گے مجھے۔ اور مجھ جیسے ہیرو کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں۔" عظیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا تھا۔
اس کا دُکھڑا سن کے الیاس اور حسن مسکراتے رہے۔
"ہاں تو کر لے تھوڑی محنت۔ چند دنوں کی تو بات ہے۔۔ پیپرز ختم تو سمجھو ٹینشن ختم۔" حسن نے مشورہ دیا کیونکہ پڑھائی میں دونوں سے بہتر تھا۔
"پڑھ بھی لیں گے یار۔ پہلے تو وہ تصویریں اور پروفائل تو دکھا جن کا تو ذکر کر رہا تھا۔" الیاس نے فرمائش کی۔
"اچھا وہ، ابھی لو۔" اگلے چند لمحوں میں اس کی انگلیاں فیس بک پر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس کے کندھے کے دائیں اور بائیں سے جھانکتے ہوئے عظیم اور الیاس بھوکی نظروں سے موبائل اسکرین کو دیکھ رہے تھے۔
پروفائل کھلتے ہی سب سے پہلے عظیم کی نظر حسن کی کچھ گھنٹے پہلے شئیر کی جانے والی پوسٹ پر پڑی۔ شئیر کی جانے والی پوسٹ توڑ مروڑ کر لکھی گئی احادیث مبارکہ تھی جیسی کی آج کل فیس بک پر عام شئیر ہوتی رہتی ہیں۔ پوسٹ دیکھنے اور پڑھنے والے کو ہر ممکن یہ احساس دلایا جاتا کہ اگر وہ سچا مسلمان ہے تو پوسٹ لائیک اور شئیر کرے جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت اور کئی سالوں کی بدقسمتی لازم ہو جاتی ہے۔ وہ تینوں ہی گاہے بگاہے اسلامی پوسٹ شئیر کرتے رہتے تھے وہ بھی پبلک پرائیویسی کے ساتھ۔۔
عظیم نے پوسٹ پڑھ کے حسن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے داد دی:
"بڑا کمینہ ہے تو ویسے۔ حساب پورا رکھتا ہے۔ دنیا دکھاوے کو کچھ اور، اندر سے گنوں کا پورا۔"
"ہاں تو اس میں برائی کیا ہے؟ تم لوگ اس معاملے میں کون سا کم ہو؟ ابھی کل ہی تو میں نے تمھارا اسٹیٹس پڑھا تھا برائی سے متعلق۔۔" حسن نے بات عظیم پر الٹ دی تھی۔
"ہاں تو بندہ منافقت کیوں کرے؟ بلکہ جو جی چاہے کرے اور کہے۔" عظیم کے کہنے پر تینوں کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔
سوشل میڈیا پر من پسند اسلامی پوسٹس بنا بنا کے پیش کرنے والوں کو شاید اس بات کا رتی بھر انداذہ نہ تھا کہ وہ دین اسلام کو اپنی مرضی کے مطابق پیش کر کے نہ صرف خود گمراہی میں پڑ گئے بل کہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے تھے۔ انھیں شعور نہ تھا کہ سچا مسلمان اپنے درست عقائد اور اچھے کردار سے پہچانا جاتا ہے مذہبی مواد لائیک اور شئیر کرنے سے نہیں۔ وہ تینوں ایسے منافق تھے، جو درحقیقت منافقت کے اصل مفہوم سے بھی روشناس نہ تھے۔ بہت سے دوسرے منافقوں کی طرح وہ لڑکیوں کی پروفائلز دیکھنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ تمام پروفائلز ان لڑکیوں کی تھیں جنہوں نے پبلک پرائیویسی کے ساتھ قابل اعتراض تصویریں اور پوسٹس شئیر کر رکھی تھیں۔ ایک کے بعد ایک آنکھیں کھول دینے والی تصویر ان کے سامنے ابھر رہی تھیں۔ کچھ پروفائلز پر فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کی گئی تھی، کچھ کو انباکس میسیج اور کچھ کو فالو۔ لازمی طور پر ان میں سے زیادہ تر پروفائلز فیک تھیں جو بے راہ روی پھیلانے کے لیے بنائی گئی تھیں۔
