اس بچے کی کہانی جس کے باپ نے اپنے بھائی مل کر اسے ہجڑوں کے حوالے کر دیا تھا اور گھر والوں کو بتایا کہ بچہ چوری ہو گیا ہے ۔
اُم حیات ہنگورا
’’ہاں تو پھر‘‘ اب آپا گلو اطمینان سے بولی۔
’’تو کیا کہہ کر اسے لے آئی۔ یہ ہیجڑا نہیں ہے‘‘ ببلی حیرت سے بولی۔
’’تجھے اتنے دن بعد پتا چلا‘‘ آپا گلو بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’لے اتنے دن بعد آج تو تُو گھر آئی ہے تُو تو چمکی کے ساتھ حیدرآباد نکل گئی تھی ،مجھے اکیلا چھوڑ کر‘‘ ببلی ناراضی سے بولی۔
’’اکیلا کہاں، یہ پورا محلہ اپنا ہی تو ہے‘‘ آپا گلو ہنستے ہوئے بولی۔
’’ہاں تو اسی محلے والوں سے ہی تو اس کو چھپانا مشکل ہوگیا‘‘ اب ببلی ہاتھ پیٹتے ہوئے بولی۔
’’اوہ! میں تو بھول ہی گئی تھی بس تو خیال کر۔ ہمارے ساتھ رہ کر ہماری ہی عادتیں اپنائے گا تو ہیجڑا ہوہی جائے گا‘‘
’’مگر تو اس کے باپ سے کیسے لے کر آگئی یہ تو بتا مجھے، وہ عقل کا اندھا کیا آنکھوں کا اندھا تھا‘‘ ببلی طنزیہ بولی۔
’’چل تو اپنا کام کر، بڑھاپے کا سہارا تو ہم دونوں کو چاہیے تھا۔ اپنا کام بن گیا تو آم کھا پیڑ مت گن سمجھی کم بخت۔ اب مجھے سونے دے سارا راستہ لوگوں کی باتیں سن سن کر کان اور دماغ دونوں پک گئے ہیں‘‘ آپا گلو نے یہ کہہ کر چادر تان لی۔
٭٭٭٭٭
ننھے بچے کی تمام چیزوں کو سمیٹ کر صائمہ نے اسٹور کی الماری میں رکھ دیا اور اب وہ کافی حد تک سنبھل گئی تھی۔
’’امی امی منا بھائی نے بہت شرارت کی تھی؟‘‘ بچے اور صائمہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ یک دم مومنہ کھانا چھوڑ کر پوچھنے لگی ’’نہیں تو بیٹا، منا تو بہت چھوٹا تھا وہ شرارت کیسے کرسکتا تھا‘‘ صائمہ کے گلے میں نوالا اَٹک گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے اپنا بچہ یاد آگیا۔ ’’ہماری ٹیچر کہہ رہی تھی جو بچے شرارت کرتے ہیں اور بڑوں کا کہنا نہیں مانتے ان کو گندے لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ میں سمجھی ہمارے منے نے شرارت کی ہوگی‘‘ مومنہ تو یہ کہہ کر کھانا کھانے لگی مگر صائمہ کی بھوک اُچاٹ ہوگئی۔
’’پہلا بچہ ہو یا تیسرا بچہ، ہر بچہ ماں باپ کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا احساس صائمہ کو اب جاکر ہوا تھا، ورنہ اکثر اس کو اپنے بچپن میں اپنی والدہ سے شکایت رہتی تھی کہ وہ نائمہ اور شازیہ کو اس کی نسبت زیادہ چاہتی ہیں۔ شادی کے بعد دوسرے گھر کی ذمے داریوں کے بعد اس طرف وہ کبھی دھیان نہ دے سکی مگر اب تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد تو اس کو لگتا تھا جیسے اس کا کلیجہ کسی نے بھینچ رکھا ہو۔ وہ اپنی کیفیت کو الفاظ کا روپ نہیں دے سکتی تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا چاہتی تھی مگر کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا کہ اس کے دل میں شکوہ مچل جاتا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ آخر اس کے گھر میں ہیجڑے کی شکل میں اولاد کیسے ہوئی۔ کئی قسم کے خیالات اس کے دماغ میں آتے رہتے اور وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی، وہ ان چند مہینوں میں سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔
’’کچھ دن کے لیے میرے پاس رہنے کے لیے آجاؤ‘‘ صائمہ کی امی صبیحہ بیگم آج صائمہ سے ملنے آئی تھیں اور وہ صائمہ کی حالت دیکھ کر بہت افسردہ ہوگئی تھیں۔ ’’بچوں کی چھٹیاں ہیں تمہارا دل بہل جائے گا‘‘ وہ بولیں۔ ’’امی جان! اب دل کیسے بہلے گا، دل تو اس کے ساتھ‘‘ صائمہ یہ کہہ کر سسکیاں لینے لگی۔
