پہلی قسط نشا وقار
ایکسکیوزمی آر یو کھنک… " …امتیاز سپر مارکیٹ میں مہینے بھر کی گروسری کی شاپنگ کرکے میں بل ادا کرنے کاؤنٹر تک پہنچنے کے لیے قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی کچھ اجنبی کچھ شناسا آواز پر میں نے چونک کر دیکھا …“…یس آئی ایم… "… میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے کھڑی کالا عبایا اور کالے ہی اسکارف کا نقاب لگائے خاتون سے پوچھا جو ہاتھوں میں کالے دستانے اور پاؤں میں کالے موزے پہنی ہوئی تھیں- دیکھنے سے صاف لگ رہا تھا کہ خاتون شرعی پردہ کرتی ہیں… “…میں شبی فاطمہ سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں بی- کام کی کلاسز میں ہم ساتھ ہوتے تھے شریف آباد والے کیمپس میں یاد آیا کچھ… ؟
”…. خاتون نے تفصیل سے اپنا تعارف کرایا اور میں نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی ٹرالی آگے بڑھائی …“…کیا ہوا پہچانا نہیں …”…میری حیرت کو اجنبیت سمجھتے ہوئے وہ ایک دم سے فارمل ہوگئی… “…ارے نہیں یار پہچان لیا… ”…میرے اتنا کہنے پر اس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے لگالیا.."…بس تمھاری ظاہری حالت کی وجہ سے تمھیں پہچاننے میں مجھے تھوڑی دقت ہوئی… "…میں چاہ کر بھی اپنی حیرت اس سے چھپا نہ پائی…"… جسے اس نے کمال مہارت سے نظر انداز کر دیا -اس دوران ہم دونوں اپنے بل ادا کرکے سپر مارکیٹ کے باہر آکر کھڑے ہوگئے- اتنے میں علی جو گاڑی میں بچوں کو لے کر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے مجھے دیکھ کر گاڑی میرے نزدیک لے آئے…“…علی ان سے ملیں یہ میری کوچنگ فرینڈ شبی فاطمہ ہیں اور فاطمہ یہ میرے ہسبینڈ علی مرتضیٰ ہیں…"… میں نے علی اور فاطمہ کا تعارف کرایا رسمی سی علیک سلیک کے بعد فاطمہ گاڑی میں موجود میرے بچوں کی طرف اشتیاق سے دیکھنے لگی… “…یہ تمھارے بچے ہیں کھنک… ؟”…جی جناب الحمدللہ چلو بچوں خالہ سے شیک ہینڈ کرو ماشاء اللہ سے اللہ نے مجھے چار بچوں سے نوازا ہے بڑے دونوں اپنی دادی کے پاس ہیں چھوٹوں کو لے کر ہم لوگ شاپنگ کے لیےآگئے…"… میں نے بچوں کا تعارف کراتے ہوئے فاطمہ کو جواب دیا اس دوران علی ٹرالی کا سارا سامان گاڑی میں منتقل کرچکے تھے -اور خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور رہے تھے کیوں کہ پیچھے سے آنے والی گاڑیاں مستقل ہارن دے رہی تھی ایک تو اتوار اوپر سے مہینے کی شروع کی تاریخیں جس کی وجہ سے سپر مارکیٹ آنے والوں کا رش اپنے عروج پر تھا… “…یہ میرا موبائل نمبر ہے مجھ سے رابطہ ضرور کرنا…"… فاطمہ نے مجھے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر جلدی سے امتیاز کے اداشدہ بل پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر مجھے تھمایا اور تیزی سے پیچھے ہٹ گئی تاکہ علی گاڑی آگے بڑھالیں. کیوں کہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کے ہارن مستقل بج رہے تھے -گاڑی تھوڑی سی آگے بڑھی تو میں نے بیک مرر سے دیکھا کہ سفید کلر کی نیو ماڈل کی کرولا میں ایک آدمی اس کی ٹرالی کا سامان رکھ رہا تھا -حلیے سے وہ ادھیڑ عمر کا شخص ڈرائیور لگ رہا تھا جب تک وہ میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی میں تب تک بیک مرر سے اسے دیکھتی رہی اس دوران وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اس میں بیٹھ چکی تھی اس کے ظاہری اور مالی حالت کے علاوہ اس کا بات کرنے کا انداز اور اس کا لب و لہجہ اس فاطمہ سے یکسر مختلف تھے جسے میں جانتی تھی …