اس سب میں نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ ان تینوں کا ارتکاز دروازے پر ہونے والی تیز دستک نے توڑا تھا۔ حسن نے گڑ بڑا کر موبائل بند کیا۔ برق رفتای سے عظیم اور الیاس سامنے سے ہٹ کے کارپٹ پہ لاوارثوں کی طرح پڑی کتابوں کے پاس جا بیٹھے۔ حسن اب دروازہ کھولنے کے لیے تیار تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اسے اپنی ماں سامنے کھڑی نظر آئی۔۔ گہری نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے حسن سے پوچھا:
"چائے پانی تو نہیں چاہیے، میں نے سوچا کب سے پڑھ رہے ہیں ،تھک گئے ہوں گے۔" لہجہ نرم مگر بالکل ٹھنڈا تھا۔
"وہ۔۔ نہیں امی۔۔ بس ختم ہونے ہی والی ہے پڑھائی۔ پھر انھوں نے اپنے گھر چلے ہی جانا ہے بھلا چائے پانی کی کیا ضرورت۔" مارے کھسیاہٹ کے حسن سے بمشکل جواب بن پایا تھا۔
"ٹھیک ہے تم لوگ پڑھو۔" تنبیہ کرتی وہ واپس لوٹ گئیں۔۔
انھیں اب واقعی پڑھنا تھا لڑکیوں کے پروفائلز کو نہیں کتابوں کو۔
حسن کی امی کو عظیم اور الیاس کا گھنٹوں حسن کے ساتھ گھسے رہنا پسند نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی وجہ سے مجبور تھیں کہ وہ دونوں اس کے بچپن کے دوست تھے۔ بہرحال وہ عظیم کی ماں کی طرح سادہ لوح ہرگز نہ تھیں اور نہ ہی اعتماد کے نام پر انھوں نے بیٹے کی طرف سے آنکھیں اور کان بند کیے تھے۔ ہر ممکن حد تک وہ حسن پر نظر رکھتی تھیں۔
٭٭٭٭
چھٹی ہوتے ہی اس کا ارادہ سیدھا ہاسٹل جا کر آرام کرنے کا تھا۔ وین سے اترتے ہی اسے یاد آیا کہ اس کا صابن اور شیمپو ختم ہونے والے ہیں۔ ہاسٹل کے سامنے والی مارکیٹ سے اپنی مطلوبہ دکان سے خریداری کرکے وہ ہاسٹل چلی آئی۔ ہاسٹل میں داخل ہوتے ہی گیٹ پر رکھے رجسٹر پر اس نے اندراج کیا۔ لڑکیوں کے نام مع کمرہ نمبر اور آنے جانے کے اوقات رجسٹر میں درج ہوتے تھے۔
لابی سے گزتے ہوئے اس نے غیر معمولی خاموشی محسوس کی۔ جمعہ ہونے کے باعث بہت سی لڑکیاں اپنے گھروں کو جا چکی تھیں۔ لابی میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب میڈم کا کمرہ تھا اور دائیں جانب کمروں کی قطار میں سب سے آخری کمرہ شگفتہ کا جب کہ سامنے سے سیڑھیاں اوپر والی منزل کو جاتی تھیں۔
نامحسوس طریقے سے وہ وارڈن کے کمرے کے سامنے آ کر رک گئی۔ دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ رات کے کھانے میں کوئی تین گھنٹے باقی تھے۔ یقینا میڈم اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہوں گی۔ کچھ سوچ کر اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے اس نے دروازے کے باہر والی کنڈی لگا دی تھی۔
کارروائی ڈالنے کے بعد اس کا رخ سیدھا اپنے کمرے کی طرف تھا۔ کمرے میں داخل ہو کے اس نے سکون کی گہری سانس خارج کی۔ اس کی ایک روم میٹ آرام کر رہی تھی جب کہ دوسری موبائل پر مصروف تھی۔ پرس اپنی الماری میں رکھ کر وہ واش روم جا گھسی اور پھر اپنے بستر پر آ کر دراز ہو گئی۔ سونے سے قبل اس نے روم میٹ سے کہا:
