اُم حیات ہنگورا

آخر آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں؟ میرا بچہ کہاں ہے؟ آج دوسرا دن ہے، میں نے اپنے بچے کی شکل تک نہیں دیکھی۔ کوئی مجھے بتانے کو تیار نہیں ہے۔ آخر کیا معاملہ ہے؟‘‘ صائمہ یہ کہتے کہتے رو پڑی۔ شعیب نے  صائمہ کی طرف رومال بڑھایا اور کہنے لگا۔ ’’بہت صبر سے میری بات سننا، نہ ہی رونا اور نہ ہی چیخنا۔اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہمارے گھر جو بچہ پیدا ہوا تھا نا ۔۔۔۔۔!"

اتنا کہتے ہی شعیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے شعیب کی آواز  بھرّا گئی۔ پھر وہ ہمت کر کے بولا :

’’وہ لڑکا تھا نہ لڑکی۔‘‘

صائمہ شعیب کی بات سن کر سکتے میں آگئی پھر بڑبڑائی۔:

کیا مطلب ؟ ’’ لڑکا نہ لڑکی۔‘‘

’’ہاں وہ تیسری جنس تھی یعنی مخنث۔‘‘ شعیب نے بات مکمل کی۔

’’اب وہ کہاں ہے؟‘‘ صائمہ نے   پوچھا۔

’’انہی لوگوں کے پاس‘‘ شعیب ادھوری بات کہہ کر رُک گیا

’’کن لوگوں کے پاس؟‘‘ صائمہ نے سوال کیا۔

’’وہ اسی دن آکر لے گئے تھے جب وہ پیدا ہوا تھا‘‘ اب صائمہ کو شعیب کی سسکیاں سنائی دیں۔

’’مجھے رونے کا منع کرکے خود رو رہے ہیں‘‘ صائمہ بھی  رونے لگی۔

’’آپ نے ان کو کیسے لے جانے دیا ہمارا بچہ‘‘ صائمہ نے پوچھا۔

’’ہم اس کو کیسے رکھ سکتے تھے صائمہ؟‘‘

 ’’کیوں نہیں رکھ سکتے تھے۔ تھا تو وہ انسان ہی نا!اور پھر یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے اور آپ نے اسے انہی لوگوں کے حوالے کردیا تاکہ وہ ان جیسا بنے۔ آپ کو معلوم ہے وہ لوگ کیا کرتے ہیں پھر بھی آپ نے اپنی اولاد کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا‘‘

’’تم جذباتی ہورہی ہو صائمہ، لوگوں کو تم کیا بتاؤ گی کہ تمہارے گھر کیا پیدا ہوا ہے؟ اسے دوسرے بچوں کے ساتھ کیسے بڑا کرو گی اور پھر اسے کس اسکول میں داخل کروگی۔ ایک مسائل کا پہاڑ تھا جسے عبور کرنا میرے بس میں نہ تھا میں نے بھائی جان کی بات مان کر اسے ان لوگوں کے حوالے کردیا‘‘

’’مجھ سے مشورہ تو کیا ہوتا‘‘ صائمہ بے بسی سے بولی۔

’’تم عورت ہو، جو سوائے جذبات کے کوئی اور بات نہیں کرتی۔ یہ فیصلہ جذبات سے نہیں عقل سے کرنے کا تھا۔ میرے اور بھائی جان کے سوا یہ بات کسی کو پتا نہیں ہے‘‘ شعیب نے کہا۔

’’پھر باقی سب لوگوں سے آپ نے کیا کہا ہے؟‘‘ صائمہ نے حیرت سے پوچھا۔

’’اسپتال سے بچہ اغوا ہوگیا ہے اور تمہاری طبیعت کے پیش نظر سب کو تم کو بتانے سے منع کیا تھا مگر یہ حقیقت تم جان لو کہ اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ یہ کہہ کر شعیب نے کمرے کی بتی بجھا دی اور صائمہ کی آنکھیں تکیہ بھگونے لگیں۔