’’وقت کے ساتھ زخم بھر جائے گا اور پھر یہ تو زندہ اولاد تھی۔ صائمہ شعیب نے نہ تو رپورٹ درج کرائی، نہ ہی اخبار میں اشتہار دیا‘‘ صبیحہ بیگم نے آج ذکر چھیڑ نے پر دریافت کیا ورنہ اب تک اس کی طبیعت کے پیش نظر کوئی اس سے اس کے بچے کے متعلق بات نہیں کرتا تھا۔ صبیحہ بیگم کی بات سن کر صائمہ چونک گئی۔ ’’میں پوچھوں گی مجھے تو ان سب باتوں کا پتا ہی نہیں‘‘ صائمہ کے دماغ میں کہیں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ یہ تو ہم لوگوں نے سوچا ہی نہیں۔ وہ پریشان ہوگئی۔ ’’نوید بھی کہہ رہا تھا کہ شعیب بھی نے ہم کو بھی غیر سمجھا ورنہ اس کی بڑی پہنچ تھی سارے اسپتال والوں کو دن میں تارے دکھادیتا۔ مل جاتا تمہارا بچہ‘‘ اب صبیحہ بیگم نے ٹھنڈی آہ بھری۔
’’اچھا‘‘ اب صائمہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
’’چلو تیاری کرلو، ساتھ ہی چل رہی ہو نا‘‘ صبیحہ بیگم نے یاد دلایا۔
’’امی جان اتوار والے دن ان کے ساتھ آؤں گی پھر پورا دن رہوں گی‘‘ صائمہ نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا تو صبیحہ بیگم کہنےلگیں ’’جیسے تمہاری مرضی تم اپنے گھر میں خوش رہو، یہی دعا ہے میری وقت بہت بڑا مرہم ہے سب ٹھیک ہوجائے گا ان شاء اللہ‘‘ ’’ان شاءاللہ‘‘ صائمہ بھی جواباً بولی۔
٭٭٭٭
’’ہائے ہائے! روز فجر میں اٹھادیتا ہے یہ معراج تو چیخ چیخ کر روتا ہے آسمان سر پر اٹھالیتا ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہےاس کو‘‘
’’آپا گلو کہتا ہے فجر کی نماز پڑھ لو۔ دیکھا نہیں میں پڑھ لیتی ہوں تو پھر کم روتا ہے‘‘ ببلی مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’لے مولوی کا بچہ ہم کو مولوی بنائے گا‘‘
’’ہاں تمہارے سدھرنے کا سامان لگتا ہے‘‘ ببلی بولی۔
’’مجھے تو بڑے بڑے نہ سدھار سکے یہ مولوی کا بچہ کیا سدھارے گا، بالشت بھر کا تو ہے تو نے اسے سر پر چڑھادیا ہے، دو لگا دیا کر کس کر تو چپ ہوجائے گا کم بخت‘‘ آپا گلو چڑ کر بولی۔
’’اس کی صورت دیکھ کر تو اس کو ہاتھ لگانے کا دل نہیں چاہتا‘‘ ببلی معراج کو دیکھتے ہوئے بولی۔
ہاں یہ تو ہے، آپا گلو نے دل میں سوچا۔ ’’آپا گلو میں کہے دیتے ہوں اگر یہ‘‘ ’’دیکھ ببلی اس چھٹانک بھر کے بچے کے لیے مجھ سے نہ الجھ‘‘ ’’میں الجھ نہیں رہی بلکہ میں جو کہہ رہی ہوں وہ غور سے سن کل نیلی کہہ رہی تھی کہ اس کا چہرہ الگ ہی ہے تم لوگوں نے کس کا بچہ اٹھایا ہے، یہ کہیں سے ہیجڑا نہیں لگتا اور تجھے اچھی طرح معلوم ہے اس کو ہم سے بیر ہے۔ پول کھل گیا تو تھانے کے درشن ہوجائیں گے‘‘
’’کم بخت آہستہ بول‘‘ آپا گلو چیخی۔
’’چیخنے سے کام نہیں چلے گا‘‘ ببلی منہ بنا کر بولی۔
’’اچھا کچھ سوچتی ہوں۔ تو ذرا دھیان سے رہ۔ معراج کو اکیلا مت چھوڑ اور اس نیلی کی بچی کو تو اِدھر پھٹکنے بھی مت دے‘‘ آپا گلو بولی۔
’’تو نے نام بھی دوسرا نہیں رکھا‘‘ ببلی نے معراج کو جھولے میں ڈالا۔ ’’نام‘‘ آپا گلو سوچنے لگی۔
’’یہ عجیب بچے ہے اس کا نام معراج ہی صحیح لگتا ہےتو ہی کچھ بتا ببلی، اس کا نام شمیم کرلیں‘‘ ’’نہ‘‘
’’نسیم‘‘ ببلی پھر بولی۔ ’’نہ‘‘ ’’پھر کیا رکھے گی آخر معراج سے تو لڑکا ہی معلوم ہوگا‘‘ ببلی چڑ گئی۔
’’اچھا ایسا کر تو نسیم کہنا اب اسے‘‘ آپا گلو سوچ کر بولی۔ ’’ٹھیک ہے آج سے پھر یہ نسیم ہے نسیم‘‘ ببلی بھی سونے کی تیاری کرنے لگی۔
٭٭٭٭
’’آپ نے ہمارے بچے کے لیے کیا نام سوچا تھا؟ صائمہ اور شعیب بچوں کو لے کر فیملی پارک میں بیٹھے تھے۔ وہاں پر بچے کھیلنے لگے تو صائمہ اسی موضوع پر آگئی جس سے شعیب ہر ممکنہ بچنے کی کوشش کرتا تھا۔
’’معراج‘‘ بے ساختہ شعیب کے منہ سے نکلا اور پارک میں ایک عورت نے آواز لگائی ’’معراج ادھر آؤ تم کوئی بات نہیں مانتے‘‘ ایک دو سالہ بچہ بے ساختہ صائمہ کی طرف بھاگتا ہوا آیا تو اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اس کو گود میں اٹھا لیا۔ صائمہ اس کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی تھی آج میرا معراج بھی اتنا ہی بڑا ہوتا تقریباً وہ دل ہی دل میں حساب لگاتے ہوئے سوچنے لگی۔ (جاری ہے)