٭٭٭٭٭
"…مما دیکھے بھائی جان مجھے ٹیبلیٹ نہیں دے رہے کب سے اکیلے اکیلے گیم کھیل رہے ہیں اب میری باری ہے مجھے دلوائیے بھائی جان سے ٹیبلیٹ …"…میری سب سے چھوٹی بیٹی مناہل نے روتے ہوئے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا تو میں جو ابھی تک فاطمہ کے بارے میں سوچے جارہی تھی اپنی سوچوں سے نکل کر سب سے پہلے اس پیپر کو اپنے پرس کی پاکٹ میں سنھبال کر رکھا …“…یحییٰ نہیں تنگ کرو چھوٹی بہن کو اب اس کی ٹرن ہے اس کو دو ٹیبلیٹ …”…میں نے دونوں بچوں میں معاملہ سیٹ کیا اور علی کی طرف متوجہ ہوگئی- جو حسب عادت کراچی کے بے ہنگم ٹریفک اور غیر ذمے داری سے ڈرائیونگ کرتے لوگوں کی وجہ سے غصّے سے لال پیلے ہورہے تھے…“…کراچی میں اگر آپ کو ڈرائیونگ کرنی ہے تو آپ کو اپنی گاڑی احتیاط سے چلانے کے ساتھ ساتھ آس پاس چلتی ہوئی گاڑیوں کو بھی بچانا ہے سارے جہاں میں لوگ ڈرائیونگ کے دوران اپنی جان کی فکر کرتے ہیں اور یہاں اپنے علاوہ آس پاس کے لوگوں کی جان کی فکربھی آپ کو ہی کرنا پڑتی ہے… ”…علی حسب عادت جب تک گھر نہیں آگیا مستقل بڑبڑاتے رہے باپ کو غصّے میں دیکھ کر بچے بھی دبک کر بیٹھے رہے اور میرے دماغ سے بھی فاطمہ وقتی طور پر محو ہوگئی …………
اگلی صبح بچوں کے اسکول اور علی کے آفس جانے کے بعد میں حسب عادت اپنے بیڈروم میں آگئی- صبح نو سے دس بجے کی ٹائمنگ میں تھوڑی دیر سستاتی تھی -اس کے بعد سارا دن گھر ,بچے, علی, ساس سسر اور دیگر گھریلوں کاموں میں اس قدر مصروف ہوتی تھی کہ اپنا ہوش نہیں رہتا تھا-لیٹے لیٹے اچانک کچھ یاد آنے پر میں نے جلدی سے اپنے پرس میں سے وہ پیپر نکالا جس میں فاطمہ نے مجھے اپنا نمبر لکھ کر دیا تھا- میں نے جلدی سے اس کا نمبر ڈائل کیا لیکن دوسری جانب بیل جانے کے باوجود کال ریسیو نہیں کی گئی میں نے کئی بار کال ملائی مگر کال ریسیو نہیں کی گئی تھک ہار کر میں نے مسیج میں اپنا تعارف لکھ کر سینڈ کردیا مجھے لگا اس نے شاید انجان نمبر دیکھ کر کال ریسیو نہیں کی۔ سیل فون سائیڈ پر رکھ کر میں ماضی میں کھو سی گئ………
٭٭٭٭٭
سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں اس وقت سر طلحہ گیلانی اکاؤنٹینگ کی کلاس لے رہے تھے .کلاس کے سب اسٹوڈنٹس سوال حل کرنے میں مصروف تھے .جن اسٹوڈنٹس نے آئی کام کیا ہوا تھا انھوں نے تو آسانی سے بیلنس شیٹ کو بیلنس کردیا تھا مگر انٹر سائنس کے اسٹوڈنٹس کے لئے بیلنس شیٹ کا بیلنس لانا مسلۂ کشمیر ہوگیا تھا جو حل ہوکر نہیں دے رہ تھا میں اور میری کالج فرینڈ زرتاشہ چوں کہ آئی کام والے تھے سو ریلکس بیٹھے سائنس والوں کو پریشان پریشان دیکھ رہے تھے…“…او مائی گاڈ بیلنس شیٹ کے بیلنس کو مجھ سے اللہ جانے کیا دشمنی ہے مجال ہے جو کبھی میری بیلنس شیٹ بیلنس ہوجائے …"…پیچھے سے آتی آواز پر سر طلحہ گیلانی سمیت پوری کلاس نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت سی لڑکی جو انتہائی ماڈرن ڈریسنگ کی ہوئی تھی سر پکڑے اونچی آواز میں خود کلامی کر رہی تھی …“…واٹ یور نیم… ”…سر نے اس لڑکی کو مخاطب کیا