بنت محمود  کراچی

جاذب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

"کک ۔۔ کیا ۔۔۔ کیا کہا آپ نے ۔۔۔ ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔۔"

"ہاں جاذب میاں تمھارے اندر ایک لڑکی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، چاہو تو آپریشن کروا کر ایک مکمل لڑکی بن سکتے ہو " ۔

ڈاکٹر کمار نے اپنی بات دہرائی تو  جاذب سوچ میں پڑ گیا ۔۔ ویسے تو اس کے اندر شروع ہی سے لڑکیوں جیسی نزاکت پائی جاتی تھی۔ اور یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح سے جانتا تھا ۔ در اصل پانچ بہنوں ، کئی کزنوں اور ان  کی سہیلیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بڑا ہوا تھا ۔ بہنوں اور ان کی دوستوں کے مزاحیہ وار بھی کچھ کم خطر ناک نہیں تھے ۔ رفتہ رفتہ جاذب کی چال ڈھال اور بات چیت میں زنانہ انداز غالب ہوتا گیا، یہی نہیں بلکہ اس کی ایک شرارتی  کزن نے اس کے دل میں اس کے بچپن کے دوست نادر  کے لیے ایسے جذبات پیدا کردیے  جو کسی لڑکی کے کسی لڑکے کے لیے ہو سکتے ہیں ۔۔۔  دوست کے لیے  دوستانہ محبت کوئی انہونی بات نہیں تھی مگر اس کے جذبات میں زنانہ جذبات بڑھتے جا رہے تھے ، وہ شراتی کزن روزانہ ہی اس کے جذبات کو ہوا دیا کرتی ، پھر اس کزن نے ہی اسے مشورہ دیا کہ تم  ڈاکٹر کمار سے مشورہ کر لو، ڈاکٹر کمار شہر کے مشہور ہسپتال میں جنسیات کے بہت نامی گرامی ڈاکٹر مانے جاتے تھے ۔ ڈاکٹر کمار نے جاذب کی بات چیت سنی چال ڈھال کا جائزہ لیا اور تفصیلی طبی معائنے کا بعد اسے مشورہ دیا کہ تم آپریشن کروا کر لڑکی بن جاؤ جاذب کا دل  بلیوں اچھلنے لگا شاید وہ خود بھی یہی چاہتا تھا۔

 

******************

چودھری  صاحب کے گھر آج  درس تھا، کسی بزرگ نے درس دینا تھا ۔جاذب کو بھی اس  کے کچھ دوست اپنے ساتھ کھینچ لائے تھے ۔

 نورانی چہرے والے وہ بزرگ ،سفید لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے ۔ ان کے لہجے میں مٹھاس اور الفاظ میں بہت تاثیر تھی ۔ وہ اپنے بیان میں  قوم لوط کا قصہ بیان کررہے تھے ۔

 "قرآن مجید میں قوم لوط   کاذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،قومِ لوط کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا  ۔ جو بحر مردار کے ساحل پر واقع تھا، اورقریش  مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستے سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں  بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا. حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ کا نام لوط بن ہاران بن آذر تھا.

وہ چار شہر تھے.آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب تھی.صبح کا وقت تھا... وہ سب اپنے کام کاج میں مصروف تھے.... اچانک بلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز پیدا ہونے لگی اور زمین ہلنے لگی.. ایسے لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو.. لوگ اس پراسرار آواز اور پھر زمین ہلنے کی وجہ سے گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئے تاکہ زلزلے کے نتیجے میں مکانات اگر زمین بوس ہوں تو وہ اپنی جان بچا سکیں. پھر گڑگڑاہٹ کی آواز اور زمین ہلنا رک گئی.."

کچھ دیر وہ بزرگ خاموش رہے اور پھر سلسلہ کلام شروع کیا ۔

"چند لمحے سکون رہا اور پھر زمین اتنی شدت سے ہلنے لگی کہ مکانات گرنے لگے لیکن لوگ چوں کہ پہلے جھٹکے کے بعد گھروں سے نکل آئے تھے اس لیے مکانات کے گرنے کے باوجود بھی سب لوگ، زخمی  یا ہلاک بونے سے بچ گئے.. زمین کی حرکت میں شدت آتی جا رہی تھی لیکن لوگوں نے ایک بات نوٹ کی کہ یہ زلزلہ صرف اتنے حصے میں آ رہا تھا جتنے حصے میں شہری آبادی تھی. شہر سے باہر کے راستے بالکل ٹھیک اور نارمل حالت میں تھے.. جتنی جگہ  شہر کے مکانات تھے، اتنے علاقے کی زمین اردگرد سے کئی فٹ اونچی ابھر آئی تھی. یوں لگ رہا تھا جیسے صرف شہر کے علاقے کے نیچے کی زمین میں بیلچہ گھسا کر اتنے علاقے کی مٹی کو نیچے والی زمین سے الگ کر دیا گیا ہو. شہر کے لوگ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو چکے تھے. وہ  باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے کیوں کہ شہر کی زمین کافی اونچی اٹھ چکی تھی اور دونوں زمینوں کے درمیان گہری کھائی سی بن چکی تھی.. ایک بار پھر گڑگڑاہٹ اور زمین کی حرکت رک گئی تھی اور پھر یوں لگا جیسے پورے شہر کی زمین کو کسی نے ہاتھ میں اٹھا لیا ہو اور زمین کے اس ٹکڑے نے جہاں شہر واقع تھا، آسمان کی جانب پرواز شروع کر دی..