٭٭٭٭

’’اس کے ابا نے کہا ہے اس کا نام معراج رکھنا۔ ہائے ہائے اب ہم ہیجڑوں میں بھی یہ نام ہوگا‘‘

 ’’آپا گلّو تو کیا برا ہے؟ اتنا اچھا نام تو ہے معراج‘‘ ببلی ہاتھ بجاتے ہوئے بولی۔

’’ہم عورتوں والے نام رکھتے ہیں اور یہ مردوں والا نام ہے اور یہ بھی کہا ہے اس کو گویا نہیں بنانا۔ اس سے بھیک نہیں منگوانا۔ اب تو کیا پھر ہم اس کو وزیر اعظم بنائیں گے ملک کا’’ آپا گلو تالیاں پیٹتے ہوئے بولی۔

’’تو کیا تو نے اس کے ابا کی تمام شرطیں مان لیں؟‘‘ ببلی ہاتھ نچاتے ہوئے بولی۔

’’اس وقت تو ہاں کہہ دیا تھا مگر میں نے کونسا ان کی بات ماننی ہے۔ کروں گی تو میں وہی جو میں چاہوں گی، لے اب تو اسے سنبھال، میں شمو کے ساتھ اگلے محلے میں بارات آرہی  ہے وہاں جارہی ہوں۔ ابھی تیاری بھی کرنی ہے‘‘ آپا گلو آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بولی۔

’’آپا گلو مجھے بھی لے چل نا‘‘ ببلی اِٹھلاتے ہوئے بولی۔

 ’’دماغ خراب ہے تیرا۔ اس معراج کو کون سنبھالے گا۔ اب جب تک یہ سمجھدار نہیں ہوجاتا تب تک تو تُو کہیں نہیں جائے گی آج سے تو اس کی ماں ہے ماں سمجھی‘‘ آپا گلو نے چیختے ہوئے کہا۔ ’’ماں!! اچھا خیر یہ تو بہت سوہنا ہے کسی نیک والدین کی اولاد لگتا ہے مگر ہائے ہائے بے چارے کے نصیب‘‘ ببلی نے معراج کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں مولوی کا بیٹا ہے مولوی کا۔ یہ بڑی ڈاڑھی تھی اس کے ابا کی۔ ہائے اسے لیتے ہوئے تو میرا ہاتھ بھی کانپا تھا مگر اس کا ان کے گھر میں کیا کام‘‘ آپا گلو ببلی کو سمجھاتے ہوئے بولی ’’نام کیا تھا اس کے ابا کا؟‘‘ ببلی نے پوچھا۔

’’مجھے کیا پتہ، ویسے شعیب شعیب کہہ رہا تھا اس کا بھائی، البتہ اس کے بھائی کی ڈاڑھی نہیں تھی۔ چل چھوڑ سب میں تو چلی تو دروازہ بھیڑ لے کوئی چور اُچکا آگیا تو‘‘ آپا گلو تیار ہو کر یہ کہتے ہوئے نکل گئی۔

’’کیا لے جائے گا آپا گلو‘‘ ببلی ہنستے ہوئے دروازہ بند کرنے لگی۔

’’آجا منے، اب مجھے تجھ کو سنبھالنا ہوگا تو میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ میں تیری ماں ہوں ناں تو اب میرا بیٹا نہیں بیٹی، نہیں بیٹا۔ چل چھوڑ سب فضول باتیں ہیں‘‘ ببلی یہ کہہ کر بچے کو ہاتھ سے جُھلانے لگی۔

’’بہت ہی اچھا بچہ ہے‘‘ ببلی نے اسے دیکھا اور سوچا۔

٭٭٭٭٭

’’اب بس بھی کرو صائمہ۔ آج کتنے دن ہوگئے مگر تمہاری خاموشی ختم نہیں ہورہی۔ دیکھو تو ذرا مومنہ اور معاذ کیسے مرجھا سے گئے ہیں۔ جو پھول ہیں تمہارے پاس ان کی تو قدر کرو‘‘ شعیب نے صائمہ کو اکیلے کمرے میں بیٹھا دیکھا تو کہا۔