جو آس پاس کے ماحول سے بے نیاز بیلنس شیٹ کے بیلنس کو لانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھی سر کے پکارنے پر بھی جب اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو مجبوراً سر کو اس کی سیٹ تک جانا پڑا …“…واٹ یور نیم پلیز… ”… سر نے قدرے سخت لہجے میں اسے مخاطب کیا سر کی آواز اور ان کو اپنی سیٹ کے پاس دیکھ کر وہ ایک دم بوکھلا کر کھڑی ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی گود میں رکھا کیلکولیٹر اچھل کر نیچے گر پڑا… “…مائی نیم از شبی فاطمہ …”… اس نے اپنا نام بتایا اور اپنی نوٹ بک سر طلحہ گیلانی کے سامنے رکھتے ہوئے روہانسے لہجے میں بیلنس شیٹ کے بیلنس نہ آنے کی شکایات کچھ اس طرح سے کرنے لگی جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنی ماں سے دوسرے بچے کے تنگ کرنے پر اس کی شکایات کررہا ہو گویا- اتنے میں کلاس آف ہونے کی بیل ہوئی… “…آپ فکر مت کرے بہت جلدی آپ کو بیلنس شیٹ پر مہارت حاصل ہوجائے گی… ”…سر طلحہ گیلانی نے فاطمہ کو پروفیشنل انداز میں تسلی دی(یہ الگ بات ہے کہ بی کام کےدو سالوں میں مجال ہے جو کبھی اس کی بیلنس شیٹ بیلنس ہوئی ہو ) اور وہاں موجود آئی کام والے اسٹوڈنٹ کو شبی فاطمہ کی مدد کرنے کے لیے کہا اور کلاس سے اسٹاف روم کی طرف روانہ ہوگئے مجھے فاطمہ پہلی ہی نظر میں اچھی لگی اس کی معصومیت اور بے ساختگی مجھے بہت بھائی تھی جبکہ کلاس کے لڑکوں کو اس کی خوبصورتی اور بولڈ ڈریسنگ اور بولڈ اسپیکنگ نے اس کی طرف متوجہ کیا…اور اس کی بولڈ اسپیکنگ نے تو ایک بار مجھے پوری کلاس میں شرم سے پانی پانی کردیا تھا “کھنک تمھاری فش(fish )پریگننٹ ہے …؟”فاطمہ نے اچانک پوری کلاس کے سامنے میرے ہینڈ بیگ میں لٹکے ہوئے کی چین (key chain) کو ہاتھ میں لے کر شرارت سے کہا تو میں نے اپنا سر پکڑ لیا اففف یہ فاطمہ بھی نا … کیونکہ اس کی چین (Key chain)کو میں نے ایک فش ایکوریم سمجھ کر خریدا تھا جو ایک ڈولفن کی شکل کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر ایک چھوٹی سی فش تیر رہی تھی لیکن فاطمہ کی بات سن کر میں پوری کلاس کے سامنے شرم سے سرخ پڑگئی تھی …………
٭٭٭٭٭٭
کھنک بیٹا کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے تمھاری… "…امی کے پکارنے پر میں چونک کر ماضی سے حال میں آئی “…او سوری امی گیارہ بج گئے میری وجہ سے آپ لوگوں کا ناشتا لیٹ ہوگیا …”… امی کے پکارنے پر میں نے وال کلاک کو دیکھا جو گیارہ بجارہی تھی جبکہ امی , ابو گیارہ بجے سے پہلے پہلے ناشتا کرلیتے تھے اپنی غیر ذمے داری پر میں رج کر شرمندہ ہوئی اور کچن کی طرف دوڑ لگادی امی, ابو کو ناشتا دے کر میں جلدی جلدی گھر کے کام نمٹانے لگی سارا دن اتنا مصروف رہی ، موبائل کی طرف دھیان ہی نہیں گیا رات کو سونے سے پہلے الارم سیٹ کرنے کے لیے موبائل اٹھایا تو اس میں دس سے بارہ مس کالیں شبی فاطمہ کی آئی ہوئی تھی جنہوں نے ایک بار پھر مجھے اسے سوچنے پر مجبور کردیا کہاں تو بیڈ پر آنے کے بعد سیکنڈوں میں نیند مجھ پر مہربان ہوجاتی تھی اور اب یہ حال تھا کے دماغ بار بار مجھے ماضی میں دھکیل رہا تھا …
٭٭٭٭
