افشاں اقبال کراچی
وہ ٹکٹکی باندھ کر کھانے کی میز پر سلیقے سے رکھے برتنوں کو دیکھ رہی تھی، پھر اچانک سے چِلانے لگی۔
”ہانیہ ہانیہ ادھر آؤ میرے پاس، میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پراٹھا کھلاتی ہوں، پھر اسکول چھوڑنے بھی جاؤں گی “
”ہانیہ !۔ہانیہ۔۔۔۔۔ !ً"
"تم جواب کیوں نہیں دیتیں، تم تو مجھ سے کبھی نہیں روٹھتی تھیں پھر اب کیوں مجھ سے ناراض ہوگئ ہو۔ “
"کیوں۔.؟۔۔۔۔۔۔۔۔"
ربیعہ نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا۔
بی جی ربیعہ کی دل جوئی کرنے بھاگتی ہوئی آئیں ۔
”بٹیا آپ پہلے ناشتا کرلیں، پھر ہانیہ کو کھلا دیں، آپ نے رات سے کچھ نہیں کھایا، اس لیے ہانیہ بےبی آپ سے بات نہیں کررہیں، آپ کھالیں گی تو وہ آپ کے پاس آجائیں گی"
”سچ کہہ رہی ہیں آپ بی جی“
”جی بٹیا! “
ربیعہ جلدی جلدی بڑے بڑے نوالے منہ میں ڈالنے لگی ۔
کھانے کے فوراً بعد بی جی نے اسے بہلا پھسلا کر نیند کی دوا کھلا دی ،جس کے زیر اثر وہ گہری نیند سو گئی ۔
”بی جی آپ ربیعہ باجی کو جاگنے کیوں نہیں دیتیں، ابھی تو وہ اٹھی تھیں اور ابھی دوا دے کر آپ نے انہیں پھر سے سُلا دیا۔ “
"پگلی! جاگتی ہے تو سچ کا سامنا نہیں کرپاتی، اپنے آپ سے ڈر جاتی ہے ، بیتے وقت کو یاد کر کے پچھتاوے کی آگ میں جھلسنے لگتی ہے "
بی جی کی بیٹی نے بی جی کی باتیں سُن کر اپنا سر پکڑ لیا ۔
”کیسا پچھتاوا کیسی آگ میں سمجھی نہیں “
”اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے روندنے کا پچھتاوا، اپنے ہاتھوں سے اپنے لہو کو داغ دار کرنے کا پچھتاوا “
”اللہ یہ کیا کہہ رہی ہیں، بی جی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا“
پھر بی جی کچھ سوچنے لگیں
ان کی پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے
٭٭٭٭٭٭
”ماما ماما آج آپ مجھے اسکول چھوڑنے جائیں گی نا ؟“
ہانیہ کی آنکھوں میں جگنو چمک رہے تھے
”میری ساڑھی چھوڑو! ہانیہ ساری پریس خراب کردی اور یہ کیا بچپنا ہے کہ میں آپ کو اسکول چھوڑنے جاؤں، ڈرائیور انکل ہیں نا وہ آپ کو اسکول چھوڑ آئیں گے۔“
"نہیں وہ گندے ہیں میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی“
”آپ کو تو ہر کوئی گندا لگتا ہے مجھے لگتا ہے مسئلہ خود آپ کے ساتھ ہے
بی جی مجھے دیر ہورہی آج دوستوں کے ساتھ میرا ناشتے کا پروگرام ہے، آپ ڈرائیور کے ساتھ ہانیہ کو اسکول بھیج دینا”
"جی بٹیا “
ربیعہ بی جی کو حکم صادر کر کے باہر نکل گئی یہ دیکھے بغیر کہ اس کے جواب سے دس سال کی ہانیہ کا دل کرچی کرچی ہوگیا ۔
”ہانیہ بے بی جلدی سے اپنا ناشتا ختم کرو ،اسکول کو دیر ہورہی ہے “
بی جی نے ہانیہ کو بہلانے کی کوشش کی
”مجھے ناشتا نہیں کرنا “
وہ بغیر کچھ کھائے ہی اسکول چلی گئی
”ہانیہ بے بی آپ پچھلی سیٹ پر کیوں بیٹھی ہو؟ آپ میرے پاس آگے آجاؤ میں آپ کو بہت سارے چاکلیٹ دوں گا “
”نہیں مجھے چاکلیٹ نہیں چاہیے ڈرائیور انکل “
”چاکلیٹ تو آپ کو کھانا پڑےگا اتنے پیار سے جو ، میں آپ کے لیے لایا ہوں “
ڈرائیور نے ہانیہ کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھا
"اب جلدی سے کھا لو ہانیہ بے بی “
ہانیہ ڈر کر چاکلیٹ کھانے لگی ۔
”ہو ہو چاکلیٹ تو آپ کے ہونٹوں پر لگ گئی،آپ کے ہونٹ تو گندے ہوگئے، اب ایسے کیسے اسکول جاؤگی، لڑکیاں مذاق اڑائیں گی اور کیا پتا ٹیچر سے آپ کو ماربھی پڑے “
ہانیہ رونے لگی
”رونا نہیں، رونا نہیں ۔۔۔
میں ابھی صاف کر دیتا ہوں “
پھر چاکلیٹ صاف کرنے کے بہانے وہ اپنی تسکین بجھانے لگا
اسکول میں بھی ہانیہ سہمی سہمی رہی
گھر آکر بھی وہ بی جی سے بات کیے بنا ہی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"شام گئے ربیعہ کی گھر واپسی ہوئی۔
”بی جی ہانیہ نے کھانا کھا لیا ہے “.