"سنو جب کھانا لگے تو جگا دینا" اب اس کے آرام کا وقت تھا۔ چادر تان کر وہ پرسکون ہو کے سو گئی تھی۔
٭٭٭٭
کمرہ امتحان میں موجود زیادہ تر لڑکے کچھ بدحواس سے لگ رہے تھے۔ آج سیکنڈ ائیر والوں کا پہلا پرچہ تھا۔
"افف انویجیلیٹر تو شکل سے ہی خرانٹ لگ رہا ہے" اس نے دل میں سوچا۔ بوٹی تو بہرکیف وہ اپنے ساتھ کوئی نہیں لایا تھا مگر ارادہ اس کا یہ ہی تھا کہ جہاں تک ممکن ہو بیرونی مدد پر ہی چلے گا۔ حسن سے اسے کوئی خاص توقع نہیں تھی دوران امتحان وہ دوستی بھلا کر بالکل انجان بن جاتا اورپیچھے رہ گیا الیاس تو وہ خود بمشکل پاس ہو پاتا تھا۔ مگر اس بار وہ تھوڑا بہت پڑھ کر آیا تھا۔ مناسب نمبرز سے پاس ہونا اس کے لیے بے حد ضروری تھا۔ شیٹس دی جا چکی تھیں اور اب پرچے طلبہ کو دیے جا رہے تھے۔ کچھ دور بیٹھے الیاس کو عظیم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا گویا مدد کی اپیل۔۔۔ ایک اندھے کو دوسرے اندھے کا سہارا درکار تھا۔ تمام طلبہ پرچہ پڑھنے میں مصروف ہو گئے کچھ نے سکون کی سانس بھری تو کچھ کی سانس اٹکی تھی جن میں عظیم بھی شامل تھا۔ پرچہ اس کی توقع کے عین مطابق تھا یعنی مشکل۔۔۔ بمشکل اسے دو سوال ہی آتے تھے۔ فٹافٹ اس نے ان کے جواب لکھنے شروع کیے۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد جتنا پیپر وہ کر سکتا تھا کر چکا تھا۔ مدد طلب نگاہوں سے اس نے اطراف کا جائزہ لیا۔
"اپنی توجہ اپنے پیپر کی طرف رکھو۔" ممتحن نے درشتی سے کہا۔
کچھ دیر بعد وہ پھر ادھر ادھر دیکھتا پایا گیا تھا اور پھر سے اسے ٹوکا گیا تھا۔
کچھ دیر بعد یک دم اس کے سامنے پڑی شیٹ کھینچ لی گئی۔
"اٹھو اور سامنے والی خالی سیٹ پر جا کر بیٹھو۔" ممتحن نے جارحانہ انداز میں قریبا قریبا گھسیٹتے ہوئے عظیم کو اگلی نشست پر دھکیلا۔ بہت سی نظریں اس کی طرف اٹھیں۔ کچھ طلبہ اسے استہزائیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے جن میں حسن بھی شامل تھا۔
"اگر اب ادھر ادھر جھانکتے دیکھا تمھیں تو پیپر چھین لوں گا۔ یہ لاسٹ وارننگ ہے۔" خفت سے اس نے سر ہلا دیا۔
نشست بدلنے کے دوران محتاط نظروں سے کچھ پوائنٹس وہ دیکھ چکا تھا۔ لہذا جیسے تیسے سوال مکمل کرنے لگ گیا کہ پاس تو ہونا ہی تھا۔ یہ ہی سلوک عظیم کے ساتھ اگلے تمام پرچوں میں بھی ہونے والا تھا۔ مگر فرق تو تب پڑتا جب اسے اس سلوک کی عادت نہ ہوتی۔ تھوڑی بہت چیٹنگ کرنے کا حق اس کے خیال میں اسے حاصل تھا۔
٭٭٭٭
"اٹھ جاؤ کھانے کی بیل ہو چکی ہے۔" اس کا کندھا ہلا کے کہا گیا تھا۔
"اچھا اٹھ رہی ہوں۔ تم رکو اکٹھے ہی چلیں گے۔" بستر سے نکلتے ہی شگفتہ نے اپنی روم میٹ کو مخاطب کیا اور واش روم کی طرف چل دی۔
"باہر سے شور کی آوازیں کیوں آرہی ہیں؟ اتنا کون چیخ چلا رہا ہے؟" واش روم سے نکلتے ہی اس نے استفسار کیا۔
"پتا نہیں چلو دیکھتے ہیں۔" کمرہ مقفل کر کے اس نے چابی ہاتھ میں تھام لی۔