یہ کس کا موبائل بار بار رنگ کر رہا ہے ہزار بار آپ لوگوں کو سمجھایا ہے کلاس شروع ہونے سے پہلے موبائل فون آف کردیا کریں …”…سر طلحہ گیلانی نے جھنجھلا کر پوری کلاس کو گھورتے ہوئے کہا اس سے پہلے کے کوئی مخبری کرتا کے کس کا موبائل بار بار بج رہا ہے فاطمہ نے بوکھلاہٹ میں موبائل آف کرنے کی بجائے کال ریسیو کرلی اس کی اس حرکت پر پوری کلاس زعفران زار بن گئی - سر طلحہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اسے کال پر بات کرنے کا اشارہ کیا اور خود پلٹ کر وائٹ بورڈ کے پاس آگئے… “…کیا بات ہے کیوں بار بار کال کر رہی ہیں میں نے ٹیکسٹ کیا تو تھا آپ کو'' اوکے'' … ”… کلاس کے تقریباً تمام اسٹوڈنٹس کی مسکراتی نظروں سے خائف ہو کر اس نے جلدی سے فون آف کرکے اپنے بیگ میں ڈالا …‘“… مجھے تو میرے گھر والے لڑکا سمجھتے ہیں پہلے چھوٹی بہن کا مسیج آیا آپی آئی نو(i know ) کے اس وقت آپ کی کلاس ہورہی ہے کلاس آف ہونے کے بعد نیچے مناما سے میرے لئے سینڈوچ لیتی آئیےگا آج مما نے کھانے میں آلو بیگن بناۓ ہیں اور پاپا اوپر آچکے ہیں واپس نیچے نہیں جائیں گےمیں نے دوران کلاس اوکے کا مسیج کرکے غلطی کردی مما سمجھی کے کلاس نہیں ہورہی شاید انھوں نے بار بار کال کرنا شروع کردی …”’…جیسے ہی کلاس آف ہوئی تو کسی کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی فاطمہ نے جھنجھلا کر کہا …‘“…خیریت آنٹی کیوں بار بار کال کر رہی تھی… ”…اس کو جھنجھلاہٹ سے باہر نکالنے کے لئے میں نے اسے ہی اس سے پوچھ لیا …“…پہلے تو مما کو یہ تشویش ہوئی کہ میں کلاس چھوڑ کر کہیں شاہ رخ کے(شاہ رخ فاطمہ کا خالہ زاد اور اس کا منگیتر تھا اکثر اسے لینے کے لئے کوچنگ آتا تھا اس نے پوری کلاس اور ٹیچرز سے اسے متعارف کرایا ہوا تھا ) ساتھ ڈیٹ پر تو نہیں چلی گئی اسکے بعد انہیں خیال آیا کہ آلو بیگن تو گھر میں کوئی بھی نہیں کھاتا سواۓ مما کے اس لیے انھوں نے کہا کہ کلاس ختم ہونے کے بعد نیچے(وہ لوگ کیونکہ فلیٹ میں چوتھی منزل پر رہتے تھے اس لئے اپارٹمنٹ کے نیچے بنے ہوئے بازار کو نیچے کہتے تھے ) دہلی سے نہاری روٹی لیتی آنا… بہت آسان ہیں نا جیسے دہلی سے نہاری روٹی لینا اتنی لمبی لائن ہوتی ہے وہاں… ”…فاطمہ نے رونی صورت بنا کر جواب دیا فاطمہ کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ صرف فاطمہ ہی نہیں اس کی پوری فیملی …'دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ '…جیسی ہے… “…
٭٭٭٭
مما پشی آرہی ہے… ”…میری سب سے چھوٹی بیٹی مناہل مجھے ماضی سے کھیینچ کر حال میں لے آئی مناہل کو دوبارہ سلاتے سلاتے میں خود بھی نیند کی وادیوں میں کھوگئ ……
اگلے دن دوپہر ایک بجے اس کی کال آئی حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے سیل فون لاؤنج میں ٹی وی ٹرالی کے اوپر ہی رکھ دیا تھا میں نے جلدی سے کال ریسیو کی …"…اسلام علیکم کسی ہو فاطمہ میں نے کل تمھیں کال کی تھی شاید تم کل بزی تھیں… "…میں نے کال ریسیوکر کے فاطمہ سے بات کی اور کچن میں دم پر رکھے چاولوں کا چولہا بند کر کے اپنےبیڈ روم میں آکر بیڈ پر ریلکس ہو کر بیٹھ گئی… “…وعلیکم السلام میں بالکل ٹھیک اور تم سناؤ بزی تو نہیں ہو …”…فاطمہ نے انتہائی شائستہ لہجے میں روک روک کر مجھ سے کہا اس کا بدلاؤ مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا کہاں وہ ٹام بوائے ٹائپ کی لڑکی کہا ں یہ …“…نہیں, نہیں بزی