"نہیں ربیعہ بیٹیا! مجھے ہانیہ بے بی کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی وہ جب سے اسکول سے آئی ہے گم صم سی ہے نہ دوپہر کا کھانا کھایا نا شام کو ٹیوٹر کے پاس پڑھا “.....
بی جی نے تشویش بھرے لہجے میں بتایا
”اچھا! میں دیکھتی ہوں“
لیکن اسی وقت موبائل پرکسی کا فون آگیا اور ربیعہ فون پر بات کرنے میں اس قدر مصروف ہوئی کہ گھر میں موجود سہمے ہوئے، ڈرے ہوئے وجود کو بھول ہی گئی
”چلو ہانیہ جلدی سے اٹھ جاؤ اسکول کو دیر ہورہی ہے “
”بی جی مجھے اسکول نہیں جانا“
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا
”لیکن کیوں ۔۔۔۔؟“
”بس میرا اس کمرے سے باہر نکلنے کا دل نہیں کرتا مجھے لگتا ہے میں باہر نکلی تو مجھ پر لوگ حملہ کر دیں گے اور مجھے کوئی بچانے نہیں آئے گا وہ لوگ مجھے چیڑ پھاڑ دیں گے “
ہانیہ کی باتوں سے بی جی ڈر گئیں
”کون لوگ ؟“
”مجھے بتاؤ ،میری بیٹی کو میلی نگاہ سے دیکھنے والو کی میں آنکھیں نوچ لوں گی انہیں جہنم واصل کردوں گی “
”سچی بی جی “
”بالکل سچی! اب اسکول چلیں “
”جی چلیں“
ہانیہ بی جی کی بات سن کر مسرور ہوگئ
”بی جی آپ مجھے روز اسکول چھوڑنے آئیں گی ؟"
”اگر میں روز اسکول چھوڑنے آئی تو گھر کون سنبھالے گا آپ کی ماما تو گھر پر نہیں ہوتی نا ،کسی نے گھر لوٹ لیا تو!!! “
بی جی نے اپنا موقف بیان کیا
”اور کسی نے مجھے ہی لوٹ لیا تو ؟“
"اللہ نہ کرے ہانیہ بے بی ! یہ کیسی دل دہلانے والی باتیں کرتی ہیں“
”میں آپ کو روز اسکول چھوڑنے اور لینے آؤں گی “
بی جی کو دیکھتے ہی ڈرائیور کے چہرے کا رنگ اڑ گیا لیکن وہ ہانیہ کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو میں اپنے شکار کو کبھی
نہیں چھوڑتا
بی جی کو ربیعہ نے سختی سے اسکول جانے سے منع کردیا
”آپ چھوڑنا لینا کریں گی تو گھر کو کون سنبھالے گا بی جی! آپ کی جو ذمے داریاں ہیں آپ صرف وہ پوری کریں “
واپسی میں بی جی کو نہ پاکر کر ہانیہ کانپنے لگی
”ارے ارے ہانیہ بے بی مجھ سے ڈرو مت میں تو آپ کے لیے آج بھی چاکلیٹ لایا ہوں “
ڈرائیور نے جلدی سے ہانیہ کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا
ربیعہ کو اپنی پارٹیز سے ہی فرصت نہیں تھی اور کوئی اس کی بیٹی کو پارٹی پیک سمجھ کر مزے اڑا رہا تھا
ہانیہ اسکول سے گھر آئی تو اس کا چہرہ سُوجا ہوا تھا
”ربیعہ ہانیہ کا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوگئی ہانیہ تم کہیں سے گر گئی ہو یا کسی سے لڑائی کی ہے. تم اپنا بالکل دھیان نہیں رکھتیں جانتی ہو کل میں تمہیں اپنی فرینڈز کے گھر پارٹی میں لے جانے والی ہوں میں نے اپنی فرینڈز سے تمہاری اتنی تعریف کی ہے کہ وہ سب تم سے ملنے کے لیے بےقرار ہو رہی ہیں ۔
"بی جی اس کے چہرے پر برف کی سکائی کریں کل تک مجھے اسکا چہرہ صاف چاہیے“
ربیعہ نے نہ تو ہانیہ سے کھانے کا پوچھا نہ ہی اس کے چہرے کی سوجن کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور پارلر چلی گئ
ہانیہ کو اپنا آپ تنہا لگنے لگا