کھانے کے کمرے کے قریب پہنچتے ہی انھیں آوازوں کی نوعیت سمجھ آگئی تھی۔ وارڈن انتہائی غصے سے اونچا اونچا بول رہی تھیں مگر کیوں؟ شگفتہ کی روم میٹ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اندر کا منظر شگفتہ کی توقع کے عین مطابق تھا۔
بھاری بھر کم جسم اور گہرے سانولے رنگ کی وارڈن کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی تھیں۔ ان کا رنگ غصے سے تانبے کی مانند تپ رہا تھا۔ اس نے سرسری جائزہ لیا۔ کچھ لڑکیاں کھانے کی میز کے گرد کرسیوں پر براجمان تھیں تو کچھ کھڑے رہ کر صورت حال سمجھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
میڈم کو وہ کم ہی مخاطب کرتی تھی مگر آج کا دن خاص تھا۔
"کیا ہوا میڈم آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟" انتہائی معصومیت سے سوال داغ کر وہ خالی کرسی کی طرف بڑھ گئی جہاں اس نے صائمہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کرنا تھا۔ شگفتہ کا سوال سن کر میڈم کو پتنگے لگ گئے۔
"ارے میں پوچھتی ہوں کوئی شرافت اور تمیز ہے تم لڑکیوں میَں؟ خود تو ماں باپ سے گھر میں سنبھالی نہیں گئی۔۔۔ سارا دن پتا نہیں کہاں کہاں منہ مار کر شام کو آجاتی ہیں میری جان کا عذاب بن کر۔۔۔ جانتی ہوں میں تم لوگوں میں سے ہے کوئی ذلیل حرکت کرنے والی۔ پتا لگ ہی جائے گا۔۔ چھوڑوں گی نہیں اس کمینی کو۔" میڈم کی بک بک جاری تھی۔
"یار آج تو حد ہی ہو گئی- کسی نے میڈم کے کمرے کی کنڈی باہر سے لگا دی جب وہ اندر آرام کر رہی تھیں۔ جب وہ اٹھیں اور اندر سے کنڈی کھولنے کے بعد بھی دروازہ نہ کھلا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ کافی دیر وہ اندر سے دروازہ بجاتی اور آوازیں دیتی رہیں پھر کہیں جا کر فضلو بھائی(شیف) کو اندازہ ہوا آوازوں کا جب وہ کچن میں رات کا کھانا بنا رہے تھے۔ انھوں نے ہی میڈم کو قید سے رہائی دلائی ہے۔ ہی ہی ہی۔۔۔" شگفتہ کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے انھیں آگاہ کیا۔ اس کے خیال میں وہ پورے قصے سے لاعلم تھی۔
"چھی چھی بہت برا ہوا میڈم کے ساتھ تو۔" شگفتہ نے اظہار افسوس کیا اور ساتھ ہی ان کی طرف دیکھا جو فردا فردا ان لڑکیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں جن پر انھیں شک تھا۔ اسی اثنا میں اٹھ کر باورچی خانے سے وہ اپنا کھانا ڈلوا لائی تھیں۔ آج اس کی پسند کا چکن پلاؤ بنا تھا۔ میڈم کا کھانا تو برباد ہو چکا تھا جب کہ آج اس نے بڑے شوق اور رغبت سے کھانا تناول کرنا تھا۔ ابھی اس نے پہلا چمچ ہی منہ میں رکھا تھا ،جب میڈم نے پاٹ دار آواز میں اسے پکارا:
"شگفتہ کہیں یہ نیچ حرکت تمھاری تو نہیں۔۔۔ کہاں تھی تم شام کو؟ اتنی جرآت کوئی اور لڑکی تو نہیں کر سکتی۔۔" میڈم کے ساتھ ساتھ ہال میں موجود تمام لڑکیوں کی نظریں خود پر مرکوز ہونے کا احساس اسے بخوبی ہو رہا تھا۔ صورت حال ایسی بھی ہو سکتی ہے یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ (جاری ہے )