نہیں ہوں ابھی ابھی فری ہوئی ہوں اب بچوں کے اسکول سے آنے تک فری ہوں اور تم سناؤ کتنے بچے ہیں تمھارے اور کیسی گز رہی ہے زندگی …”…میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا درحقیقت میں جاننا چاہ رہی تھی کے آخر ایسا کیا ہوا ہے جو فاطمہ جیسی ماڈرن لڑکی سر سے پاؤں تک یکسر بدل گئی …“…اگر تم کل فری ہو تو میرے گھر آجا ؤ مل کر بیٹھے گے پرانی یادوں کو تازہ کریں گے اور کوچنگ فرینڈز میں سے کس کس سے کنٹیکٹ میں ہو تم…؟… "
فاطمہ نے میری بات کو نظر انداز کر کے مجھے اپنے گھر مدعو کیا… “…تم اپنا ایڈریس مجھے سینڈ کرو کل سن ڈے ہے- میں لگاتی ہوں ا ن شا ء اللہ تمھارے گھر کا چکر …”…میں نے ہامی بھرتے ہوئے کہا(اتوار کا دن میرے ساس سسر میری اکلوتی نند کے ساتھ گزارتے تھے اس لیے میں اپنے سارے باہر کے کام اتوار کو ہی نمٹاتی تھی )… “… کافی دیر تک ہم کوچنگ سینٹر وہاں کی فرینڈز اور ٹیچرز کے بارے باتیں کرتے رہے -میں نے نوٹس کیا میں جب بھی اس کی فیملی کے بارے میں بات کرتی وہ کمال مہارت سے بات بدل دیتی جب اس نے ایک دو بار ایسا کیا تو میں نے بھی دوبارہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا میں نے سوچا جب آمنے سامنے بیٹھیں گے تو ہر بات کھل کر سامنے آ ہی جائے گی باتوں کے دوران پتا ہی نہیں چلا وقت کا، ڈور بیل کی آواز پر میں نے جلدی سے فاطمہ کو اللہ حافظ کہا…"…ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں تم اپنا ایڈریس سینڈ کرو مجھے میرے بچے اسکول سے آگئے ہیں اللہ حافظ… ”…تھوڑی ہی دیر میں فاطمہ کا مسیج آگیا جس میں اس نے اپنا ایڈریس اور کل آنے کی تاکید کی تھی -اگلے دن علی نے مجھے
ظہر کی نماز کے بعد فاطمہ کے گھر ڈراپ کیا اور بچوں کو لے کر سی ویو چلے گئے فاطمہ کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر سی ویو تھا فاطمہ کے گھر کی ڈور بیل دینے پر وہاں بیٹھے چوکیدار نے مجھ سے پوچھا …"…آپ کھنک بی بی ہیں… ؟ …فاطمہ بی بی کی دوست…؟ '’ …چوکیدار کے استفسار پر میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور مجھے اندر جانے کا کہہ کر خود انٹر کام پر میرے آنے کی اطلاع دینے لگا فاطمہ کا گھر باہر سے جتنا حسین تھا اندر سے اس سے کہیں زیادہ حسین تھا -گھر کے داخلی دروازے سے اندر جانے کے لئے سفید پتھروں سے راستہ بنایا ہوا تھا جو اندرونی دراوزے کے باہر ایک چبوترے کی سیڑھیوں تک جارہا تھا جبکہ سیڑھیاں اور چبوترہ براؤن پتھر کا بنا ہوا تھا اور دیکھنے میں ایسا گمان ہوتا تھا جسے درخت کی لکڑی کاٹ کر بنایا گیا ہے جبکہ دونوں اطراف میں خوبصورت لان تھےمیں کیونکہ خود پودوں کی بہت شیدائی تھی اس لئے لان میں لگے ہوئے طرح طرح کے پھولوں کی خوشبوں مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی- کچھ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا… "…السلام علیکم…"…… فاطمہ نے میرے نزدیک آکر مجھے سلام کیا اور آگے بڑھ کر گلے لگالیا… '‘…اکیلے آئی ہو کھنک بچوں کو نہیں لائی…"… مجھے اکیلا دیکھ کر اس نے پوچھا اور اندرونی دروازہ کھول کر مجھے لے کر اندر داخل ہوگئی-اندر انتہائی قیمتی اور خوبصورت ساز و سامان سے آراستہ لاؤنج چیخ چیخ کر اس گھر کے مکینوں کے ذوق اور اعلیٰ معیار کی ترجمانی کر رہاتھا- یہ سب چیزیں میری حیرانی میں مزید اضافہ کر رہی تھی- جس لڑکی کا بیلنس شیٹ پر کبھی بیلنس نہیں آیا جس کی زندگی ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہی آج اس کی زندگی اتنی بیلنس کسے ہوگئی تھی- اس کے بات کرنے میں اتنا سلیقہ اس کے پہناوے میں اس کے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے میں اتنا توازن ان سب چیزوں نے مجھے بہت زیادہ متجسس کردیا تھا…