وہ اپنی ذات میں قید ہونے لگی اسے تنہائی سے محبت ہونے لگی تھی اپنوں پر سے اعتبار اُٹھ گیا تو اس نے سب سے دوری اختیار کر لی ۔ ننھے سے ذہن میں ان گنت سوال گردش کرتے تھے جس کے جواب ہانیہ کے پاس نہیں تھے اور جن کے پاس تھے اس کے پاس وقت نہیں تھا ۔
٭٭٭٭٭٭
ہانیہ یہ کیسے کپڑے پہنے ہیں؟ کیا ہم میلاد میں جارہے ہیں؟ یہ تم نے اپنے آپ کو ڈھانپ کیوں کر رکھا ہے “
”بی جی آج کل آپ بھی ہانیہ پر بالکل توجہ نہیں دے رہیں “
پھر ربیعہ نے خود ہی ہانیہ کے لیے کپڑے منتخب کیے
"ماما یہ بہت چھوٹے ہیں مجھے ایسے کپڑوں میں الجھن ہوتی ہے "
"ُکیا بُرائی ہے ان کپڑوں میں تمہاری جتنی عمر کی لڑکیاں شورٹ اور سلیولیس ٹی شرٹ شوق سے پہنتی ہیں اور ایک تم ہو بوڑھی روح!
اب جلدی کرو دیر ہورہی ہے “.....
ہانیہ نے خاموشی سے ربیعہ کے منتخب کردہ کپڑے پہن لیے
پارٹی میں ہر کوئی ہانیہ کی تعریف کررہا تھا اور اس کی برہنہ ٹانگوں اور دودھ جیسے سفید بازوؤں کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے ایکسرے کررہا ہو
ہانیہ کو سب کی نگاہوں سے وحشت ہورہی تھی ،اس لیے وہ سب سے چھپ کر ایک کونے میں بیٹھ گئی
"ہانیہ تم میں بالکل اعتماد نہیں ہے ،مسز فرقان کی بیٹی کیسی سب میں گھل مل رہی تھی اور ایک تم تھی ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئ تھیں جیسے اس پارٹی میں انسان نہیں تھے جن بھوت تھے “
وہ اپنی ماما کو کیا کہتی کہ” اسے تو تیسری مخلوق سے بھی زیادہ خطرناک وہ لوگ لگے ہیں کیوں کہ جن بھوت بھی اپنی برادری کے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ہوں گے جب کہ یہ لوگ تو اپنے خون تک کو بھی نہیں بخشتے “۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ربیعہ نے اپنا سوشل سرکل بہت وسیع کر لیا اور ساتھ ہی اپنا کپڑوں کا بزنس ہانیہ کے بابا کے کزن سیف کے ساتھ شروع کرلیا تھا۔ اب اس کے پاس گھر اور ہانیہ کے لیے بالکل بھی وقت نہیں تھا، گھر تو بی جی کے رحم وکرم پر چل رہا تھا لیکن ہانیہ دن با دن کمزور ہوتی جارہی تھی۔وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی، بی جی سے بھی اب وہ متنفر ہوتی جارہی تھی بس ایک اس کے بابا کے کزن اور اس کی امی کے بزنس پارٹنر سیف تھے جن کے آنے سے اس کے چہرے پر خوشی کے رنگ دکھائی دیتے تھے انہوں نے ہانیہ کو بہت کم وقت میں اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ۔ وہ آتے تو وہ خوش ہوجاتی اور ان کے جاتے ہی وہ پھر سے اپنے خول میں قید ہوجاتی، ان ہی کے کہنے پر ہی ربیعہ نے ڈرائیور کو فارغ کیا ۔
اسی وجہ سے آج کل ہانیہ بہت خوش تھی اور آج کافی دنوں کے بعد بی جی سے اپنے دل کی بات کررہی تھی ۔
”بی جی سیف انکل مجھے اپنے بابا جیسے لگتے ہیں، بابا بھی یوں ہی مجھ سے پیار سے بات کرتے تھے میرے چہرے سے دل کی بات جان لیتے تھے ۔ “
”لیکن ہانیہ وہ تمہارے بابا نہیں ہیں تمہارے بابا اللہ کے پاس رہتے ہیں ۔ “
"جانتی ہوں میں، لیکن سنا ہے کچھ رشتے خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں، جہاں رشتہ خون کا ہو لیکن احساس ہی نہ ہو تو میری نظر میں وہ رشتہ ایک ایسا پھول ہے جس میں خوشبو نہیں اور بی جی بغیر خوشبو والے پھول کس کو اچھے لگتے ہیں ؟“سیف انکل کہتے ہیں کہ