’’کل آپ کی امی کہہ رہی تھیں‘‘

’’صائمہ لوگوں کی باتوں میں مت آئو‘‘ شعیب نے ٹوکا۔

’’مگر وہ امی ہیں آپ کی‘‘ صائمہ بولی۔

’’دیکھو صائمہ تم کو اچھی طرح معلوم ہے اور مجھے بھی کہ ہمیں صرف شرعی پردے کی خاطر الگ ہونا پڑا۔ اب وہ کچھ بھی کہتی رہیں ہماری نیتوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں ناں‘‘
’’کہیں یہ ہمارے گناہوں کی سزا تو نہیں ہے۔ ابھی تو ان کو اصل بات معلوم نہیں ہے یہ بات تو آپ اور محمود بھائی کے درمیان ہے اگر ان کو اصل بات کا علم ہوجائے تو پھر‘‘ صائمہ یہ کہہ کر رونے لگی۔

’’جو دکھ اور پریشانی انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب کردے وہ آزمائش ہوتی ہے۔ گناہوں کی سزا کے متعلق کہنے سننے والے ہم کون صائمہ۔ فضول باتوں کو دماغ میں جگہ نہ دو اور اب گھر اور بچوں کو توجہ دو تاکہ دوسرے بھی اپنے گھروں میں سکون سے رہیں۔ تم نے بستر پکڑ لیا ہے اسی لیے ہر کوئی تمہاری ہمدردی میں آجاتا ہے۔ جب تم سب دوبارہ گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لو گی تو یہ سب فضول باتیں بھی سوچنا چھوڑ دو گی‘‘

مردوں جتنا بڑا دل کہاں سے لائوں۔ صائمہ نے دل میں سوچا اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ ’’اور میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں۔ نہیں میں نے تو اس کی ایک جھلک دیکھی تھی اور سسٹر نے کہا تھا کہ بی بی بہت‘‘ وہ چونک پڑی تو سامنے شعیب نہیں تھے وہ کمرے سے باہر آئی تو لائونج میں شعیب بیٹھے آنکھوں سے آنسو صاف کررہے تھے۔ صائمہ صوفے کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی اور شعیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنےلگی۔ ’’اب میں نہیں روئوں گی‘‘ وہ شعیب کو روتا دیکھ کر اپنی بات بھول گئی۔

’’اپنے ہاتھوں سے اپنے زندہ بچے کو حوالے کرنا اتنا آسان نہیں صائمہ مگر اب تم صرف یہ سوچو کہ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے‘‘ شعیب بیٹھے بیٹھے بولے تو صائمہ نے اپنے آنسو صاف کرلیے اور کہنے لگی ’’یقینا اسی میں بہتری ہوگی‘‘

٭٭٭٭

’’ارے آپا گلّو مجھے تو لگتا ہے یہ کسی کو تلاش کرتا ہے‘‘

’’کون ببلی؟‘‘ آپا گلّو پلنگ پر لیٹے لیٹے پوچھنے لگی۔

’’ارے یہی اپنا معراج ۔۔۔ دیکھتی نہیں کیسے آنکھیں گھماتا ہے اور تجھے تو بہت غور سے دیکھتا ہے جیسے تو نے اس کا کچھ چرایا ہو‘‘

’’چل کمبخت، بچے ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘ آپا گلّو غصے سے بولی۔

’’اچھا‘‘ کہہ کر ببلی نے معراج کو گود میں اٹھالیا۔

’’آپا گلّو مجھے دال میں کچھ کالا لگتا ہے‘‘ اب ببلی آہستہ سے بولی۔

’’کیا مطلب ہے تیرا؟‘‘ آپا گلو چونکی۔

’’یہ تو لڑکا ہے‘‘ ببلی آہستگی سے بولی۔