٭٭٭٭
کھنک کھنک, کھنک… ”…فاطمہ کے پکارنے پر میں اپنی سوچوں سے باہر آئی اور اس کی طرف متوجہ ہوگئی… ’‘…کہاں کھو گئی کھنک کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے…" …فاطمہ نے مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر کہا اور لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی …“…فاطمہ ساری باتیں چھوڑو مجھے صرف اتنا بتاؤ تم میں اتنا بڑا چینج کیسے آگیا تم ایسی تو نہ تھی…"…بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور میں نے فاطمہ سے پوچھ ہی لیا …“…بس یار یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں جسے چاہے عرش سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دے اور جسے چاہے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھادے… ”…فاطمہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے مجھے میری بات کا جواب دیا…
"یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے …."
فاطمہ نے کلام پڑھتے ہوئے مجھے دیکھا اور کھانے کے لوازمات سے بھری ٹرالی میرے نزدیک کرکے میرے لیے کھانے کی چیزیں پلیٹ میں نکالنے لگی… “…یار بس زیادہ مت نکالو آج سن ڈے تھا اس لیے دیر سے ناشتا کیا ہے بالکل بھی بھوک نہیں ہے اور ویسے بھی سن ڈے کو علی ہمیں باہر ڈنر کرواتے ہیں اس لیے پیٹ میں ڈنر کے لیے بھی تو گنجائش رکھنی ہے . …”…یہ کہتے ہوئے میں نے ایک چکن چیز بال اور ہاف گلاس کولڈرنک لی علی اور بچوں کے ذکر پر مجھے بے ساختہ فاطمہ کی فیملی کا خیال آیا …“…اور شاہ رخ خان بھائی کسے ہیں؟ اور کتنے بچے ہیں تمھارے …؟”…میں نے جان بوجھ کر شاہ رخ کو شاہ رخ خان کہا کوچنگ میں ہم سب فرینڈز فاطمہ کے منگیتر کو شاہ رخ خان کہے کر پکارتے تو فاطمہ چڑ جاتی تھی اور باقاعدہ چیئر پر کھڑے ہوکر غصے سے سرخ چہرہ لیے تپ کر کہتی… “…خبردار جو کسی نے شاہ رخ کو شاہ رخ خان کہا میرا شاہ رخ تو کئی گنا زیادہ ہینڈسم ہے شاہ رخ خان سے… ”…اور ہم سب دوستیں اس کے دیوانہ پن پر ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ جاتے تھے مجھے اچھی طرح سے یاد ہے …بی -کام کے فائنل ایگزمز کے بعد میں اور فاطمہ انگلش لینگویج کی پروفیشنل کلاسز لے رہے تھے- ان دنوں فاطمہ بہت زیادہ اپ سیٹ رہا کرتی تھی بیٹھے بیٹھے رونے لگتی تھی اس کی بات شاہ رخ سے شروع ہو کر شاہ رخ پر ہی ختم ہوتی تھی جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ شاہ رخ ابھی سی- اے کر رہا یے اور ساتھ میں جاب بھی کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ فاطمہ کو پہلے جیسا ٹائم نہیں دے پارہا یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بہت زیادہ ٹچی ہوگئی ہے اور بات بات پر رونے لگتی ہے…… ایک بار ہم لوگ سینٹر سے باہر کھڑے سڑک پر اپنی مطلوبہ بس کا