”میں بھی تمہارے بابا جیسا ہوں اس لیے تم مجھے ہر بات بتایا کرو اور جانتی ہیں وہ بھی مجھے اپنے گھر کی ہر بات بتاتے ہیں۔ “
ہانیہ نے فخریہ انداز میں کہا
”چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے، ہانیہ بے بی خوش تو اس کی بی جی بھی خوش۔ “
لیکن خوشی دائمی کب ہوتی ہے ،یہ تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے جو پل بھر کے لیے لبوں پر مسکان لاتی ہے اور پھر اوجھل ہوجاتی ہے ۔
٭٭٭٭٭
بی جی کی طبیعت کچھ دنوں سے بوجھل ہورہی تھی اس لیے آج وہ ہانیہ کے بےحد اصرار پر دوا لینے گئی ہوئی تھی اس وقت سیف انکل کی آمد نے ہانیہ کو حیران کردیا
“آپ اس وقت سیف انکل ؟!“
”ماما تو گھر پر نہیں ہیں۔ “
”وہ مجھے ایک چیک پر ان کے سائن کروانے تھے تو میں نے کہا تم۔سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور چیک بھی سائن کروالوں گا
لیکن اگر میری بیٹی کو کوئی اعتراض ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں شام کو پھر آ جاؤ ں گا“
”کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سیف انکل مجھے تو آپ کی کمپنی میں بہت مزہ آتا ہے “
”مجھے بھی میری بیٹی کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا ہے“
سیف انکل نے ہانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
”اور آپ جانتے ہیں کل فادرز ڈے تھا تو میں نے آپ کے لیے کارڈ بھی بنایا ہے ،آپ بیٹھیں میں اپنے کمرے سے لے کر آتی ہوں۔ “
لیکن ہانیہ کو کمرے سے نیچے آنے کا موقع ہی نہیں ملا
”میں کارڈ دیکھنے کے لیے اتنا بےتاب ہورہا تھا کہ میں خود تمہارے کمرے میں آگیا
یہ تو بہت خوبصورت کارڈ ہے بہت شکریہ ہانیہ “
سیف انکل نے اسے گلے سے لگا لیا اور بھولی ہانیہ شفقت اور ہوس کے درمیان فرق نہیں کر پارہی تھی بس وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سےسیف انکل کو دیکھ رہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ باپ اپنی بیٹی کی ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے ، مسیحا کسی کی جان کیسے لے سکتا ہے، خوشبو فروخت کرنے والا کسی کی زندگی کو بدبودار کیسے بنا سکتا ہے ۔
ہانیہ فرش پر اوندھے منہ پڑی تھی
”ہانیہ میرا بچہ کیا ہوا مجھے بتاؤ “
ربیعہ نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا لیکن ہانیہ کچھ نہیں بول رہی تھی بس اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور کھلی آنکھیں اپنی ماما سے یہی شکوہ کر رہی تھیں ۔
"ماما آپ کو تو خدا نے میرا سرپرست بنایا تھا نا آپ کی محبت کا موازنہ خود اپنی محبت سے کیا تھا لیکن آپ نے کیا کیا محبت تو دُور کی بات آپ نے تو مجھے وقت بھی نہیں دیا۔ماما چڑیا بھی اپنے بچوں کو اس وقت چھوڑتی ہے جب اسے اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب میرے بچے پرواز کے قابل ہوگئے ہیں لیکن میرے تو ماما پر ہی نہیں آئے تھے اور آپ نے مجھے منہ زور ہواؤں کے تھپیڑوں کے حوالے کردیا پھر تو میری حالت ایسی ہونی ہی تھی نا، مجھے تو بلندیوں سے پستیوں میں گرنا ہی تھا۔“