پھر بہت اوپر بلندی پر پہنچ کر زمین کے اس ٹکڑے کو الٹا کر کے زمین کی طرف پوری قوت سے پھینک دیا گیا. سارے شہر کے انسان سر کے بل تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے تھے. ان کے درمیان اور نیچے زمین کے درمیان فاصلہ تیزی سے کم ہو رہا تھا اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ پورے کا پورا شہر اپنی آبادی سمیت زمین کے ساتھ الٹا ٹکرا گیا اور سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا..

یہ بہت تیزی اور شدت سے ہوا تھا..شہر کی ساری آبادی ایک سیکنڈ میں ملیا میٹ ہوگئی تھی کچھ افراد زندہ بچ گئے تھے لیکن وہ شدید زخمی ہو گئے تھے. انہوں نے شدید زخمی بونے کے باوجود اپنی جان بچانے کے لیے اس علاقے سے نکلنے کے لیے دوڑ لگا دی.. ارد گرد ہر طرف مٹی دھول کے بادل رہ گئے تھے. مکانات مکمل طور پر مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکے تھے.. پھر اچانک آسمان سے پتھروں کی برسات شروع ہو گئی اور وہ پتھر ان انسانوں کو لگنے لگے جو زخمی تھے اور جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے..

ایک بات بہت عجیب تھی.. ہر ایک پتھر پر ان کے الگ الگ نام لکھے ہوئے تھے.. پتھر پر جس جس کا نام ہوتا تھا وہ پتھر صرف اسی کے جسم پر گر کر اس کو کچل رہا تھا..پھر وہ سب بھاگنے والے بھی مر گئے..

ہر طرف خاموشی چھا گئی. تھوڑی دیر پہلے جہاں ہنستا بستا شہر تھا وہاں صرف دھوئیں کے بادل رہ گئے تھے اور مکمل طور پر خاموشی کا راج قائم ہو چکا تھا..

اس پورے شہر کو اس کی زمین اور آبادی سمیت  حضرت جبرئیل  نے اپنے پر کے ذریعے سے اٹھایا تھا اور پھر بلندی پر لے جا کر الٹا پٹخ دیا تھا.. اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے باقی شہروں کو ان کی آبادیوں سمیت اٹھا کر بلندی سے الٹا پٹخ کر تباہ کر دیا تھا.."

یہاں تک بیان کر کے وہ بزرگ پھر رک گئے ۔ اور پھر کہنے لگے:

"ان لوگوں کے ساتھ یہ کیا ہوا تھا؟ کیوں بوا تھا اور یہ لوگ کون تھے؟

در اصل یہ سب لوگ بدترین عذابِ الہی کا شکار ہوئے تھے..

یہ سب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم سے تعلق رکھتے تھے.. یہ سب ایک ایسے گناہ کے عادی تھے جو انتہائی بدترین تھا..یعنی اس قوم کے مرد ہم جنس پرست تھے ۔ خاص طور پر  خوب صورت لڑکوں کی تاک میں رہا کرتے تھے۔ ان کے نبی حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ تم کس گندے کام میں پڑ گئے ہو ، قوم کی بیٹیاں بھی ہیں، حلال طریقے سے رشتہ جوڑو اور اپنی خواہش پوری کرو لیکن قوم نہ صرف باز نہ آئی بلکہ حضرت لوط کا مذاق اڑانے لگی تھی۔ حضرت لوط نے ان کو عذاب الہی سے بھی ڈرایا لیکن قوم  جب باز نہ آئی اور کھل کر عذاب لانے کا چیلنج کرنے لگی تو پھر یہ درد ناک عذاب آیا جس نے کچھ ہی لمحوں میں سب کو ملیا میٹ کردیا تھا ، آج بھی بہت سے لوگ اس برے فعل میں مبتلا ہیں ۔ اللہ کی باغی قومیں اس طرح کریں تو اتنی حیرت شاید نہ ہو لیکن مسلمان ہو کر ایسا کرنا کریم اور رحیم اللہ کو ناراض کرنا اور اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے "

٭٭٭٭٭

اچانک ایک کونے سے کسی کی ہچکیوں سے رونے کی آواز آنے لگی یہ  جاذب تھا

آگہی کی پہلی سیڑھی پہ ہی جاذب کو احساس ہوگیا تھا ۔کہ اس سے  یہ کیسی غلطی سرزد ہونے جارہی تھی ۔ وہ اپنے دوست نادر کو پانے کےلیے اس نے اپنی شاخت تبدیل کرنے عورت بنے کو بھی تیار تھا ۔

 نورانی چہرے والے وہ بزرگ  جانے کیا کیا کہہ رہے تھے لیکن جاذب کو اپنا آپ  بڑا ہی  چھوٹا  لگ رہا تھا ۔نادر کو پانے کے چکر میں خود کو کس اذیت میں مبتلا کررہا  تھا ۔کیا ہونے والا تھا ۔قوم لوط تو نیست و نابود ہوگئی تھی کیا جاذب بھی کہیں برباد ہونے جارہا تھا ۔وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہا  تھاکہ کہیں تاریخ خود کو دہرا نہ لے۔ بزرگ کے بیان ختم ہونے کے بعد جاذب ان کے قریب ہوگیا اور ان کو سب بتادیا ۔ بزرگ نے اسے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اسے توبہ کی تلقین کرنے لگے ۔