انتظار کر رہے تھے- کہ اسی دوران ایک جمعدارنی روڈ پر جھاڑوں لگاتی ہوئی ہمارے پاس سے گزری تو بے ساختہ فاطمہ کے الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے… “…کھنک اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ اس جمعدارنی کی جگہ تم یہاں جھاڑوں لگاؤ تو تمھیں اتنے پیسے ملے گے تو میں بغیر کسی توقف کے جھاڑوں لگانے لگوں گی …”…فاطمہ کی بات پر میں نے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ فاطمہ کا ایک اچھی کھاتی پیتی فیملی سے تعلق تھا پھر اس طرح کی باتیں چہ معنی دارد اتنے میں ہمارے روٹ کی بس آگئی اور ہم اس میں بیٹھ گئے بس میں بیٹھنے کے بعد میرے پوچھنے پر فاطمہ نے بتایا کے شاہ رخ کے مالی حالات بہت خراب ہیں جس کی وجہ سے اسٹڈی کے دوران اسے دو دو نوکریاں کرنا پڑرہی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سی اے پاس نہیں کرپارہا اور ہماری شادی اس کے سی -اے کرنے کے بعد ہوگی… “…میں نے صرف شاہ رخ کے لیے ٹیوشن پڑھانا شروع کیاہے تاکہ اس کی فائننشلی ہیلپ کرسکوں ہر مہینے ٹیوشن سے کمائی ہوئی ساری رقم میں اسے دے دیتی ہوں میں اس سے زیادہ اس کے لئے کچھ نہیں کر پارہی میرے شاہ رخ کو میری ضرورت ہے… ”…یہ کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی اس کے اس طرح رونے پر آس پاس کے لوگ ہماری طرف متوجہ ہوگئے……وہ ایسی ہی تھی اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر اسے اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ کیا کہے گے اس کو مستقل روتا دیکھ کر میں نے سائیڈ پر بس رکوائی اور رکشہ کر کےپہلے اسے اس کے گھر ڈراپ کیا پھر اپنے گھر آکر کافی دیر تک امی سے اس کے بارے میں باتیں کرتی رہی میری ساری باتیں سننے کے بعد امی نے صرف اتنا کہا …“… مرد کے پاس عورت کو دینے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اس کے پاس غیرت اور عزت ضرور ہونی چاہیے عورت کو دینے کے لیے محبت کے بغیر گزارا ہوجاتا ہے لیکن بے عزتی اور بے غیرت مرد کے ساتھ گزارا کرنا انتہائی مشکل ہے تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ شاہ رخ ایک بے غیرت مرد ہے اور بے غیرت مرد سے وفا کی امید رکھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں اللہ اس بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اسے ہدایت دے آمین… ”…یہ کہے کر امی عصر کی نماز پڑھنے چلی گئیں -اور میں فاطمہ کو لے کر مزید پریشان ہوگئی……
٭٭٭٭
"کھنک ان سے ملو یہ میری بیٹی زینب ہیں …"…فاطمہ کی آواز پر میں نے ماضی کی کھڑکی کو بند کیا اور حال میں واپس آگئی جہاں فاطمہ دس بارہ سال کی گہری سانولی رنگت لیکن پرکششش نقوش والی بچی سے مجھے ملوارہی تھی -مجھے محسوس ہوا جسے وہ شاہ رخ کے بارے میں بات کرنےسے گریز کر رہی ہے یہ چیز میرے لئے کافی حیران کن تھی دوسری طرف زینب کو دیکھ کر میری حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ شاہ رخ اور فاطمہ دونوں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے شاہ رخ کیونکہ فاطمہ کا خالہ زاد تھا اور فاطمہ کی چھوٹی بہن کی شادی پر میں نے اس کے پورے خاندان کو دیکھا تھا سب ہی پریوں کے دیس کے باسی لگ رپے تھے تو پھر یہ زینب کس پر چلی گئی …“(باقی آئندہ)