وہ بچپن جنہیں شرارتوں کی نذر ہونا تھا، جس میں ایک بچے کی تربیت ہونی تھی ، ادب کرنا سیکھنا تھا اسی بچپن میں اس نے سیکھا تو بس یہ کہ کسی شخص سے ملنے کے بعد اس کے بارے میں گفتگو کرنا اہم ترین موضوع ہے ، جس میں صرف اور صرف اس کی بری عادتوں کو بیان کیا جائے، اس بات کا مشاہدہ کرنے کی صورت یہ ہے کہ تین بچوں کو ساتھ دیکھیں پھر ان میں سے ایک اٹھ کر جائے تو باقی دو اس کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے لگ گئے ہیں ، اگر ایسا مشاہدہ آپ کو نہ ہو (اور خدا کرے نہ ہی ہو) تو مبارک ہو وہ بچے اس مصیبت سے محفوظ ہیں۔
مریم رحمن
پریشانی، یہ ایک ایسا لفظ ہے جس نے انسان کے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے تمام دور کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، یہ صرف ایک لفظ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو ہی روند کر اپنا آپ منوا لیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن ، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں جوانوں اور بچوں کو بھی اپنا شکار بنا رہی ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ جس کی ترتیب سرِ فہرست رکھ کر اسے اپنی زندگی کے اس خوبصورت دور کو عبور کرنا تھا اس نے ہر وقت اپنے والدین کو لڑتے جھگڑتے ، مہنگائی کا رونا روتے اور دوسروں کی برائیاں کرتے دیکھ کر گزارا۔ اس کا چھوٹا سا ذہن یہی سوچنے کی کوشش میں لگا رہا کہ یہ الفاظ اپنے اندر جس قدر سنجیدگی لیے ہوئے ہیں اسی قدر اس کے بچپن کی شرارتوں کو کم کر رہے ہیں، وہ بچپن جنہیں شرارتوں کی نذر ہونا تھا، جس میں ایک بچے کی تربیت ہونی تھی ، ادب کرنا سیکھنا تھا اسی بچپن میں اس نے سیکھا تو بس یہ کہ کسی شخص سے ملنے کے بعد اس کے بارے میں گفتگو کرنا اہم ترین موضوع ہے ، جس میں صرف اور صرف اس کی بری عادتوں کو بیان کیا جائے، اس بات کا مشاہدہ کرنے کی صورت یہ ہے کہ تین بچوں کو ساتھ دیکھیں پھر ان میں سے ایک اٹھ کر جائے تو باقی دو اس کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے لگ گئے ہیں ، اگر ایسا مشاہدہ آپ کو نہ ہو (اور خدا کرے نہ ہی ہو) تو مبارک ہو وہ بچے اس مصیبت سے محفوظ ہیں۔ ادب کے فقدان کے ساتھ ساتھ وہ اساتذہ جو والدین کے ساتھ بچوں کی تربیت میں روحانی طور پر شریک ہوتے تھے ان کی سختی اور رعب کو نکالنے والے بھی ہم خود ہی ٹھہرے جس کی وجہ سے وہ بچہ کبھی بھی ایک استاذ کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر ہی رہا (یقینا یہ خمیازہ اب اس کی نسلیں کو بھی بھگتنا ہوگا) پھر استاذ کے ساتھ وہ رویہ جسے اس نے ہمیشہ اختیار کیا اس کے ذہن نے کبھی قبول نہ کیا۔۔ جب تک اس کا ضمیر زندہ رہا ملامت کرتا رہا اور یوں اندرونی طور پر وہ ایک جنگ لڑتا رہا۔
پریشانیوں سے دور بھی ایک زندگی ہے ، رب کی رضا میں راضی رہنا بھی کوئی عمل ہے جو پریشانیوں سے دور انسان کو پرسکون رکھتا ہے لیکن بچپن میں اپنی پسندیدہ چیز حاصل نہ کرنے کی فکر ، حاصل شدہ چیز پسند نہ ہونے کی فکر سے لے کر بڑے ہو کر اپنی اولادوں کو اس طرح کے افکار میں ڈوبا دیکھ کر ان کی فکر۔۔ یہی زندگی کا چکرویو بن گیا ہے، ہم میں سے ہر ایک شخص ہمت کرکے اس چکر ویو کو توڑ سکتا ہے، اپنے کام سے کام رکھنا سیکھ سکتا ہے ، سکھا بھی سکتا ہے ، دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنے کی ہمت کر سکتا ہے، حاصل شدہ چیزوں کو اپنا کر لاحاصل کی طرف سے توجہ ہٹا سکتا ہے یوں وہ اپنے رب کا شکر گزار بھی بنے کا اور اس پریشانی کے جال سے بھی باہر آسکے گا کیونکہ
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا